وزیراعظم کا تاریخی خطاب
چین تیزی سے ترقی کرتا ہو،ا دنیا کی ایک بڑی معاشی قوت ہے۔ برملا کہا جارہاہے کہ عنقریب یہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت کے طور پر ابھرنے کے قریب ہے۔ اس پیشینگوئی کی بنیاد چین کی اِن پالیسیوں، منصوبوں اور اقدامات کو بنایاجاتاہے جو اس وقت نہ صرف چین بلکہ پڑوسی ممالک اور دیگر خطوں میں جاری ہیں اور یہ چین کی ہمہ گیر سوچ اورعظیم ترقی کے افق پر کمند ڈالنے کی مسلسل جدوجہد کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔
چین کے عظیم منصبوں میں سے ایک منصوبہ ون بیلٹ ون روڈ ہے۔ اس منصوبے کے تحت چین دنیا کے مختلف ممالک اور خطوں کو ایک عظیم شاہراہ کے ذریعے باہم منسلک کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔ اس سلسلے میں چین میں حال ہی میں ”بیلٹ اینڈ روڈ فورم“ کا انعقاد عمل میں لایا گیا جس میں دنیا کے سو سے زائد ممالک کے سربراہان اور وفود شریک ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اس فورم پر خاص طور پر مدعو ہیں۔
چین کے پاکستان کے ساتھ کئی عشروں پر محیط معاشی واقتصادی تعلقات کی گیرائی اور گہرائی کسی آلے سے ماپنے کی محتاج نہیں۔ اس کی ہمہ گیریت مسلم ہے اور اس نے دونوں ممالک کی حکومتوں اور عوام کو مختلف حالات اور اوقات کے باوجود ایک دوسرے کے قریب کررکھا ہے اور اعتماد اور تعاون کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ چنانچہ بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں جب وزیراعظم پاکستان کو مدعو کیا گیا، تو یہ دعوت ایک خصوصی اور اہم پس منظر رکھتی تھی۔
اس پس منظر کی جھلکیاں ہمہ وقت دورہ چین کے دوران دکھائی دیتی رہیں۔ چین کے تمام بڑے عہدیداروں نے جناب وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کی۔ چین کے پاکستان میں سفیر نے اردو میں ایک خصوصی مضمون لکھ کر وزیراعظم پاکستان کو چین کی سرزمین پر نہایت شاندار الفاظ میں خوش آمدید کہا ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بیلٹ اینڈ روڈ فورم سے جوخطاب کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کے سامنے نہ صرف پاکستان بلک پوری دنیا کی ترقی کا و ژن ہے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں دنیا میں عدم استحکام،غیر مساویانہ رویوں اور تجارتی رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے دنیا ترقی کی وہ منازل طے نہیں کر رہی جو اُس کا استحقاق بنتا ہے۔ وزیراعظم کاکہنا تھا کہ اس فورم سے عالمی برادری اشتراک عمل سے رابطوں میں بہتری لا کر دنیا میں قیام امن کو یقینی بنا سکتی ہے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں پانچ خاص نکات کا ذکر کیا اور کہا کہ دنیا میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کوششیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے اپنی تقریر میں دنیا کو شجرکاری کی جانب بھی توجہ دلائی اور بتایاکہ ہم نے پاکستان میں 10 ارب درخت لگانے کا منصوبہ شروع کیا ہے اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک کو مل کر مشترکہ طور پر 100 ارب درخت لگانے کا منصوبہ شروع کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ عوام کی سطح پر رابطے بڑھا نے کے لیے ٹورازم کوریڈور کا قیام عمل میں لانا چاہیے جب کہ دنیا سے رشوت اور بد عنوانی کے خاتمے کے لیے بھی پوری دنیا کے ممالک کا ایک مشترکہ آفس قائم ہونا چاہیے تاکہ دنیا سے رشوت اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں کی جاسکیں
وزیراعظم نے غربت میں کمی کے خاتمے کے لیے پوری دنیا پر زور دیا کہ وہ ا یک مشترکہ فنڈ قائم کریں تاکہ اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ انہوں نے بتایاکہ پاکستان نے حال ہی میں غربت میں کمی کے لیے احساس پروگرام شروع کیا ہے۔
وزیراعظم نے فورم کے شرکاء سے کہا کہ دنیا میں تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے اس شعبہ کو پابندیوں سے مزید آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔وزیراعظم نے پاکستان کے لیے غیر متزلزل حمایت پر چین کی قیادت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم مل کر خطے کی معاشی تقدیر بدلیں گے۔
پاک چین اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کا ذکر کریں تو اس راہداری نے پاکستان کے دنیا کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے نئی راہیں کھول دی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک کے تھنک ٹینکس اس منصوبے کی اہمیت کو تسلیم کر چکے ہیں اور آنے والے دنوں میں اسے جنوبی ایشیاء کے لیے گیم چینجر کی حیثیت دے رہے ہیں۔ اسی منصوبہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لینا ہے جِس میں دہشت گردی انتہا پسندی اور فرقہ وارریت کا خاتمہ ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ جنگوں سے ہٹ کر دنیا معیشت کی طرف دیکھ رہی ہے اقتصادی ماہرین کے مطابق 21ویں صدی اقتصادیات کی صدی ہے اور اس صدی میں دنیا کا مقابلہ وہی کر سکے گا جسکی معیشت مضبوط ہو گی۔آنے والے برسوں میں دنیا کی معیشت کا انحصار براعظم ایشیاء پر ہو گا اور سرمایہ کاری کے حوالے سے یہ دنیا کی بڑی مارکیٹ ہو گی۔
پاکستان نے بھی تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اپنے بین الاقوامی تعلقات کو از سرنو ترتیب دیا ہے۔ پاکستان کی عدم مداخلت اور حقیقت پر مبنی خارجہ پالیسی اس بات کی عکاس ہے کہ ہمیں اپنے مفادات کو دیکھنا ہے ماضی میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صفِ اول کے اتحادی کاکردار ادا کیا لیکن عالمی برادری نے ہمیں وہ صلہ نہیں دیا جسکا پاکستان حق دار تھا نتیجتاً پاکستان نے بہت بھاری مالی اور جانی نقصان اُٹھایا جس کا خمیازہ آج تک پوری قوم بھگت رہی ہے۔
پاکستان چین کے ساتھ سی پیک کے اگلے مرحلے میں داخل ہورہا ہے اور اس کا اصل مقصد خطے خصوصاً پاکستان کی سماجی اور معاشی ترقی پر زور اور اسے آگے لے جانے پر ہے جس سے پاکستان میں غربت میں کمی،زرعی تعاون اور صنعتی ترقی میں اضافہ ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم کاکہناتھا کہ بی آر آئی وژن پر 122 ممالک اور 49تنظیموں نے دستخط کیے یہ تاریخی لمحہ اور بڑی کا میابی ہے۔ پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان تبدیل ہورہا ہے توانائی میں اضافہ ہوا ہے جبکہ انفراسٹرکچر ترقی کر رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت بننے والے شاہراہوں کے ساتھ خصوصی صنعتی زونز قائم کیے جائیں گے انہوں نے چین اور دیگر ممالک کے سرمایہ کاروں کو ان اقتصادی و صنعتی زونزمیں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم سی پیک کو وسعت دیتے ہوئے چین کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں۔ ہم جو مقصد لے کر آئے ہیں اُس سے پاکستان کی قسمت تبدیل کریں گے اوراس سے عوام کی قسمت تبدیل ہوگی۔
وزیراعظم عمران نے اپنی تقریر میں ان منصوبوں کا بھی ذکر کیاجو چین کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام سے لے اب تک چین نے پاکستان کی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے شروع کیے۔ ان منصوبوں میں پہلا منصوبہ ہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا کا قیام تھا جس نے پاکستان کی معاشی ترقی میں بے مثال کردار ادا کیا۔ پاکستان میں جتنی ترقی اب تک ہوئی یا ہورہی ہے وہ ہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا کی مرہو ن منت ہے۔
سکیورٹی کے حوالہ سے بات کی جائے تو چین نے دفاعی شعبہ میں بھی پاکستان سے بہت تعاون کیا۔ چین نے نہ صرف پاکستان کو اسلحہ فراہم کیا بلکہ دفاعی طور پر پاکستان کو مضبوط بنانے کیلئے پاکستان کے اندر بھی اسلحہ کی تیاری کیلئے فیکٹریوں کے قیام میں معاونت کی جن میں پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس، ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا، پاکستان آرڈیننس فیکٹریز اور پاکستان نیوی کے دفاعی منصوبے اور میزئل فیکٹریاں چین کے تعاون سے کام کر رہی ہیں۔ پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کا مرہ جے ایف 17تھنڈر فائٹر طیاروں کی تیاری بھی پاک چین دوستی کی ایک زندہ مثال ہے۔ عالمی سطح پر بھی ان طیاروں کی تعریف کی گئی ہے اور متعدد ملکوں نے ان کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے جِس سے پاکستان کثیر زر مبادلہ کما سکے گا۔
سی پیک کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستان اُبھرتی ہوئی معاشی مارکیٹ کا منظر پیش کر رہا ہے اس منصوبہ کی وجہ سے جسے شروع ہوئے ابھی دو سال کا قلیل عرصہ ہوا ہے،پاکستان نے عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
اس منصوبہ کو مزید توسیع دے کر سرمایہ کاری کا حجم 46ارب ڈالر سے بڑھا کر 52ارب ڈالر کر دیا گیا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ سی پیک کی اہمیت کے پیش نظرروس، وسط ایشیائی ریاستوں اور دنیا کے دیگر کئی ممالک نے اپنے تعلقات کو پاکستان کے ساتھ ازسر نو ترتیب دیا ہے کیونکہ سی پیک مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک کیلئے ایک روٹ کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
مغربی چین اس روٹ کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے تیل منگوا سکے گا اور چین کی برآمدات بھی اسی روٹ کے ذریعے کی جا سکیں گی۔ یہ منصوبہ ایران، افغانستان، روس، وسط ایشیائی ریاستوں اور مغرب کے بعض ممالک کیلئے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور ان ممالک نے سی پیک میں شمولیت کیلئے پاکستان سے رابطہ کیا ہے جو سب پاکستان کی متوازن خارجہ پالیسی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ حا لات کا باریک بنی سے جائزہ لیا جائے تو ایسے ممالک بھی جو ماضی میں پاکستان کے حریف تھے اب اُن کاجھکاؤ پاکستان کی طرف ہے۔
حکومت ملک کو معاشی طور پر مضبوط کرنے اور آگے لے جانے کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے وزیراعظم عمران خان کا دورہ چین بھی اسی کا ایک حصہ ہے جس کے ہماری معیشت پر موثر اثرات مرتب ہو ں گے اور دنیا کے سرمایہ کار اور صنعتکار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی جانب بخوشی راغب ہوں گے۔