بھارت سے بیک چینل مذاکرات؟

بھارت سے بیک چینل مذاکرات؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاک بھارت انٹیلی جنس قیادت کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور یہ مذاکرات بھارت کی پیش کش پر پچھلے سال دسمبر میں شروع کئے گئے تھے۔ بھارت نے پیش کش کی کہ تناؤ کم کرنے اور مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر مسائل حل کرنے کے لئے بیک ڈور مذاکرات شروع کئے جائیں جس کے جواب میں پاکستان کی جانب سے رضامندی ظاہر کی گئی اور فیصلہ ہوا کہ دیرپا مسائل کے پُرامن حل کے لئے خفیہ مذاکرات شروع کئے جائیں ان کا کہنا تھا کہ کوئی ”فارمل بیک ڈور چینل“ نہیں ہے۔ انٹیلی جنس سطح پر بالکل گفتگو ہو رہی ہے اور وہ ہمیشہ رہی ہے جب حالتِ جنگ ہوتی ہے تب بھی گفتگو رہتی ہے ہم ہمیشہ بات آگے بڑھانا چاہتا تھے اعتراض ہندوستان کی طرف آتا تھا ڈائیلاگ کا ماحول ہندوستان نے بگاڑا۔ ماحول کو سنوارنا بھی اسی نے ہے وہ سازگار ماحول بنائیں پاکستان مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ مشرف اور زرداری کے زمانے میں بیک چینل بنایا گیا تھا اور لوگ نامزد کئے گئے تھے انہوں نے مختلف نشستیں کی تھیں اب اس طرح کا کوئی بیک ڈور چینل نہیں ہے۔ یہ بھی تاثر دیا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے کوئی کردار ادا کیا ہے۔ یہ بات بھی درست نہیں ہے اس تاثر کی ان کے سفیر نے بھی تردید کی ہے۔ انہوں نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہندوستان سے گفتگو ہو اور قوم کو اعتماد میں نہ لیا جائے لیکن ہرچیز کا مناسب وقت ہوتا ہے پاکستان نے آرٹیکل 370 کو کبھی اہمیت نہیں دی دفتر خارجہ کا فوکس ہمیشہ اے 35 پر رہا ہے۔ انہوں نے یہ باتیں ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں کہیں۔
وزیرخارجہ کا یہ فرمان درست ہو سکتا ہے کہ اس وقت کوئی بیک چینل موجود نہیں اور انٹیلی جنس کی قیادت کی سطح پر مذاکرات ہو رہے ہیں، لیکن اس بات سے تو انکار انہوں نے بھی نہیں کیا کہ ”خفیہ مذاکرات“ ہو رہے ہیں اب یہ ”بیک چینل“ نہیں تو پھر انہیں کوئی نام تو دینا پڑے گا، انٹیلی جنس کی سطح پر جو بھی کہا سُنا جاتا ہے اسے بھی تو مذاکرات ہی کہنا پڑے گا،لیکن ابھی انہوں نے حال ہی میں اپنے یو اے ای کے دورے کے دوران جس وزیرخارجہ سے ملاقات کی تھی انہوں نے تو لگی لپٹی رکھے بغیر کہا تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بیک چینل رابطے ہیں اور یو اے ای ان میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ممکن ہے انہوں نے انٹیلی جنس مذاکرات کو ہی بیک چینل کہہ دیا ہو۔ البتہ شاہ محمود نے تاثر کی جو بات کی ہے وہ زیادہ وزنی نہیں، تاثر تو وہ ہوتا ہے جو لوگ خبروں وغیرہ سے اندازہ لگا کر خود قائم کر لیتے ہیں یہاں تو ایک وزیرخارجہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں یو اے ای سہولت کاری کر رہا ہے۔اس لئے شاہ محمود قریشی کی وضاحت بظاہر تشنہ محسوس ہوتی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ اگر کسی بھی قسم کے مذاکرات میں یو اے ای کا کوئی کردار ہے تو اسے تسلیم کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ اگر یو اے ای کی خواہش ہے کہ دونوں ملک اس کی کوششوں سے قریب آ جائیں، کشیدگی کم ہو جائے معمول کے تعلقات بحال ہو جائیں تو اس میں بظاہر کوئی قباحت نہیں ہے امن کے لئے کوششیں کسی بھی سطح پر ہوں قابل تعریف ہی ہوتی ہیں اب اگر یو اے ای کی اس کوشش سے استفادہ بھی کیا جا رہا ہے اور انٹیلی جنس کی سطح پر ہی سہی کسی قسم کے کوئی مذاکرات ہو رہے ہیں تو یہ بات مان لینے میں آخر ہرج ہی کیا ہے۔ 
ان مذاکرات کے متعلق خبریں تو کافی عرصے سے منظرِ عام پر آ رہی تھیں اور جب کشمیر کی کنٹرول لائن پر جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کا دوبارہ عہد کیا گیا تو اگرچہ یہ بھی مقامی کمانڈروں کی ہاٹ لائن پر گفتگو کا ماحاصل قرار دیا گیا لیکن اس معاملے میں بھی یو اے ای کی کوششیں نظر آتی تھیں۔ اب کوئی اسے تاثر کا نام دے لے یا معروضی حقائق کا اظہار، اس سے امر واقع تو تبدیل نہیں ہو سکتا البتہ ہمارے وزیرخارجہ کو بظاہر یہ پریشانی لاحق نظر آتی ہے کہ پاکستان تو بار بار یہ اعلان کر رہا ہے کہ جب تک بھارت کشمیر کو ضم کرنے کا اقدام واپس نہیں لیتا اس وقت تک مذاکرات نہیں ہو سکتے، لیکن اس کے علی الرغم کسی نہ کسی سطح کے مذاکرات جاری بھی ہیں اور یہ شرط بھی رکھی جا رہی ہے کہ مودی کے اقدام کی واپسی تک مذاکرات نہیں ہو سکتے تو لوگ سوال کریں گے کہ یہ کیا ہو رہا ہے، بظاہر اپنی گفتگو کے اس تضاد کو دبانے کے لئے شاہ محمود نے سیدھے سبھاؤ یہ تسلیم کرنے کی بجائے کہ مذاکرات میں یو اے ای کا کوئی کردار ہے گھما پھرا کر یو اے ای کے کردار کو کم تر کرنے کی کوشش کی ہے۔ کنٹرول لائن پر جنگ بندی کے بعد بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کو مبارکباد کا جو پیغام بھیجا اسے بھی خیرسگالی کی انہی کوششوں کا نتیجہ قرار دیا گیا بلکہ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا تھا وہ بھی انہی کوششوں کا نتیجہ تھا لیکن کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کے اس فیصلے کا اعلان ہونے کے اگلے ہی دن کابینہ نے اسے مسترد کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقتصادی کمیٹی کے فیصلے کی سمری وزیراعظم نے کابینہ کو بطور وزیر تجارت ارسال کی تھی آج بھی کابینہ کے کئی وزیر بھارت کے ساتھ تجارت کے حامی ہیں گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس معاملے پر کابینہ تقسیم ہے خود وزیرخارجہ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بھی کابینہ کے اجلاس میں بھارت سے تجارت کی مخالفت کی تھی، لیکن جو مذاکرات ہو رہے ہیں یا حالیہ مہینوں میں ہوتے رہے ہیں ان کے وجود سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے جبکہ سہولت کار ملک صاف گوئی سے ایسے مذاکرات میں اپنے کردار کا ذکر بھی کر رہا ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -