ماہ رمضان،موسم گرما اور خواتین کی مصروفیات
ناصرہ عتیق
اس بار رمضان میں ایک وبائی مرض کورونا وائرس کا بھی سامنا ہے۔ گرمیوں کی اسی ابتداء میں ماہِ رمضان کا ورود بھی ہوا ہے۔ اس بات کا اب لوگوں پر انحصار ہے کہ وہ گرمیوں کا موسم صبر، برداشت اور اعتدال سے کیسے گزارتے ہیں اور گرمیوں کو بہتر انداز سے گزارنے کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ اس موسم میں ذرا سی بے احتیاطی بعض اوقات جان لیوا امراض کا باعث بن جاتی ہے۔ دھوپ سے بچاؤ، کھانے پینے میں احتیاط اور موزوں و مناسب پہناووں کا استعمال گرمیوں کے موسم میں انتہائی ضروری ہے۔
ماہِ رمضان چونکہ اس آغازِ موسم ہی میں آیا ہے اس لئے سحری اور افطاری خاص توجہ کی متقاضی ہے۔ احتیاط کی جائے کہ اس موسم میں جسم میں پانی کی کمی نہ ہو اور نمکیات کا بے جا اخراج نہ ہو۔ بھاری اور ثقیل غذاؤں سے پرہیز کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ کھانا بھوک رکھ کر کھایا جائے۔ اس موسم میں ہلکے اور دھیمے رنگوں والے لباس زیبِ تن کئے جائیں اور دھوپ کی شدت سے ہر صورت بچا جائے۔
اس بار ماہِ رمضان میں کورونا وائرس بھی ہے جس کے باعث سکولوں کی تعطیلات شیڈول سے پہلے دی جاچکی ہیں۔ بچے ذوق و شوق سے روزے رکھتے ہیں۔ اسلئے ان کا خاص خیال رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ گرمیاں یوں بھی اس بار اپنی شدت کے ساتھ آ رہی ہیں۔ موسمیاتی اور طبی ماہرین اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اس بار گرمی کے زور سے ہیٹ سٹروک کا خطرہ معمول سے زیادہ دکھائی دے رہا ہے۔ پانی چونکہ پیا نہیں جاتا اس لئے سکنجین کے استعمال کی ہدایت کی گئی ہے۔ ماہِ رمضان میں بالخصوص دھوپ سے بچا جائے اور جسمانی محنت ضرورت کے مطابق کی جائے۔
ہماری خواتین کا بیشتر وقت باورچی خانے میں گزرتا ہے جہاں کھانا پکانے کے ساتھ ساتھ آگ کی حدت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ سمجھ دار خواتین ایسے موقع پر پانی کے مناسب استعمال کا دھیان رکھتی ہیں۔اب سحری اور افطاری کی تیاری چونکہ روزمرہ کے اوقات سے ہٹ کر ہوتی ہے اس لئے اپنے اس نظم میں انہیں تبدیلی لانا پڑتی ہے جس کے تحت وہ اپنے امورِ خانہ داری سرانجام دیتی ہیں اور یہ خوبی رب کریم نے خواتین میں بہت ودیعت کی ہے۔
گرمیوں کا موسم اپنی خوبیوں اور سختیوں سمیت موسم سرما کی شدتوں سے کہیں زیادہ مختلف ہوتا ہے۔ بہرحال سارے موسم رب کریم کے عطا کردہ ہیں۔ ہر موسم کی اپنی شان اور اپنے فوائد ہیں۔ یہ بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے بھی اور اس کے لئے امتحان کے طور پر بھی ہیں۔
