شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت جنگی مشقیں

شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت جنگی مشقیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع نے امن و استحکام، ترقی و خوشحالی کے لئے مشترکہ کمیونٹی بنانے کے لئے شنگھائی سپرٹ کی حمایت کر دی امن مشن2018ء کے نام سے تنظیم کے تحت مشترکہ فوجی مشقیں ہوں گی، جن میں پاکستان، بھارت،چین اور روس سمیت آٹھ ممالک شامل ہوں گے۔فوجی مشقیں اگست سے ستمبرتک ہوں گی جن کی میزبانی روس کرے گا، تاریخ میں پہلی بار پاکستان اور بھارت کی افواج دہشت گردوں کے خاتمے، دہشت گردی کے نیٹ ورک کو بے اثر کرنے اور جنگ کی تیاری کو جانچنے کے علاوہ ممکنہ حملوں کو روکنے کے لئے مشترکہ مشقیں کریں گی،بھارت نے مشقوں میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا کہ پاکستان نے اپنے شہریوں اور فوجیوں کے خو ن کی قربانیوں کی قیمت پر اپنی سرزمین سے دہشت گردی ختم کی ہے، ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں120 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان برداشت کیا ہے۔
چند برس سے شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہو گئے ہیں،دونوں ممالک نے کافی عرصے تک اس تنظیم میں بطور مبصر شرکت کی، پھر کہیں جا کر اُنہیں اس کا رُکن بنایا گیا، یہ دونوں ممالک کے لئے اس لحاظ سے اعزاز کی بات ہے کہ انہیں ایک ایسی تنظیم کی رکنیت ملی ہے، جس میں چین اور روس جیسے بڑے ممالک پہلے سے شامل ہیں یہ ایک وقیع تنظیم ہے پاکستان اور بھارت کی شمولیت کے بعد اگر اِس تنظیم کا دائرہ کار بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی سرگرمیوں میں تنوع آتا ہے، تنظیم کے اثرو رسوخ میں اضافہ ہوتا ہے اور تنظیم ترقی کے مقاصد کو آگے بڑھاتی ہے تو یہ اس کے مستقبل کے لئے بھی خوش آئندہو گا،لیکن پاکستان اور بھارت دونوں سارک تنظیم کے بھی رُکن ہیں، اس میں بھارت کا طرزِ عمل یہ ہے کہ جونہی اس کا سربراہی اجلاس پاکستان میں منعقد ہونا ہوتا ہے بھارت اس میں کوئی نہ کوئی اڑچن ڈال دیتا ہے۔گزشتہ برس اسلام آباد میں سارک کا اجلاس ہونا تھا تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اس کے راستے میں روڑے اٹکائے اور اب پھر اجلاس کے انعقاد کی بات چلی تو بھی بھارت اپنا پرانا طرزِ عمل دہرانے پر اُتر آیا ہے اور دوبارہ اجلاس کا انعقاد مشکوک ہو گیا ہے،حالانکہ اہم بات یہ ہے کہ جب بھی اجلاس ہو گا پاکستان میں ہی ہو گا،اِس لئے بھارت کو اپنا طرزِ عمل بدلنے کی ضرورت تھی،لیکن اتفاق سے ایسا نہیں ہو سکا، شنگھائی تعاون تنظیم کے ذکر کے ساتھ سارک کا تذکرہ یوں ضروری ٹھہرا کہ بھارت کے طرزِ عمل کی وجہ سے یہ تنظیم اپنے قیام سے لے کر اب تک خطے کو خوشحالی کے سفر پر گامزن نہیں کر سکی، تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بھارت سارک کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتا ہے اور باقی سارے ممالک کو اپنے اثرو رسوخ کی چھتری تلے رکھنا چاہتا ہے۔اگر ایسی ہی خواہشات کے ساتھ بھارت شنگھائی تعاون تنظیم میں ویسی ہی حرکتیں کرتا ہے تویہ تنظیم کے وسیع تر مفاد میں نہیں ہو گا، تاہم امید رکھنی چاہئے کہ روس اور چین کی موجودگی میں بھارت شنگھائی تنظیم میں سارک والا رویہ اختیار نہیں کر سکے گا۔
