رمضان اللہ کی رحمت

رمضان اللہ کی رحمت
رمضان اللہ کی رحمت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: سحر نصیر 
رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کا سب سے خاص مہینہ ہے۔رمضان عربی زبان کا لفظ ہے،رمضان کا  لفظ رمض سے نکلا ہے اس کی جمع رمضانات،ارمضاء اور ارمضہ آتی ہے۔یہ اسلامی مہینوں میں نواں مہینہ ہے جو کہ شعبان کے بعد آتا ہے۔رمضان کے معنی ہیں ایسی گرمی جس سے پتھر بھی پگھل جائے ۔اس کے علاوہ تیز اور موسلادھار بارش بھی اس کے معانی میں ہیں۔رمضان مسلمانوں کے لیے  سب سے افضل مہینہ ہے۔اس مہینے کا ایک اہم رکن روزہ ہے،روزے میں مسلمان صبح فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے سے باز رہتا ہے۔روزہ 10 شعبان 2 ھ کو فرض ہوا تھا۔رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کا سب سے انمول ذریعہ ہے اس مہینے کے آغاز میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ شیطان کو قید کر لیتے ہیں ان دنوں میں ایک انسان اپنے نفس کو پہچان سکتا ہے۔اور اپنے اندر موجود برائیوں کو جڑ سے ختم کر سکتا ہے کیوں کہ اس مہینے میں شیطان تو اللہ کی قید میں ہوتا ہے تو پھر انسان کیوں برائیوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے کیوں خود کو ان گناہوں سے دور نہیں رکھ پا رہا ہوتا اصل میں ہم انسانوں کا نفس ہی ہمارے ضمیر کے خلاف ہے۔ہمارا ضمیر ہمیں جس کام سے منع کر رہا ہوتا ہے ہمارا دل وہی کام کرنے کو چاہ رہا ہوتا ہے۔رمضان المبارک کی فضیلت کا اندازہ لگانے کے لیے یہی چیز کافی ہو گی کہ اس مہینے میں قرآن مجید کا نزول ہوا۔ارشاد ربانی ہے:
"مہینہ رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن مجید ہدایت کے واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن،سوجو کوئی پائے تم میں سے اس مہینہ کو تو ضرور روزے رکھے اس کے"۔(سورت البقرہ:185)
اس آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے کہ قرآن پاک اس مبارک مہینے میں نازل ہوا ہے اور اس میں تمام لوگوں کے لیے مکمل ہدایت موجود ہے۔قران پاک قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے اور اس کتاب کی حفاظت کی  ذمے داری اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لی ہے۔رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مہینہ ہے ویسے تو اللہ کی رحمت کا سلسلہ کبھی اختتام پذیر نہیں ہوتا پر رمضان المبارک کے مہینے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہر نیکی کا ثواب بڑھا دیتا ہے۔
یوں تو رمضان المبارک پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے رحمت و مغفرت والا مہینہ ہے. لیکن ہم پاکستانی مسلمانوں  کے لیے یہ خاص اہمیت کا حامل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پاک مہینے کی ہی ایک پاک شب کو ہماری آزادی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو ہمیں آزادی جیسی نعمت عطا کی گئی۔اس ملک کی بنیاد ہی اس حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ اس مملکت خداداد میں اسی مقدس کتاب کا نظام زندگی قائم کیا جائے۔یوں رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو تشکیل پاکستان کی سالگرہ کے طور پر بھی منایا جاتا ہے اور اس رات میں سب مسلمان اپنے اللہ سے اپنے  گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں اور وہ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بڑھ کر محبت کرنے والا اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کر کے سب کو معاف فرما دیتا ہے۔روزے کا اصل مقصد پرہیزگاری اور تقویٰ کا حصول ہے۔
احکام خداوندی ہے:
" جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی۔ہم ان کو اپنا راستہ بتائیں گے"۔
روزہ اللہ کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ ہی اس کا اجر دے گا۔اللہ تعالیٰ کو روزے دار کے منہ کی بو بہت پسند ہے اس چیز سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو روزے دار پر کتنا پیار آتا ہو گا اور اللہ اپنے بندے کی مخلصی پر کتنی رحمتیں کرتے ہوں گے۔کھانے پینے کی ہر چیز سامنے ہونے کے باوجود  انسان اپنے نفس پر قابو پاتا  ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے مجھے میرے صبر کا پھل اللہ نے دینا ہے۔
