کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟
آج تیسرا روزہ ہے۔ ہمارے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے تو کئی روز پہلے قوم کو مطلع کر دیا تھا کہ 25اپریل کو پہلا روزہ ہو گا…… اور پھر یہی ہوا…… ویسے مفتی منیب الرحمن اور ان کے ہمراہ درجن بھر علمائے کرام 23اپریل کی شام کو جمع ہوئے اور ایک جدید ترین اور لمبی سی دوربین سے آسمان پر ہلال ڈھونڈتے رہے۔ پچھلے کئی برسوں سے یہ دوربین روئت ہلال کمیٹی کے زیرِ استعمال ہے۔ میں سوچا کرتا تھا کہ حضورﷺ کے عہد میں یہ دور بینیں وغیرہ کہاں ہوتی تھیں۔ لہٰذا چاند دیکھنے کے لئے دوربین کا استعمال تو سنتِ محمدیؐ نہیں۔ تو پھر اس سائنسی آلے پر لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کا کیا جواز ہے۔ اور آج تو فلکیاتی سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ آنے والے 100برسوں تک میں یہ پیشگوئی ممکن ہو چکی ہے کہ کس خطہء ارض پر کب چاند طلوع ہو گا اور کب غروب ہوگا۔ گزشتہ برسوں میں اس موضوع پر ہمارے میڈیا میں بڑے زوروں کی بحثیں چلتی رہی ہیں اور ہم پاکستانی مختلف مسلکی علمائے کرام کی معجز بیانی سنتے رہے ہیں۔ لیکن نجانے کیوں اس بار ماہِ رمضان کی شروعات میں کوئی مولانا پوپل زئی آڑے نہیں آیا۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ماہِ صیام میں دنیا کو ایک ایسی وبا کا سامنا ہے جس کے سامنے یہ بحث لایعنی اور غیرموثر ہو گئی ہے کہ پہلا روزہ کب ہوگا۔ آج پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر کے انسانوں کو ایک ایسے عذاب کا سامنا ہے جس نے کیا مسلم اور کیا غیر مسلم سب کو ”انسان“ ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب تو کوئی قوم یا معاشرہ ترقی یافتہ، ترقی پذیر یا پس ماندہ نہیں رہا۔ سب کو کورونا وائرس نے یکساں اور برابر کرکے ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔ وہ اقوام کہ جن کو اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی پر ناز تھا وہ آج سب سے زیادہ پس ماندہ دکھائی دے رہی ہیں اور مجھے مشرق کے ایک معروف دانشور، شاعر اور مصلح، حضرت شیخ سعدی کی وہ کہانی یاد آ رہی ہے جو شائد ہمارے مڈل یا ہائی کلاس کے نصابِ فارسی کا حصہ تھی…… کہانی یوں ہے کہ ایک روز دمشق میں شیخ سعدی حضرت یحییٰ کے مزار پر معتکف تھے کہ امرائے عرب میں سے ایک امیر زادہ مزار پر زیارت کے لئے آیا۔ شیخ کو بیٹھے دیکھا تو ان کی جانب متوجہ ہوا اور کہا:
درویش و غنی بندۂ ایں خاک درند
و آناں کہ غنی ترند، محتاج ترند
(کیا غریب اور کیا امیر اسی خاک کے غلام ہیں اور جو زیادہ امیر ہیں وہ زیادہ محتاج ہیں)
اس کے بعد حکائت تو آگے چلتی ہے مگر مجھے سعدی کا یہ شعر اب تک یاد ہے…… اس وقت لڑکپن تھا اور طالب علمی کا زمانہ تھا۔ تب کیا معلوم تھا کہ اس شعر کی تفسیر و تعبیر اپنی زندگی کی شام میں دیکھنے کو ملے گی۔ آج دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ واقعی جو غنی تر (More Rich) ہیں وہ محتاج تر (More Poor) ہیں …… آج کیا امریکہ اور کیا یورپ جو اپنے آپ کو ”غنی تر“ کہلاتے تھے، ”محتاج تر“ ہو گئے ہیں۔ آج اگر کورونا کی کوئی ویکسین دنیا کا غریب ترین ملک بھی ایجاد کر لے تو سب امیر ممالک اس کے در پر حاضر ہو کر زندگی کی بھیک مانگیں گے! میں مغربی میڈیا کو آج دیکھتا اور پڑھتا ہوں تو وہاں اس وبا کی زد میں آنے والوں کی تعداد اگرچہ ہم مشرق کے مسکینوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن ان کا تکبّر اور ہٹ دھرمی ہنوز وہی ہے جو 4،5 ماہ پہلے تھی۔ ابھی وہ اقوام گومگو کے عالم میں ہیں۔ ان کو شائد یقین نہیں آ رہا کہ ان پر کیا حادثہ گزر چکا ہے۔ امریکہ کی آبادی 35،36کروڑ ہے اور پاکستان کی 22کروڑ ہے۔ لیکن الحمدللہ ہم پاکستانیوں کو آبادی کے تناسب سے اموات کی اس ہوش ربا تعداد کا سامنا نہیں جو امریکہ کو ہے اور صرف امریکہ ہی نہیں، یورپ کے دوسرے ”امراء“ کو بھی یہی حادثہ درپیش ہے۔وہاں کے ”امیر تر“ معاشروں میں مریضوں اور مرنے والوں کی تعداد ناقابلِ یقین ہے…… ماہِ رمضان کے اس مقدس مہینے میں پاکستانیوں کو درگاہِ خداوندی میں گڑگڑا کر التجا کرنی چاہیے کہ وہ بادشاہوں کا بادشاہ ہم غریبوں کے غریب پر اپنی رحمت کا سایہ دراز فرمائے…… کیا درویش اور کیا غنی اس درگاہ کے مجاور اور محتاج ہیں:
محتاج و غنی بندۂ ایں خاکِ درند
آپ کی طرح میں بھی جب گھبرا کر مایوسی و ناامیدی کا گہرا گڑھا عبور کرنا چاہتا ہوں تو اپنے میڈیا اور پھر بین الاقوامی میڈیا کو دیکھتا ہوں تو مزید ناامید ہو جاتا ہوں۔ اسی ناامیدی پر پہلے بھی اپنے خیالات کا اظہار کر چکا ہوں لیکن جب چاروں طرف نظر دوڑاتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ کورونا ایک ایسی وبائی انگوٹھی ہے جو میرے دل و دماغ کے نگینے کو چاروں طرف گھیرے ہوئے ہے اور میں اس میں اپنے آپ کو جکڑا ہوا محسوس کرتا ہوں:
بہ گردا گردِ خود چندانکہ بینم
بلا انگشتری و من نگینم
میں جس کالونی میں رہتا ہوں وہاں تقریباً 150 گھر ہیں۔ اس کو ”عسکری ون“ کہا جاتا ہے۔ یہ لاہور کینٹ کے گنجان ترین علاقے (صدر) سے متصل ہے۔ اس کے چاروں طرف دیوار ہے آنے جانے کے لئے صرف دو گیٹ ہیں جو ایک دوسرے سے متصل ہیں اور بغیر پاس اس کالونی میں کوئی گاڑی / پیدل مرد و زن نہیں آ سکتا۔ گویا یہاں ڈبل لاک ڈاؤن کی صورتِ حال ہے۔ باہر کی سڑکیں تو ویسے ہی ویران ہیں لیکن اس وسیع و عریض کالونی کی اندرونی سڑکیں بھی ویران تر ہیں۔ لوگ سیر کو بھی باہر نہیں نکلتے کہ مبادا کورونا وائرس کہیں سے اچھل کر آ چمٹے۔ میرے گراؤنڈ فلور والے فلیٹ میں آگے پیچھے دو لان ہیں۔ آگے والا لان 2 مرلے کا ہے اور عقبی لان تقریباً 4،5مرلے کا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں افسانوں اور ناولوں میں ”پائین باغ“ کی اصطلاح پڑھنے کو ملتی تھی جس کا ایک رومانوی سا تصور ذہن میں بسا ہوا تھا۔ پھر فوج کی 30سالہ سروس میں جو سرکاری گھر الاٹ ہوتے رہے ان میں ازراہِ اتفاق وہ تمام سبزہ و گل اور اشجار و اثمار موجود تھے جو افسانوں میں پڑھے تھے۔ چنانچہ جب اس فلیٹ میں آیا تو پائین باغ کا افسانوی تصور بھی ساتھ تھا جسے میں نے دل کھول کر پورا کرنے کی کوشش کی۔…… اس کی تفصیل پھر کبھی سہی…… فی الحال کورونا کی نظر بندی سے گھبراکر کل میں نے اس پائین باغ میں ایک کرسی ڈلوائی اور وہاں جا کر بیٹھ گیا۔ مقصد یہ تھا کہ کئی ہفتوں کی نظربندی کا کچھ تو مداوا ہو۔ چونکہ اس لان میں میں نے کینو، فروٹر، موسمی، مالٹے، آم اور بیری کے درخت بھی لگا رکھے ہیں اور الحمدللہ وہ سب پھل کھانے کو ملتے ہیں۔ لیکن مجھے سب سے زیادہ ان پرندوں کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے جو ہر موسم بہار میں یہاں آکر آشیانے بناتے اور انڈے بچے دیتے ہیں۔ جنگلی کبوتر، فاختائیں، لالیاں، کوئلیں، کوے، چیلیں، شِکرے اور بلبلیں اس موسم میں بطور خاص آس پاس منڈلاتی رہتی ہیں۔ ان کے دانے دنکے کا اہتمام کئی برسوں سے ہے اس لئے یہ طیور بھی گھر کے تمام افراد کو جانتے پہچانتے ہیں اور کسی سے خوفزدہ نہیں ہوتے بلکہ دیکھ کر اردگرد ہجوم ڈالتے ہیں اور اپنی اپنی بولیوں میں ان کی آوازیں فردوسِ گوش بنتی ہیں۔ طوطے اور ہد ہد بھی اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔ آموں کا موسم ہو تو طوطوں کی ڈاریں کچی انبیوں کو توڑ توڑ کر نیچے پھینکتی رہتی ہیں …… لیکن میں آپ کو سچ بتا رہا ہوں کہ اس بار بلبلوں کا صرف ایک جوڑا نظر آیا جبکہ گزشتہ برسوں میں 4،4 جوڑے بیک وقت یہاں گھونسلے بناتے تھے۔ سوہانجنے کے درخت پر چونکہ پھول آئے ہوئے ہیں اور پھلیاں ابھی نہیں لگیں اس لئے بعض اجنبی پرندے صرف سوہانجنے کے پھولوں کو کھانے آتے ہیں۔ اس بار ایک بالکل سرتاپا سیاہ رنگ کی ایک خوبصورت چڑیا دیکھنے کو ملی جس کی چونچ معمول سے زیادہ لمبی تھی۔ میں بچپن سے فلورا اینڈ فونا (Flora & Fonda) کا شیدائی ہوں لیکن آج تک اس رنگ اور اس سائز کی اتنی خوبصورت چڑیا کہیں نہیں دیکھی…… نہ کسی Animal World کے پروگرام میں اور نہ ان گھروں میں جن کا ذکر اوپر کر آیا ہوں یعنی آرمی کی طرف سے الاٹ شدہ رہائش گاہوں میں …… کوئٹہ، گلگت، مری، خضدار، کھاریاں، پشاور، میرپور (آزادکشمیر) ژوب، وانا اور ایبٹ آباد میں جو مکان فوج کی طرف سے الاٹ ہوئے وہ خاصے کشادہ بھی تھے اور ان میں سبزہ و اشجار کی فراوانی بھی تھی…… میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اپنی بوریت دور کرنے کے لئے کمرے سے نکل کر باہر لان میں آبیٹھا تھا۔ میرے سامنے والے گھر میں کبوتروں نے بچے دیئے ہوئے تھے۔ وہ ہر سال بلکہ ہر موسم میں انڈے بچے دیتے رہتے ہیں۔ ناگہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شکرہ کہیں سے اڑتا ہوا آیا اور کبوتر کے ایک بچے کو کہ جس کے پَر ابھی اڑنے کے قابل نہیں تھے، پنجے میں دبوچ کر اڑ گیا۔ باقی پرندوں نے تو شور مچایا لیکن کبوتر ایسا نہیں کرتے۔ وہ خاموش رہتے ہیں …… کہاجاتا ہے کہ انسان ہوں یا وحوش و طیور زندہ رہنے کا حق اسے ہی حاصل ہوتا ہے جو قوی اور توانا ہو۔ جرمِ ضعیفی کی سزا ہر جگہ مرگِ مفاجات ہے۔ شکرے نے اگر کبوتر کا شکار کیا تھا تو یہ کوئی خلافِ فطرت بات نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی نجانے کیوں ایک طرح کی افسردگی میرے حواس پر چھا گئی اور یاد آیا کہ چلو بچہء کبوتر کو تو جرمِ ضعیفی کی سزا دی گئی، یہ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں جو تندرست اور توانا اور قوی اور جسیم اور امیر اور غنی بچگانِ انسانی لوگ لقمہ ء اجل بن رہے ہیں، ان کا قصور کیا ہے؟ یہ کس جرمِ ضعیفی کا شکار ہو رہے ہیں؟…… کس گناہ کی پاداش میں مارے جا رہے ہیں؟…… مرزا محمد رفیع سودا کا یہ سوال تشنہ ء جواب رہتا ہے کہ:
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لئے پھرتا ہوں
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گرا ں ہے کہ نہیں