تحریک انصاف کی حکومت کے دوسال مکمل لیکن آئندہ پنجاب میں کونسی جماعت کی حکومت متوقع ہے؟ کالم نویس کا ایسا انکشاف کہ حکمران طبقہ بھی حیران پریشان رہ جائے گا

تحریک انصاف کی حکومت کے دوسال مکمل لیکن آئندہ پنجاب میں کونسی جماعت کی حکومت ...
تحریک انصاف کی حکومت کے دوسال مکمل لیکن آئندہ پنجاب میں کونسی جماعت کی حکومت متوقع ہے؟ کالم نویس کا ایسا انکشاف کہ حکمران طبقہ بھی حیران پریشان رہ جائے گا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (ناصر چوہدری) نپولین بونا پارٹ کو آج سے 205 سال پہلے واٹرلو کے مقام پر شکست ہوئی تھی۔ یہ مقام آج کے بلجیم کے دارالحکومت بروسلز سے 15 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ نپولین کی شکست کے وقت یہ ہالینڈ کا حصہ تھا۔ نپولین کی فرانسیسی فوج کو شکست دینے والی برطانوی فوج کی قیادت ڈیوک آف ویلنگٹن کر رہے تھے، جرمنی اور ہالینڈ کی افواج بھی نپولین کے خلاف لڑنے والی برطانوی فوج میں شامل تھیں۔ خیر، نپولین کو شکست ہو گئی،لیکن واٹرلو کا نام سیاست میں ایک مستقل مقام حاصل کر گیا۔ سیاسی معرکوں میں بھی جب کسی پارٹی یا لیڈر کو فیصلہ کن شکست ہوتی ہے تو اکثر اسے اس کے واٹر لو سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں پنجاب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ جس پارٹی کی پنجاب میں سب سے زیادہ قومی اسمبلی کی سیٹیں ہوں گی، وفاق میں اس کا حکومت بنانے کا امکان عددی اکثریت کی وجہ سے بہت روشن ہو گا،لیکن اسی اصول کے تحت جو پارٹی پنجاب میں ناکام ہوگی اس کی وفاق میں حکومت بننے کا امکان ختم ہوتا جائے گا۔ اس کی سب سے بڑی مثال پیپلز پارٹی کی ہے۔ ایک وقت تھا کہ پنجاب میں ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی پیپلز پارٹی کا ڈنکا بجتا تھا۔ ان کے بعد بے نظیر بھٹو کے دور میں بھی پیپلز پارٹی پنجاب سے سیٹیں جیت کر وفاق میں حکومت بناتی رہی، لیکن بہر حال محترمہ کے مقابلہ میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ ان سے زیادہ مقبول ہوتی گئی تھی۔ بے نظیر بھٹو کے بعد آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی پنجاب میں ایک دفعہ تو اتنی سیٹیں لے گئی کہ دوسرے صوبوں میں بھی لی گئی سیٹوں کی مدد سے 2008ء میں حکومت بنا لی لیکن اس کے بعد سے پنجاب پیپلز پارٹی کے لئے مستقل واٹرلو ہی ثابت ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف ایک دفعہ پنجاب سے مناسب تعداد میں سیٹیں لینے والی پاکستان تحریک انصاف کیا آئندہ بھی اپنی برتری قائم رکھ سکے گی۔ پنجاب کا سیاسی و انتظامی پہیہ جس تیزی سے گھوم رہا ہے اور پی ٹی آئی حکومت کے بارے میں ناکامیوں کا تاثر عام ہوتا جا رہا ہے، لگتا یہی ہے کہ آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کا واٹر لو پنجاب بنے گا۔

 پاکستان تحریک انصاف 2018ء کے الیکشن کے بعد اپنے اتحادیوں کی مدد سے وفاق،پنجاب اور خیبر پختون خوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ وفاق میں الیکشن کے اعلان شدہ نتائج کے مطابق اس نے سب سے زیادہ سیٹیں جیتی تھیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی سیٹیں سب سے زیادہ تھیں،لیکن پھر جہانگیر ترین اور ان کا جہاز حرکت میں آئے اور اتنے زیادہ آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں شامل کر لئے گئے کہ مسلم لیگ (ق) کی مدد سے حکومت بن گئی۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی واضح اکثریت تھی اِس لئے اس نے کسی اتحادی کے بغیر اسی طرح حکومت بنا لی جیسے سندھ میں پیپلز پارٹی نے۔ البتہ بلوچستان میں مختلف پارٹیوں کا ایک ملغوبہ تھا،چنانچہ ایک مخلوط حکومت بنی، پی ٹی آئی اس مخلوط حکومت کا بھی حصہ بن گئی۔ گویا سندھ کو چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف پانچ میں سے چار حکومتوں میں شامل ہے، جن میں سے تین مخلوط حکومتیں ہیں۔ وفاقِ پاکستان میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑی اکائی پنجاب ہے،جو آبادی کا 56 فیصد ہے۔ اسی لئے قومی اسمبلی میں پنجاب کی سیٹیں بھی سب سے زیادہ ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے تمام انتخابات میں پنجاب کی سب سے زیادہ اہمیت اسی وجہ سے ہے کہ جو پارٹی پنجاب سے قومی اسمبلی کی زیادہ سیٹیں جیتتی ہے، عددی برتری کی وجہ سے حکومت بھی وہی بناتی ہے۔پاکستان میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے الیکشن 1970ء میں ہوئے تھے۔ ان 50 سال میں تقریباً 20 سال فوجی حکمرانوں نے حکومت کی جن میں کنگز پارٹیوں کی حکومت رہی، باقی کے 30 سال میں سیاسی پارٹیوں نے الیکشن جیت کر حکومتیں بنائیں، لیکن بنیادی نقشہ یہی رہا کہ جس پارٹی نے پنجاب میں قومی اسمبلی میں زیادہ سیٹیں جیتیں، اسی کی وفاق میں بھی حکومت بنی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ الیکشن جیت کر بار بار حکومتیں بناتے رہے۔ اب پی ٹی آئی کی پہلی حکومت کو بنے تقریباً دو سال ہونے والے ہیں، لیکن معیشت اور گورننس میں اس کی ناکامیوں کی فہرست اتنی طویل ہے، جس کا اثر عام لوگوں پر مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی شکل میں پڑا ہے اور اسی وجہ سے اس کی مقبولیت بہت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ سیاسی طور پر امکان بڑھتا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ(ن) پنجاب میں اپنا کلّہ دوبارہ مضبوط کر لے گی۔ شائد یہ سب کچھ اتنا تیزی سے نہ ہوتا اگر عمران خان پنجاب میں گورننس کو بہتر بناتے اور یہاں میرٹ پر فیصلے کئے جاتے۔

 عمران خان نے ایک نا تجربہ کار اور کمزور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا انتخاب کیا اور یہی کمزوری اب پنجاب میں پی ٹی آئی کی جڑوں میں بیٹھتی جا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ چونکہ کمزور ہیں اس لئے پنجاب میں سیاسی طور کئی قد آور شخصیات رسہ کشی کرتی رہی ہیں، جن میں گورنر چودھری سرور، سپیکر چودھری پرویز الٰہی، سینئر وزیر علیم خان کے علاوہ جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی وغیرہ بھی شامل ہیں۔بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا رہا ہے جیسے صرف عثمان بزدار ہی نہیں،بلکہ پنجاب میں چار پانچ وزرائے اعلیٰ ہیں اور سب اپنی اپنی چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بنی گالہ سے بھی پنجاب کو انڈر کنٹرول رکھنے کی بار بار حکمت عملی اپنائی جاتی ہے، اور اسے چیف سیکرٹری کو زیادہ با اختیار بنا کر چلانے کا تجربہ بھی کیا جا چکا ہے۔ پچھلے 20 مہینوں میں پنجاب کو ایک ایسی سیاسی تجربہ گاہ بنا دیا گیا ہے جہاں مختلف سائنس دان اپنے اپنے ناکام تجربات کر رہے ہیں۔پانچ مہینے پہلے ایک طاقتور چیف سیکرٹری کے ذریعے صوبہ چلانے کا تجربہ شروع کیا گیا، لیکن اس ہفتہ اچانک ہی اسے بھی ناکام تجربہ قرار دے کر انہیں ہٹا دیا گیا۔ نئے آنے والے چیف سیکرٹری پچھلے 20 میں چوتھے بیوروکریٹ ہیں، جنہیں 12 کروڑ عوام کا صوبہ چلانے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ اسی طرح موجودہ آئی جی پولیس نے جب عہدہ سنبھالا تھا تو اس وقت حکومت بنے 15 مہینے ہوئے تھے اور وہ پانچویں آئی جی مقرر ہوئے تھے۔