کہاں ہے آرڈیننس،کہاں ہے گڈ گورننس؟
ایسے ہی ایک خوش گمانی تھی کہ اس بار ماہِ رمضان میں مصنوعی مہنگائی نہیں ہو گی، اس خوش گمانی کی کئی وجوہات تھیں، سب سے بڑی وجہ تو یہ تھی کہ حکومت نے ذخیرہ اندوزی کے خلاف ایک سخت آرڈیننس نافذ کر دیا ہے،اب اشیاء کو ذخیرہ کر کے مہنگا کرنے والوں کی خیر نہیں۔دوسری وجہ یہ تھی کہ اس بار کورونا کی وجہ سے ہر طرف ایک خوف و ہراس موجود ہے، بڑے تاجر، آڑھتی اور سرمایہ دار بھی کچھ خوفِ خدا کریں گے اور پہلے رمضان کی قیمتیں ایک دن پہلے کی قیمتوں سے مختلف نہیں ہوں گی،پھر یہ بھی خیال رہا کہ اِس بار لوگ کورونا کی وجہ سے معاشی بدحالی کا شکار ہیں،اُن کی قوتِ خرید ہی بہت کمزور ہو چکی ہے، وہ مہنگی اشیاء خرید ہی نہیں سکتے، اِس لئے لامحالہ طلب کم ہو گی تو قیمتیں بھی کم ہو جائیں گی،مگر یہ سب خوش فہمیاں پہلے روزے کی شام دور ہو گئیں، لوگ سوشل میڈیا پر دہائی دینے لگے کہ یکدم کئی سو گنا قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔ لیموں جو ایک دن پہلے ڈیڑھ سو روپے کلو تھا، یکدم 600روپے کا کلو ہو گیا، کیلا70روپے سے چھلانگ لگا کر ڈیڑھ سو روپے درجن ملنے لگا، آلو جو ایک دن پہلے 20روپے کلو عام مل رہا تھا، یکم رمضان کو 60روپے کلو کر دیا گیا، اسی طرح دال، چینی، سبزیوں اور مرغی کے گوشت تک کو پَر لگ گئے یا رب یہ ہم کس ملک میں رہ رہے ہیں، جہاں موت کو سامنے دیکھ کر بھی خوفِ خدا نہیں، جہاں اس قدر لاقانونیت ہے کہ بڑے سے بڑا آرڈیننس بھی پانی کا بلبلہ ثابت ہوتا ہے۔یہ کتنے ظالم لوگ ہیں کہ جنہیں اِس بات کا بھی ذرہ بھر خیال نہیں کہ لوگ پچھلے ایک ماہ کے لاک ڈاؤن سے نڈھال ہو چکے ہیں،روزگار چھن گیا اور رہی سہی جمع پونجی بھی ختم ہو گئی، اب اِن لُٹے پُٹے لوگوں کو بھی جو لوگ لوٹ رہے ہیں انہیں کیا انسان کہا جا سکتا ہے۔
مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ حکومت کہاں ہے؟ کیا اُس کا کام بس یہی ہے کہ کاغذوں میں ایک آرڈیننس نافذکر دے اور اُس کے وزراء یہ بڑھکیں ماریں کہ اب کسی نے مہنگائی یا ذخیرہ اندوزی کی تو بچ نہیں سکے گا، کہاں ہیں وہ میاں اسلم اقبال جنہوں نے پنجاب میں اس آرڈیننس کے نفاذ پر ایک شعلہ بیاں پریس کانفرنس کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ آج سے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے، یہ کیسا گھیرا تنگ ہوا ہے کہ انہوں نے جینا دوبھر کر دیا ہے، اتنی مہنگائی تو پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی، جو اب آرڈیننس آنے کے بعد ہوئی ہے اس کے لئے کیا میکنزم بنایا گیا ہے کہ ذخیرہ اندوزوں کو پکڑا جائے، صرف یہ شق رکھنے سے کہ جو ذخیرہ اندوزی کی اطلاع دے گا اُسے پکڑے گئے مال کا دس فیصد دیا جائے گا، سے بات بن سکتی ہے۔ کس کے پاس اتنی فرصت اور رسائی ہے کہ جو اِن ذخیرہ اندوزوں کے ٹھکانوں کا پتہ لگا سکے، کیا صاف نظر نہیں آ رہا کہ راتوں رات اگر قیمتیں دو سو گنا بڑھ گئی ہیں تو پیچھے سے کسی نے مال کو بریک لگا دی ہے۔ ہر شے تو وافر موجود ہے پھر اس کی کمیابی کون پیدا کرتا ہے،اس پر ہاتھ ڈالنا کیا مشکل ہے۔ اس بار تو یہ بھی کہا گیا تھا کہ انٹیلی جنس اداروں سے بھی کام لیا جائے گا، کہاں ہیں وہ ادارے کہ جنہیں زمین پر بنے خفیہ گوداموں کی خبر نہیں ہو رہی،جہاں سے روزانہ تھوڑا تھوڑا مال نکال کر اُسے سونے کے بھاؤ بیچا جاتا ہے اور عوام کی جیبوں پر جو پہلے ہی کورونا وبا کی وجہ سے خالی ہو چکی ہیں، ڈاکہ ڈالنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی۔