اب اگر پاکستان اور بھارت تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسی جنگی مشقوں میں شرکت کرتے ہیں جن کا مقصد دہشت گردی پر قابو پانا اور اس کے مقابلے کے لئے تنظیم کے رُکن ممالک کو تیار کرنا ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے،دونوں ممالک کے تعلقات میں جس طرح کی کشیدگی پائی جاتی ہے اس سے دُنیا بے خبر نہیں ہے اور اقوام متحدہ میں اس کی صدائے باز گشت بھی وقتاً فوقتاً سُنی جاتی ہے، دُنیا کو یہ بھی معلوم ہے کہ کشمیر کے معاملے پر دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں اور دونوں کے درمیان کشمیر کی کنٹرول لائن پر کشیدگی بھی پائی جاتی ہے اور گزشتہ چند سال سے اس میں کمی نہیں ہو پا رہی،اس کے باوجود اگر آٹھ ملکی مشقوں میں پاکستان اور بھارت کی فوجیں شریک ہوتی ہیں تو اسے اِس مثبت پہلو سے دیکھنا چاہئے کہ دونوں ملکوں کی فوجیں اقوام متحدہ کی امن فوج میں بھی دُنیا کے مختلف ممالک میں خدمات انجام دیتی رہتی ہیں، اب ان جنگی مشقوں میں شرکت کے بعد اگر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے تو اسے اِن مشقوں کا اضافی فائدہ سمجھا جانا چاہئے۔
جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے یہ دُنیا کے ہر مُلک کا مسئلہ ہے، اِس لئے اِس کا حل بھی پوری دُنیا کو مل کر تلاش کرنا ہے اور مقابلہ بھی متحد ہو کر کرنا ہے، جس انداز سے دہشت گردی کا عفریت گزشتہ برسوں میں پھیلا اور توانا ہُوا ہے، اِس کے مقابلے کے لئے بھی پوری دُنیا کو اپنی توانائیاں مجتمع کرنا ضروری ہے،کیونکہ اگر کوئی ایک مُلک اپنے ہاں اِس پر قابو بھی پا لیتا ہے یا کسی دہشت گرد گروہ کا خاتمہ بھی کر دیتا ہے تو اِس امکان کو ردّ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ گروہ وہاں سے نکل کر کسی دوسرے مُلک میں ٹھکانے نہیں بنائے گا اِس وقت عملاً ہو بھی یہی رہا ہے۔ اگر کوئی مُلک کسی دہشت گرد گروہ کو اپنے مُلک سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو دہشت گردی کسی دوسرے خطے میں سر اُٹھا لیتی ہے، اِس لئے متحدہ اور مربوط کوششوں کے بغیر اِس کا پوری طرح قلع قمع نہیں کیا جا سکتا،اِس لحاظ سے شنگھائی تعاون تنظیم کے زیر اہتمام آٹھ ممالک کی جنگی مشقیں بہت ہی بروقت ہیں اور اگر ان کے نتیجے میں تنظیم کے رکن مُلک اپنے آپ کو دہشت گردی سے مقابلے کے لئے بہتر طور پر تیار کرپائیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔
بھارت ان جنگی مشقوں میں شریک ہو گا تو اسے اچھی طرح ادراک ہو جائے گا کہ پاکستان نے دہشت گردی کا مقابلہ کس طرح کیا اور اپنے ہاں سے ان کے نیٹ ورک کیسے ختم کئے،دوسری بات جو بھارت کو سمجھنی چاہئے اور روس کے کردار کی وجہ سے اِس میں آسانی بھی رہے گی،کیونکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جو کردار ادا کیا ہے۔روس سمیت دُنیا کے بہت سے مُلک اِس کا برملا اعتراف کرتے ہیں امریکہ بھی معترف ہے،لیکن کبھی کبھار اسے اپنی ناکامیوں کا دُکھ ہوتا ہے تو وہ جل بھن کر پاکستان پر ملبہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے جیسے آج کل کر رہا ہے، بھارت اگرچہ ماضی میں پاکستان پر دہشت گردی کو سپانسر کرنے کا بے سروپا الزام لگاتارہا ہے تاہم امید کرنی چاہئے کہ اب جب مشترکہ مشقیں ہوں گی تو اسے حقائق سمجھ میں آ جائیں گے اور وہ اپنی غلط فہمیاں رفع کر لے گا۔

مزید :

رائے -اداریہ -