یروشلم (مانیٹرنگ ڈیسک) ہیکلِ سلیمانی اور تابوت سکینہ کا ذکر مذہبی تاریخ کے حوالے سے بکثر ت سننے کو ملتا ہے لیکن حقائق کا علم بہت کم پایا جاتا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں میں اس کے متعلق مختلف آراءبھی بیان کی جاتی ہیں تا ہم اہم نکات و واقعات پر تاریخ دانوں کا اتفاق پایا جاتا ہے۔
ویب سائٹ Parhloکی ایک رپورٹ میں بیان کردہ تفصیلات کے مطابق جب بنی اسرائیل فرعون سے نجات پا کر فلسطین چلے آئے تو انہوں نے عرب سرزمین پر بسیرا کرلیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کی رہنمائی حضرت طالوت علیہ السلام، حضرت داﺅد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے کی۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ حضرت داﺅد علیہ السلام نے حضرت طالوت علیہ السلام کی صاحبزادی سے شادی کی۔
تابوت سکینہ کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کو دیا گیا اور ان سے حضرت داﺅد علیہ السلام تک پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ جب یہ صندوق حضرت داﺅد علیہ السلام کے پاس تھا تو اس میں لوح قرآنی اور موسیٰ علیہ السلام کا عصا بھی تھا، اور تورات، کوہ سینا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تختیاں، اور وہ برتن بھی تھا جس میں آسمانوں سے من و سلویٰ اترا کرتا تھا۔ اسرائیلی تابوت سکینہ کو اپنے قبلہ کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے۔
تاریخ کی کتابوں کے مطابق حضرت داﺅد علیہ السلام نے تابوت سکینہ کے تحفظ کیلئے ایک مضبوط عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ عمارت حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں مکمل ہوئی اور اسے ہیکلِ سلیمانی کا نام دیا گیا۔ تابوت سکینہ اس عمارت میں اہل بابل کے حملے تک محفوظ رہا۔ بعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اہل بابل اسے اپنے ساتھ لے گئے جبکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اسے آسمانوں پر اٹھالیا گیا۔
اس واقعے کے بعد بنی اسرائیل نے ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کیا۔ بعد ازاں رومیوں نے حملہ کیا اور اسے ایک بار پھر نشانہ بنایا۔ انہوں نے اس کی جگہ ایک کلیسا کی تعمیر کی۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سرزمین کو فتح کیا تو رومیوں کے کلیسا سے کچھ فاصلے پر دعا فرمائی، جہاں مسجد اقصیٰ کی تعمیر کی گئی۔
یہودی دعویٰ کرتے ہیں کہ جس جگہ مسجد اقصیٰ واقع ہے وہاں ان کا معبد تھا۔ مسلمان اس جگہ کو اپنے لئے مقدس جانتے ہیں، مگر یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ مسجد کو شہید کرکے اس کی جگہ ہیکلِ سلیمانی کی دوبارہ تعمیر کی جائے گی۔ وہ ہیکل کی ایک پس ماندہ دیوار میں واقع دروازے کے متعلق بھی سمجھتے ہیں کہ یہ قیامت سے قبل ان کے بادشاہ کی واپسی کا راستہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب اس دروازے سے ان کا بادشاہ نکلے گا تو اس کے پیچھے تمام مردے اٹھ کھڑے ہوں گے، البتہ مسلم روایات کے مطابق یہودیوں کا بادشاہ دجال ہے۔