قانون کی معذوری اور شیخ سعدی کی حکایات
دروازہ جس انداز میں پیٹا جارہا تھا اسے دستک ہرگز نہیں کہا جاسکتا تھا ۔رات کے اس پہر کون آگیا؟ میں ہڑبڑا کر اٹھا اور دروازہ کے پا س آکر پوچھا کون ؟ جلال دین ،جواب ملا ۔اوہ جیلا ککڑ، مَیں نے دروازہ کھولا تو اس نے بغیر سلام دعا کے استفسار کیا کہ کیا میرے پاس ’’دی گاڈ فادر‘‘کی کوئی جلد ہے ۔میرا جواب نفی میں پا کر اس نے غصیلے لہجے میں کہا کہ اب اسے بڈھے کو کیسے سمجھاؤں گا؟ بڈھے سے اس کی مراد چاچا نذیر تھا جو ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر ہیں اور جیلا ککڑ مختلف قومی معاملات پر ان سے بحث ومباحثہ میں الجھا رہتا ہے ۔یہ بحث پہلے تکرار میں بدلتی ہے اور پھر چند روزہ قطع تعلقی پر منتج ہوتی ہے۔ مَیں نے پوچھا کہ کیا چاچا نذیر سے پاناما کیس کے فیصلے پر مباحثہ ہو رہا ہے؟ پاناما کیس تو ہے ہی، لیکن سردست مقامی سطح کا ایک مسئلہ درپیش ہے یہ کہہ کر وہ واپس چل دیا۔
جلال دین زیادہ پڑا لکھا نہیں ہے اس کے دورجوانی میں جب کسی ہمسایہ کی مرغی غائب ہوتی تھی تو اس کی باقیات جلال دین کے گھر سے برآمد ہوتی تھیں جس کے بعد وہ محلے میں جیلا ککڑ کے نام سے مشہور ہوگیا ۔مجھے معلوم تھا جیلا ککڑ نچلا بیٹھنے والا نہیں ۔دوسرے روز چاچا نذیر نے مجھے پیغام بھیج کر بلایا تو جیلا ککڑ پہلے سے وہاں موجود تھا اور دونوں کے درمیان تُو تکار جاری تھی ۔چاچا نذیر اسے سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ پانچ میں سے دو ججوں کے اختلافی فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ تینججوں نے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنا کر تحقیقات کا جو حکم دیا ہے اسی پر عمل درآمد ہوگا ۔ جے آئی ٹی کو بے لگام نہیں چھوڑا گیا اسے وزیراعظم اور ان کے بیٹوں سمیت تمام لوگوں کو طلب کرنے کا اختیار دیا گیا ہے ۔سپریم کورٹ نے تحقیق طلب امور بھی خود ہی طے کئے ہیں اور جے آئی ٹی کی نگرانی کے لئے سپریم کورٹ کا ایک بنچ بھی بنے گا جو کوئی ہینکی پھینکی نہیں ہونے دے گا ۔جیلا ککڑ نے اچانک اپنے تھیلے سے ایک بوسیدہ سی کتاب نکالی اور میری طرف فاتحانہ انداز میں دیکھ کرکہا کہ جو کتاب آپ لوگوں کی لائبریری میں ہونی چاہئے تھی وہ دو دو سو روپے میں فٹ پاتھوں پر بِک رہی ہے۔یہ دی گاڈ فادر کا اُردو ترجمہ تھا اُس نے کہا ، یہ یکھ نذیر! پاناما کیس کی ساری کہانی اس میں بند ہے ۔
مجھ سے رہا نہ گیا مَیں نے کہا یہ پاناما کی کہانی نہیں، یہ تو ماریو پوزو کا ناول ہے، جس کی کہانی انڈر ورلڈ مافیا کے ایک اطالوی نژاد امریکی ڈان ویٹو کارلیون کے خاندان کے گرد گھومتی ہے۔جیلا ککڑ کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی اور چہک کر بولا ،یہ بات، یہ دیکھو اس نے کیا لکھا ہے ، ’’ہربڑی خوش قسمتی کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے‘‘جسٹس آصف سعید کھوسہ اِس حقیقت کو جانتے ہیں ۔ اسی لئے انہوں نے اپنے فیصلے کا آغاز اس مقولہ سے کیا ہے ۔چاچا نذیر کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا اور انہوں نے بلند آواز سے کہا کیا تو یہ کہنا چاہتا ہے کہ دی گاڈ فادر پڑھ کر فاضل جج کا ذہن بن چکا تھا اور انہوں نے مقولوں کی بنیاد پر فیصلہ لکھ دیا ہے ۔کیا تونے فیصلہ پڑھا ہے ؟ فیصلہ نہیں پڑھا ، خبریں پڑھی ہیں ، نیوز چینل پر مذاکرے سنے ہیں ۔جیلا ککڑ نے منحنی سی آواز میں جواب دیا ۔چاچا نذیر نے قدرے دھیمے لہجے میں کہا یہ مقولہ ماریو پوزو کا نہیں،بلکہ اس نے فرانسیسی ناول نگار اور دانشور بالزاک کا قول نقل کیا ہے ۔بالزاک 1799ء میں پیدا ہوا اور1850ئمیں مرگیا اس نے باپ کی خواہش پر قانون کی تعلیم حاصل کی، لیکن وکالت شروع نہ کی جس پر خاندان والوں نے اسے گھر سے نکال دیا۔ حالات نے اسے سرمایہ دارانہ نظام کا مخالف بنا دیا اور اس نے اشتراکی سوچ رکھنے والے دانشوروں کی طرح امراء کی مالی کامیابیوں پر تنقید شروع کر دی ۔اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ایک عظیم کامیابی کے خفیہ گوشے ایک ایسے جرم پر مبنی ہوتے ہیں جو کبھی ثابت نہیں ہوتا‘‘۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بالزاک کے اس دوسرے مقولہ کو بھی اپنے فیصلے کا حصہ بنایا ہے، کارل مارکس نے اپنی کتاب ’’داس کیپٹل‘‘ میں بالزاک کے نظریات سے استفادہ کیاہے۔ بالزاک زندگی بھر قرض کے بوجھ تلے دبا رہا۔ اُس نے جب بھی کسی کردار کو متعارف کروایا خود کو اس میں سمو دیا، اس کی تصانیف کے کردار، جذبہ اور تفکر کا مجموعہ ہیں تاہم جذبہ اس کے کرداروں پر مسلط ہو کر انہیں تباہ کر دیتا ہے۔ اس گفتگو کے دوران جیلا ککڑ ہونقوں کی طرح کبھی میری اور کبھی چاچا نذیر کی طرف دیکھتا رہا، ماحول کو بوجھل دیکھ کر مَیں نے ہنستے ہو جیلا ککڑ سے کہا کہ آپ کو پاناما کیس کے فیصلے سے کیا مسئلہ ہے؟ اس کی بجائے چاچا نذیر نے جواب دیا کہ اسے مسئلہ پاناما کیس سے نہیں شیخ حسام الدین کے بیٹے سے ہے۔ یہ ناہنجار کہتا ہے کہ شیخ کے لڑکے کا کردار مشکوک ہے، وہ کوئی کام کاج نہیں کرتا،لیکن نت نئی گاڑیوں پر چڑھا پھرتا ہے۔ایسے جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف محلہ داروں کی خاموشی جرم کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔
سنا ہے وہ تو سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کا کاروبار کرتا ہے، مَیں نے کہا ۔جیلا ککڑ بھڑک اٹھا اور کہا کہ اس کی ان بداعمالیوں کے پیچھے ایک ایسا جرم ہے جو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ مَیں نے کہا آپ کو اس سے کوئی شکایت ہے تو پولیس سے مدد کیوں نہیں لیتے۔ چچا نذیر نے کہا جب سے پاناما کیس کا فیصلہ آیا یہ کوڑھ مغز تین مرتبہ تھانہ کے چکر لگا آیا ہے۔ وہ جرم کی نوعیت پوچھتے ہیں تو یہ پاناما کیس کا فیصلہ نکال کر سامنے رکھ دیتا ہے اور تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے۔بالزاک کے مقولوں کے تحت کارروائی کا متمنی ہے اور کہتا ہے کہ جسے سپریم کورٹ کے جج مانتے ہیں اسے پولیس ماننے سے انکار نہیں کر سکتی۔ اسے کون سمجھائے کہ بالزاک کے فرمودات کوئی فقہی اصول طے نہیں کرتے ،وہ کوئی جیورسٹ یا فقہیہ نہیں تھا۔ جیلا ککڑ نے کہا کہ جناب مَیں نے مثنوی مولانا رومؒ سے بھی فال نکالی ہے۔اشارہ شیخ حسام الدین کے بیٹے کی طرف ہی ہوا ہے، کیا فال نکلی ہے؟ کیوں بزرگوں کو بیچ میں لاتے ہو، خدا کا خوف کرو۔ چچا نذیر پھر جذباتی ہو گئے۔ ناراض ہونے کی ضرورت نہیں، یہ دیکھیں کیا لکھا ہے؟ جیلا ککڑ نے جیب سے ایک کاغذ نکال کر دکھایا،جس پر اس نے اپنے ہاتھ سے ایک شعر لکھ رکھا تھا کہ
اے ضیا الحق حسام الدین سعید
دولتت پائندہ عمرت برمزید
چاچا نذیر نے سر پکڑ لیا اور کہا کہ بدبخت تمہیں معلوم ہے حسام الدین کون تھے؟وہ مولانا جلال الدین رومی کے خلیفہ اور محرم راز تھے۔ اس شعر میں تو انہیں سلطنت قائم رہنے اور عمر میں اضافہ کی دُعا دی گئی ہے۔ اس پر جیلا ککڑ سکڑ کر صوفے میں دھنس گیا، وہ روہانسا ہو کر بولا: جب سے پاناما کیس کا فیصلہ آیا ہے، مَیں بے چین ہوں۔مجھے امید ہے کہ شیخ کے لڑکے کے خلاف کارروائی ہو گی،لیکن ملکی قانون میری مدد نہیں کر رہا۔سب کہتے ہیں کہ شیخ کے لڑکے کا کردارقانون کی نظر میں قابلِ گرفت نہیں ہے۔جیلا ککڑ نے مزید کہا کہ داناؤں کے اقوال سے ہم رہنمائی لیتے ہیں یہ اقوال روشنی ہیں۔ وہ برافروختہ نظر آرہا تھا ،وہ اُٹھ کر کھڑا ہو گیا اور چاچا نذیر کی طرف انگلی کا اشارہ کر کے کہا کہ سن لے نذیر مَیں چُپ نہیں رہوں گا، مَیں شیخ کے لڑکے کے خلاف عدالت میں جاؤں گا، مَیں دہائی دوں گا کہ اگر قانون معذور ہے، اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تو پھر حکایات سعدی سے مدد لی جائے۔ یہ کہہ کر وہ اتنی تیزی سے باہر نکلا کہ ہمیں اس کی منطق پر سوال اٹھانے کا بھی موقع نہیں ملا۔