"سردار عثمان بزدار جونیجو"
پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام کی ایک بہت منفرد خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک وقت میں اگر انتہائی مضبوط ہے تو اسی لمحے اس قدر حساس اور نازک کہ " لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام" والا معاملہ ہوتا ہے۔ اسے سمجھنے کے لئے موجودہ حکومتی سیٹ اپ اور حالیہ رونما ہونے والے واقعات کا ہی جائزہ لے لیں مرکز اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومتیں پانچ دس ووٹوں کی اکثریت پر کھڑی ہیں اور وہ اکثریت بھی اتحادیوں کے مرہون منت ہے۔ صرف ایک جماعت پاکستان مسلم لیگ جسے قاف لیگ بھی کہتے ہیں اگر مرکز اور پنجاب میں حکومت سے علیحدہ ہوجائے تو دونوں ایوانوں میں سرکار کی عددی اکثریت حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ قاف لیگ اور تحریک انصاف میں کوئی آئیڈیل ریلیشنن شپ نہیں۔ عمران خان قاف لیگ اور چوہدری برادران کو اچھا نہیں سمجھتے اور چوہدری برادران نیازی صاحب کو مجبوری کا سودا سمجھ کر قبول کئے بیٹھے ہیں۔ لیکن یہ "میرج آف کنوینئنس" چلتی چلتی دوسرا سال مکمل کرنے والی ہے۔ یہ ایک دوسرے کو کیوں نہیں چھوڑتے؟؟؟ جواب بڑا واضح ہے کہ جو اس نظام کے آرکیٹکٹ ہیں وہ جب تک نہ چاہیں کچھ تبدیل نہیں ہوسکتا۔ بس یہی فیکٹر اس سیٹ اپ کا سب سے مضبوط ستون قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ حکومت انتہائی کمزور بھی ہے، اتحادی جماعتوں اور خود اپنے ارکان کے ہاتھوں خان اعظم بعض اوقات اس قدر بے بس ہوجاتے ہیں کہ طاقتور حلقوں کی تمام تر حمایت کے باوجود انہیں ایسے یو ٹرن لینے پڑتے ہیں جو ان کے بیانیے کو تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں۔ اس کا تازہ ترین واقعہ چیف سیکرٹری پنجاب اعظم سلیمان کی تبدیلی ہے۔
وزیراعظم عمران خان دراصل آئیڈیل ازم اور سیاسی مجبوریوں کے درمیان کنفیوز کھڑے ہیں۔ تین ماہ قبل انہوں نے پنجاب میں بیڈ گورننس کی بڑھتی ہوئی شکایات پر اعظم سلیمان کو چیف سیکرٹری مقرر کیا جو اپنی شخصیت کے اعتبار سے ایک مضبوط اور دبنگ افسر سمجھے جاتے ہیں۔ اعظم سلیمان کو وزیراعظم نے غیرمعمولی اختیارات دے دیئے کہا کہ کسی سیاسی سفارش کو نہ مانیں، اپنی مرضی سے افسروں کے تقرر تبادلے کریں۔ ان اختیارات کے بعد وزیراعلیٰ بالکل ڈمی ہوگئے اور اختیارات کا مرکز سول سیکرٹریٹ منتقل ہوگیا۔ خان اعظم کا یہ فیصلہ انتہائی جذباتی تھا۔ انہوں نے پنجاب کی سیاسی حقیقتوں کو نظرانداز کردیا۔ جس کے نتیجے میں یہ ماڈل چل ہی نہ سکا۔ اتحادی جماعت مسلم لیگ قاف نے اسے تسلیم ہی نہ کیا، چوہدری برادران ایسی صورتحال میں بڑے سمارٹ انداز سے چلتے ہیں چوہدری پرویزالہی نے سپیکر چیمبر کو متحرک کرلیا اور وہاں ارکان کی بیورورکریسی کے خلاف تحریکوں اور اس کے نتیجے میں اعلیٰ افسروں پیشیوں نے زور پکڑ لیا۔ آرپی او گوجرانوالہ طارق عباس قریشی کے کیس کو ہی لے لیں۔ اسمبلی میں گوجرانوالہ میں پولیس ملازمین کی ایک ایسی ہاوسنگ سوسائٹی کے خلاف تحریک التوا پیش ہوئی، جس کے روح رواں طارق عباس قریشی تھے۔ تحریک التوا پیش ہوتے ہی اس پر سپیشل کمیٹی بن گئی، آرپی او کی طلبیاں ہوئیں۔ اور صورتحال اس نہج پر آگئی کہ بالآخر حکومت نے طارق عباس قریشی کو تبدیل کردیا۔ آئی جی پنجاب کی تقرری پر بھی اسی طرح کی صورتحال پیدا ہوئی۔ آئی جی پنجاب شعیب دستگیر مرکز سے ملنے والے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ صوبے میں جلوہ گر ہوئے تو تحریک انصااف اور مسلم لیگ قاف کے ارکان نے بالواسطہ طور پر پنجاب اسمبلی میں پولیس کے خلاف محاذ لگا لیا۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے خود پولیس کے رویے کے خلاف تحریک استحاق پیش کردی۔ سپیکر چوہدری پرویز الہیٰ نے آئی جی کو طلب کرلیا۔ سپیکر نے آئی جی کی طلبی کی رولنگ دی تو تحریک انصاف سمیت تمام ارکان اسمبلی نے جشن منایا۔ اور پھر چوہدری صاحب نے آئی جی کو اپنے چیمبر میں بلا کر اپنی رٹ منوالی۔ اس ساری موومنٹ میں تحریک انصاف کے ارکان سپیکر کی پشت پر کھڑے تھے۔ یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ وزیراعلی کی بھی سپیکر کو مکمل آشیرباد حاصل تھی۔
چیف سیکرٹری نے زیادہ زور پکڑا تو وزیراعلیٰ خود چوہدری برادران کی چھتری تلے آگئے اور ان سے حمایت مانگ لی۔ ہمیں پنجاب میں تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کا وہ فارورڈ بلاک بھی یاد ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ فارورڈ بلاک خود وزیراعلیٰ نے چیف سیکرٹری کے خلاف بنوایا ہے۔ اس طرح وزیراعلیٰ عثمان بزدار مرکز کی طرف سے خود کو بے اختیار کرنے کی کوششوں کے خلاف درون خانہ کوششیں کرتے رہے۔ اور انہوں نے کبھی چوہدری برادران اور کبھی ارکان اسمبلی کے ذریعے مرکز سے مسلط کئے گئے افسروں کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔
چیف سیکرٹری کی تبدیلی کی بے شمار وجوہات بیان کی جارہی ہیں لیکن سو باتوں کی یہی ایک بات ہے کہ اعظم سلیمان کی جس انداز سے تقرری کی وہ صوبے کی سیاسی حقیقتوں کو نظرانداز کرتے ہوء ے ایک ایسا غیرسیاسی اور جذباتی فیصلہ تھا جونہ صرف حکومت کی سبکی پر منتج ہوا۔ بلکہ یہ ایک قابل افسر کے لئے بھی یقینی طور پر ذہنی طور پر پریشانی کا باعث بنا ہوگا۔ مرکز سے جس انداز سے پنجاب میں افسروں کی تقرری کی گئی اس سے گورننس بہتر ہونے کی بجائے مزید بگڑ گئی اور صوبے میں ایک کی بجائے تین تین متوازی حکومتیں چلنے لگیں۔ اب معلوم نہیں کہ وزیراعظم کی طرف سے وزیراعلیٰ کی رضامندی کے بغیر اپوائنٹ کئے گئے آئی جی پنجاب کب تک اپنے عہدے پر براجمان رہتے ہیں۔ مرکز اور سندھ حکومت میں وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والی محاذ آرائی کی تو سمجھ آتی ہے کہ دونوں جگہ حریف جماعتیں برسراقتدار ہیں۔ لیکن اب پنجاب میں جو صورتحال پیدا ہورہی ہے اس سے لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی اپنی سب سے بڑی صوبائی حکومت ان کی من مانیوں کو ماننے کو تیار نہیں۔
جناب وزیراعظم! سمجھ جائیں۔ سیاسی کھیل کرکٹ سے بڑے مختلف ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں 1985 میں جنرل ضیاالحق نے محمد خان جونیجو کو سب سے بے ضرر سیاستدان سمجھ کر ملک کا وزیراعظم بنایا تھا لیکن بظاہر انتہائی سادہ اور سائیں لوک وزیراعظم نے حلف اٹھاتے ہی جنرل ضیاالحق سے مطالبہ کردیا کہ جناب اپنا مارشل لا واپس لیں ملک کو اب میں آئین کے تحت چلاوں گا۔ اور پھر اسی محمد خان جونیجو نے افغان ایشو سمیت کئی اہم قومی معاملات پر کلی اختیارات کے مالک آمر کو ایسا زچ کیا کہ اسے مجبوراً اپنے ہی ہاتھوں سے بنائی حکومت کا خاتمہ کرنا پڑا۔ سو یہ سیاستدان بہت ٹھنڈا کھیلتے ہیں۔ عثمان بزدار، اب دوسال پہلے والا عثمان بزدار نہیں۔ یہ دیہی اور پھر سرائیکی پس منظر رکھنے والا سیاستدان ہے۔ ٹھنڈا ٹھار، شکل سے بھولا بھالا، عاجز۔۔۔۔۔ لیکن گہرا۔۔۔ جتنا بھی سادہ اور سیدھا کیوں نہ نظر آرہا ہو، پر ہے ایک سیاسی باپ کا سیاسی بیٹا، جو ایک قبیلے کا سردار بھی ہے۔۔۔۔۔ اب خیال رہے کہ کہیں آپ کا بزدار۔۔۔ آپ کے لئے۔۔۔ "جونیجو" نہ بن جائے۔