پاکستان اور امریکہ میں معاہدے کے بعد اسامہ بن لادن کیخلاف کارروائی ہوئی:امریکی صحافی
واشنگٹن(مانیرنگ ڈیسک) امریکا کے مشہور تحقیقاتی صحافی سیمور ہرش نے اپنے دعویٰ کو دہرایا ہے کہ القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں پاکستان نے امریکا کی مدد کی تھی۔پولٹزر پرائز جیتنے والے سیمور ہرش نے یہ دعویٰ پہلی بار ایک سال قبل اپنے ایک مضمون میں کیا تھا، جس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا اور وائٹ ہاو¿س کی جانب سے اس دعوے کو جھوٹا قرار دیا گیا، جبکہ امریکا کے بڑے میڈیا اداروں نے بھی اسے غلط بیانی پر مبنی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
لیکن سیمور ہرش نے رواں ہفتے شائع ہونے والی اپنی نئی کتاب ’دی کلنگ آف اسامہ بن لادن‘ (اسامہ بن لادن کی ہلاکت) میں ایک بار پھر اپنے اس دعوے کو دہراتے ہوئے زور دیا ہے ان کی بات ٹھیک تھی۔
’ڈان نیوز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے سیمور ہرش نے کہا کہ گزشتہ سال جب انہوں نے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد کے ایک کمپاو¿نڈ میں موجودگی اور ہلاکت کے حوالے سے نئے شواہد دیکھے تو ان کے دعویٰ کو مزید تقویت ملی۔اخبار لکھتا ہے کہ امریکی صحافی نے اپنے دعوے پر ڈٹے رہنے کا اظہار کرتے ہوئے کہا پاکستان نے اسامہ بن لادن کو 2006 میں حراست میں لیا اور سعودی عرب کی مدد سے کئی سالوں تک قید رکھا، جس کے بعد پاکستان اور امریکا کے درمیان ایک معاہدہ ہوا کہ امریکا اسامہ کے کمپاو¿نڈ میں کارروائی کرے گا لیکن بظاہر ایسا دکھایا جائے گا کہ پاکستان اس کارروائی سے بے خبر رہا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اب اس معاملے کے حوالے سے پہلے سے کئی گنازیادہ معلومات ہیں۔سیمور ہرش کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی وجہ سے پاکستان مسلسل الرٹ ہے، اس کے ریڈار ہر طرح کی حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں، جبکہ اس کے ایف 16 طیارے بھی کسی بھی طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، ایسے میں امریکی ہیلی کاپٹروں کے لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ پاکستان کو الرٹ جاری کیے بغیر ایبٹ آباد میں داخل ہوں۔
اخبار کے مطابق انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکیوں سے یہ معاہدہ اس وقت کے آرمی چیف اور آئی ایس آئی سربراہ نے کیا، جس سے دیگر پاکستانی جرنیلوں کو پریشانی ہوئی۔
اخبار کے مطابق امریکی صحافی کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے اس وقت کے پاکستان کے ایئر ڈیفنس کمانڈ کے سربراہ بہت پریشان اور برہم ہوئے، وہ عوام کے سامنے جانا چاہتے تھے لیکن انہیں خاموش رہنے کی تلافی کے طور پر ریٹائرمنٹ کے بعد پی آئی اے کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ایک ہزار 400 سے زائد ریڈیو اور ٹی وی چینلز چلانے والے ’ڈیموکریسی ناو¿‘ کو انٹرویو کے دوران سیمور ہرش کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا نے مل کر اسامہ کے حوالے سے ’ہم نے دریافت‘ کیا کی داستان تخلیق کی۔اخبار کے مطابق انہوں نے کہا کہ اگست 2010 میں ایک پاکستانی کرنل، امریکی سفارت خانے میں آئے اور پھر اس وقت کے سی آئی اے سٹیشن چیف جوناتھن بینک سے ملاقات میں کہا کہ ’اسامہ بن لادن ہمارے پاس 4 سال سے ہے۔‘
سیمور ہرش نے ڈان کو بتایا کہ مذکورہ کرنل کو بعد ازاں امریکا منتقل کردیا گیا اور آج وہ واشنگٹن کے قریب کسی علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی انٹیلی جنس نے اسامہ بن لادن کو ہندوکش کے علاقے سے گرفتار کیا، جس کے بعد ایبٹ آباد میں ایک کمپاو¿نڈ تعمیر کیا گیا جہاں اسامہ کو رکھا گیا، پاکستانی حکام نے ایساسعودی عرب کے کہنے پر کیاتھاکیونکہ سعودی عرب یہ نہیں چاہتا تھا کہ امریکا اسامہ سے کسی طرح کی تفتیش کرے۔
انہوں نے کہا جب سی آئی اے نے پاکستانی حکام کو، اسامہ کے کمپاو¿نڈ میں 2 مئی 2011 کے سرپرائز آپریشن کا کہا تو وہ راضی ہوگئے، کیونکہ انہوں نے ہمیں بتائے بغیر اسامہ کو حراست میں لیے رکھا تھا، امریکی حکام پہلے ہی بہت پریشان تھے اور پاکستانی حکام اس معاملے کو مزید طول نہیں دینا چاہتے تھے۔سیمور ہرش سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا ان کی یہ کہانی پاکستان انٹیلی جنس ذرائع سے معلوم ہونے والی معلومات پر مبنی ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ’بالکل نہیں، میرے امریکا میں بھی کئی ذرائع ہیں جن سے مجھے معلومات ملیں۔‘