موسم گرما میں دو امور اہم ہیں۔ خوراک اور پوشاک۔ دونوں میں کیا تبدیلی مقصود ہے، کیا احتیاطیں ضروری ہیں اور کن ضرورتوں پر توجہ دینی ہے۔ خوراک میں احتیاط سرفہرست ہے۔ کھانے پینے کی ان اشیاء سے پرہیز لازم ہے جو طبیعت میں گرانی اور بوجھل پن پیدا کریں اور بیماری کو دعوت دیں۔ اسی طرح پوشاک کے بارے میں بھی فکر لازم ہے۔ لباس ہلکا، سُبک اور آرام دہ ہو اور چلنے پھرنے اور کام کاج میں الجھن پیدا نہ کرے۔ اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھتے ہو مقبولِ عام برانڈ کمپنیاں اپنے اپنے تیار کردہ ملبوسات زور و شور سے مارکیٹ میں لاتی ہیں اور اپنی تشہیر سے خواتین کو متاثر کرتی ہیں۔ ہماری خواتین تاہم لباس کے معاملہ میں خاصی سمجھ دار واقع ہوئی ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنی سوچ اور اپنی پسند کو برانڈ کی تشہیر پر ترجیح دیتی ہیں۔ برانڈڈ کپڑا یوں بھی مہنگا ہے اور خواتین کی ایک کثیر تعداد کی پہنچ سے یقیناً باہر ہے۔ ہماری خواتین فیشن شو اور ریمپ واک پر پہناووں کی نمائش کو بھی اہمیت نہیں دیتیں۔وہی لباس وہ پہنتی ہیں جو ان کے من کو اچھا لگتا ہے۔
گرمیوں کے موسم میں وہ پھل سبھی کو مرغوب ہیں جو اس موسم میں بازار کی زینت بنتے ہیں۔ شہتوت اگرچہ کچھ دن کے لئے نمودار ہوتے ہیں تاہم ان کی مٹھاس اور ذائقہ منفرد ہے۔ فالسہ اس موسم میں نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ اب لوگ شوق سے اس کا جوس بناتے اور پیتے ہیں۔ لوکاٹ بھی پسندیدہ پھل ہے۔ لیکن خربوزے اور تربوز کا مزہ ہی جدا ہے۔ البتہ آم جو پھلوں کا بادشاہ ہے، مون سون سے پہلے ہی، اس موسم میں اپنا جوبن خوب دکھاتا ہے۔ اگرچہ برسات کے موسم میں آم کھانے کی مختلف صورتوں میں بچوں اور بوڑھوں سب ہی کو لبھاتاہے۔ مرزا غالب نے بجا کہا تھا کہ آم ہوں اور ڈھیر سارے ہوں، آم کے ساتھ کچے دودھ کی لسی ضرور پینی چاہیے جو معدے کی تیزابیت کو دور کرتی اور خون بناتی ہے۔
گرمیوں کا موسم بہت مدت کے بعد اس بار اپنے وقت پر آیا ہے۔ اس لئے اندازہ ہے کہ اپنا رنگ پہلے ہی طرح جمائے گا، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اس کی شدت کا مقابلہ کرنے کے لئے صحیح معنوں میں پیش بندی کی جائے۔ کھانے پینے میں احتیاط کی جائے۔ موسمی سبزیوں کا استعمال باقاعدگی سے کیا جائے اور دفتر، بازار اور گھر میں پہنے جانے والے لباس پر توجہ دی جائے۔ کوشش کی جائے کہ پہناووں کا فیشن موسمی تقاضوں کے عین مطابق ہو۔ لباس بدن کے لئے زحمت نہ بنے بلکہ پہننے والے کو راحت اور آسودگی دے۔ گرمیوں میں چونکہ دن طویل اور راتیں مختصر ہوتی ہیں، اس لئے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے روزمرہ کے نظام کو اسی حساب سے ترتیب دیں۔ یاد رہے کہ فطرت کے خلاف جانے میں سراسر تکلیف اور نقصان ہے۔ فطرت کے تابع رہنے ہی میں عافیت ہے۔ گرمیوں کے موسم کا دورانیہ اگرچہ بڑھ چکا ہے، تاہم یہ دورانیہ گزارنا مشکل نہ ہوگا اگر اس کے تقاضوں کا احترام کیا جائے اور ان تمام احتیاطوں سے کام لیا جائے جو اس موسم کے حوالے سے بزرگوں اور دانش وروں نے تجویز کر رکھی ہیں۔
خدا وند کریم سے دعا ہے کہ کورونا وائرس سے جلد نجات حاصل ہو تا کہ لوگ اپنی معمول کی زندگی میں واپس آ سکیں۔