ایک بات تو طے ہے کہ جس صوبہ کا چیف سیکرٹری ہر پانچویں مہینے اور آئی جی ہر تیسرے مہینے تبدیل کر دیا جاتا ہو وہاں گورننس ممکن ہی نہیں۔ اسی طرح تقریباً تمام محکموں کے سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری، پولیس کے آر پی اوز، ڈی پی اوزوغیرہ، اور دوسرے کلیدی عہدوں پر افسران کی پانچ پانچ دس دس بار تبدیلی، جس جگہ جو افسر بھی لگا اسے دو چار مہینوں میں تبدیل کر دیا۔ ایسے بھی بھلا کہیں گورننس ممکن ہو سکتی ہے۔ ہر سیٹ پر بیٹھا ہوا افسر جانے کے لئے تیار بیٹھا ہے کہ کب اسے وہاں سے ہٹا دیا جائے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے منتخب اور غیر منتخب(لاہور یا بنی گالہ میں بیٹھے) دوست اور دوسرے لوگ فیصلے کر رہے ہیں۔کسے یاد نہیں کہ ڈی پی او پاکپتن کے خلاف کچہری وزیراعلیٰ آفس میں بیٹھے ان کے ایک پرائیویٹ دوست نے لگائی اور تبادلہ کا حکم جاری کیا۔ پی ٹی آئی حکومت نا تجربہ کار تو تھی ہی، لیکن ساتھ میں نا اہل بھی نکلی۔ اس پر مستژاد مزاج میں تکبر، بدتمیزی، بغض، عناد اور کینہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ جن لوگوں نے ایک نئے پاکستان کی امید میں ووٹ دئیے تھے، انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا ہے۔ حکومت کے تمام کارنامے ٹویٹر، فیس بک اور واٹس ایپ گروپوں میں ہی گھومتے ہیں، سڑکوں پر تو عوام کا بُرا حال ہے۔ پاکستان کی اس پہلی سوشل میڈیا حکومت نے سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا کرنے والوں کو سوشل میڈیا صحافی کا رتبہ دے دیا ہے۔ وہ لوگ جنہیں صحافت کی الف ب بھی نہیں پتہ، اب صحافی (سوشل میڈیا کے) کہلائیں گے۔

 آٹا چینی سکینڈل نے پی ٹی آئی کا امیج بری طرح متاثر کیا ہے۔ ابھی اس کی رپورٹ کا کچھ ہی حصہ لوگوں تک پہنچا ہے، لیکن عمومی تاثر ہے کہ اربوں روپے لوٹنے والے لوگ وزیراعظم کے قریب ہیں۔ عمران خان نے 25 اپریل کو رپورٹ پبلک کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن یہ تاریخ گذر چکی ہے اور اب کہا جا رہا ہے کہ اس میں دو ہفتے اور لگ جائیں گے۔ اس بات کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے کہ چیف سیکرٹری پنجاب کو ان کی دیانت داری اور سچ بولنے کی وجہ سے ہٹایا گیا ہے۔ یہ سب باتیں کچھ ہی ہفتوں میں کھل جائیں گی۔ پنجاب کو نہ تو مزید ایک تجربہ گاہ کے طور پر چلانا ممکن رہے گا اور نہ ہی کرپٹ مافیاز کو بچانے کی کوشش کامیاب ہو سکے گی۔ بلی تھیلے سے باہر آ چکی ہے اور آئندہ آنے والے دِنوں میں یہ بات سب کو معلوم ہو چکی ہو گی کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے پاس وہ کون سی گیڈر سنگھی ہے، جس کی وجہ سے وہ ناکام اور ناتجربہ کار ہونے کے باوجود ابھی تک اپنی جگہ پر موجود ہیں اور بہت ہی ایماندار اور قابل افسران کو ہٹایا جاتا رہا ہے۔ شائد انہیں ابھی اس بات کا علم نہیں ہے کہ نئے چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک بھی اعظم سلیمان خان کی طرح ہی ایماندار، پروفیشنل اور نہ جھکنے اور نہ دبنے والے ہیں۔ حکومتیں ہر تیسرے یا پانچویں مہینے آئی جی یا چیف سیکرٹری تبدیل کرنے سے نہیں،بلکہ ایمانداری، قابلیت، میرٹ اور کارکردگی سے چلتی ہیں۔ پی ٹی آئی جس طرح پنجاب چلا رہی ہے،جو لوگ پنجاب کی سیاست کو سمجھتے ہیں انہیں یقین ہے کہ اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی کا واٹر لو پنجاب ہی ہو گا اور یہاں مسلم لیگ (ن) حکومت واپسی ہو گی۔