وزیراعلیٰ عثمان بزدار جب چاہیں جتنے چاہیں چیف سیکرٹری تبدیل کر لیں، عوام کو اس سے کوئی سرو کار نہیں، انہیں تو بس اس بات سے سروکارہے کہ سرکار کی کہیں ایک جگہ تو عمل داری نظر آئے۔ لاک ڈاؤن کرانے میں تو اب پنجاب حکومت کی ناکامی اطہر من الشمس ہو چکی۔ بازار اور دکانیں کھل گئی ہیں، حتیٰ کہ مساجد میں بھی کسی معاہدے کا خیال نہیں رکھا جا رہا، مساجد میں نمازی کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں اور زیادہ تعداد پچاس سال سے اوپر کے افراد کی ہوتی ہے۔ پکوڑے سموسوں اور دہی بھلے کے سٹالوں کی اجازت دے کر سوشل فاصلے کی کمر توڑ دی گئی ہے پہلی افطار کے لئے ان سٹالوں پر اتنا رش تھا کہ جیسے کسی زمانے میں سینماؤں پر نئی فلم کے پہلے شو میں ہوا کرتا تھا،ایک طرف ڈاکٹرز سخت لاک ڈاؤن کی دہائی دے رہے ہیں۔ دوسری طرف حکومتوں نے غیر ذمہ داری کی حد کر رکھی ہے۔ سندھ حکومت ایک بار پھر پنجاب سے بازی لے گئی ہے کہ اُس نے ڈٹ کر جرأت مندانہ فیصلے کئے ہیں۔ مراد علی شاہ نے رات آٹھ بجے کے بعد عملاً کرفیو لگا دیا ہے اور مساجد میں نمازِ تراویح پر پابندی لگا دی ہے۔ پکوڑوں اور سموسوں کے سڑک کنارے لگنے والے سٹالز پر بھی پابندی عائد کی ہے،جس کی وجہ سے ایسی صورتِ حال پیدا نہیں ہوئی، البتہ مہنگائی کے معاملے میں سندھ بھی اسی طرح بے بس اور ناکام ہے، جس طرح پنجاب حکومت ہے، بلکہ اس پہلو پر تو دونوں حکومتیں توجہ دینے کو ہی تیار نہیں، اسے کہتے ہیں مرے کو مارے شاہ مدار۔
معاشرے کا کتنا بڑا تضاد ہے کہ ایک طرف مخیر حضرات،تنظیمیں، افراد و ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ مشکل کی اس گھڑی میں کہ جب کروڑوں افراد روزگار سے محروم ہو کر گھروں میں بیٹھے ہیں،اُن تک امداد پہنچائیں،اُن کی مشکلات کو کم کریں، خاص طور پر اُن کے گھروں میں اشیائے خورد و نوش کا اتنا سامان تو پہنچا دیں کہ وہ سحری و افطاری ہی کر سکیں، مگر دوسری طرف ایک طبقہ ایسا بھی ہے جسے رتی بھر خوفِ خدا نہیں،اسی طبقے کو سامنے رکھ کر مولانا طارق جمیل نے جب یہ کہا کہ ہم لالچی، بددیانت، ریا کار اور ظالم قوم ہیں تو سب ناراض ہو گئے،جو لوگ ماہِ رمضان جیسی بابرکت ساعتوں میں بھی دُنیاوی لالچ کو سامنے رکھیں اور روزہ داروں کے منہ سے آخری نوالہ تک چھین لینے کے مکروہ عمل کا حصہ ہوں، کیا انہیں پارسا اور ایماندار کہا جا سکتا ہے۔اُن کے پتھر دِل ہونے اور خدا سے نہ ڈرنے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہے کہ وبائی گرفت کے دِنوں میں جب ہر شخص کو کھٹکا لگا ہوا ہے کہ کہیں وہ اس کا شکار نہ ہو جائے یہ ظالم لوگ دُنیاوی مال سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں ایسے لوگوں پر خدا کی پکڑ تو آئے گی،لیکن ریاست کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔ کہاں ہیں وہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں،کہاں ہیں وہ مجسٹریٹس، کہاں ہے وہ مانیٹرنگ نظام، کہاں ہیں شہزادوں جیسی زندگی گزارنے والے ڈپٹی کمشنرز اور کمشنرز، مَیں کمشنر کراچی کی ایک ٹی وی چینل پر گفتگو سن کر سینے پر دو ہتڑ مار رہا تھا کہ ہم ہر جگہ مجسٹریٹ نہیں بھیج سکتے، مہنگائی کو کنٹرول نہیں کر سکتے، ہم نے اپنے شکایات نمبر مشتہر کر دیئے ہیں، جہاں کوئی مہنگی چیز بچ رہا ہے۔اُن نمبروں پر اطلاع دی جائے۔ ایسی اندھی اور بہری انتظامیہ آپ نے کہاں دیکھی ہے،جو آج کل پاکستان کے طول و عرض میں نظر آ رہی ہے۔ سارے عالم میں لوٹ مچی ہوئی ہے اور انتظامیہ عوام سے کہتی ہے کہ بتاؤ کہاں لوٹ مچی ہے، ناطقہ سربہ گریباں ہے اسے کیا کہیئے۔