روزے اور صبر کا بہت گہرا تعلق ہے۔روزہ صبر کا دوسرا نام ہے۔اپنے نفس کو ہر اس چیز سے دور رکھنا جو ہم لوگ اپنی عام روٹین میں کرتے ہیں اس کو صبر ہی کہتے ہیں اور یہ سب کچھ روزے کی وجہ سے انسان کرتا ہے۔اگر ہم ذرا سا غور کریں  تو ہم سمجھ جائیں گے کہ اگر ہم اس مہینے میں اپنے آپ کو برائیوں سے روک سکتے ہیں تو ان برائیوں کو اپنی زندگی کی زیست سے باہر بھی نکال سکتے ہیں اور ایسا ممکن ہے سب کچھ اللہ کی رضا کے لیے کرنا ہوتا ہے۔
احکام خداوندی ہے:
"اے مسلمانو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے"۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود اپنے بندے کو کہہ رہے ہیں کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اس کی باتوں میں نہ آؤ اس کے باوجود ہم انسان اپنے نفس پر قابو نہیں پا سکتے۔ میں پوچھتی ہوں کیوں؟ خدارا اللہ کی رضا کے لیے بس کوشش کریں وہ تھام لے گا آپ کو ایک قدم چلیں  گے تو وہ دس قدم چل کر آئے گا۔گانے،چغلی،غیبت ،جھوٹ اور حسد کو مکمل طور پر چھوڑ دیں اور یہ سب کر کے دیکھیں  کتنا سکون ملے گا۔جو کام اللہ کی رضا کے لیے کیا جاتا ہے اس کام کی تو کیا ہی خوبصورتی  ہے۔
رمضان المبارک کے مہینے کے تین عشرے ہیں اور ایک عشرہ دس دن پرمشتمل ہوتا ہے۔پہلا عشرہ رحمت کا عشرہ ہے جو کہ یکم رمضان المبارک سے دس رمضان المبارک تک ہے۔ جس میں مسلمان اللہ کی رحمتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں۔پہلے عشرے کے لیے پڑھی جانے والی دعا کا ترجمہ یہ ہے:
" اے میرے رب مجھے بخش دے،مجھ پر رحم فرما،تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے".
دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے جس کا آغاز گیارہویں روزے سے ہوتا ہے جس میں مسلمان اپنے صغیرہ و کبیرہ گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں۔اس عشرے میں پڑھی جانے والی دعا کا ترجمہ یہ ہے:
"میں اللہ سے تمام گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں جو میرا پروردگار ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں"۔ اور رمضان المبارک کا تیسرا اور آخری عشرہ نجات کا ہوتا ہے۔جس میں مسلمان اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس عشرے میں پانچ طاق راتوں کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے مسلمان اپنے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اور انھیں پانچ طاق راتوں میں ایک رات شب قدر ہے۔ شب قد سے مراد عزت والی رات ہے۔جس میں عبادت کا ثواب ایک ہزار راتوں کی عبادت کے برابر ہے۔ لیکن ان سب اعمال میں پہلے نمبر  پر انسان کی نیت ہوتی ہے۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ہر کام کرنے سے پہلے اپنی نیت کا جائزہ لینا بے حد ضروری ہے۔روزہ رکھنے سے غریبوں کی بھوک پیاس کا احساس پیدا ہوتا ہے۔غریبوں کی مدد کا جذبہ بیدار ہوتا ہے جو اس سے پہلے سو چکا ہوتا ہے۔کم سے کم غذا پر اکتفا کی عادت پیدا ہوتی ہے۔
روزے کے کچھ مقاصد ہیں  ضبط نفس،تقوی،تزکیہ نفس اور شکر وغیرہ شامل ہیں۔ضبط نفس سے مراد اپنے آپ کو برائیوں اور شیطانی خواہشات سے روکے رکھنا ہے روزے کی حالت میں انسان کا اختیار اپنے نفس پر بھی ہونا چاہیے۔تقوی سے مراد پرہیزگاری ہے۔تقوی دل کی اس کیفیت کا نام ہے جو انسان کو برائیوں سے روکتی اور نیکیوں کی طرف راغب کرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" اگر کوئی شخص روزہ رکھ کر بھی جھوٹ غلط رویوں سے نہیں بچتا تو اس کے کھانا پینا چھوڑنے سے اللہ کو کوئی دلچسپی نہیں"۔
ایسے روزے کا کوئی فائدہ نہیں جس میں ہم اپنے نفس پر قابو نہ پا سکیں اور برائیاں کرتے رہیں  اور کہیں  کہ ہم روزے سے ہیں ایسے روزے کو  بے اثر روزہ کہتے ہیں۔ جنت کا ایک دروازہ  ہے جو روزے داروں کے لیے مخصوص ہے اسے "باب الریان" کہتے ہیں۔روزے میں انسان کی ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہو جاتا ہے۔روزہ کسی حال میں معاف نہیں ہے اگر کوئی مسلمان بیمار ہے یا سفر پر ہے تو وہ روزے کی قضا کر لے یعنی جتنے روزے بیماری یا سفر میں نہ رکھ سکے تو رمضان کے بعد رکھ لے یہ قضا ہے۔اگر کوئی بوڑھا ہے جس کی وجہ سے وہ روزہ نہیں رکھ سکتا تو وہ اس کے بدلے میں ایک مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلائے گا یہ روزے نہ رکھنے کا فدیہ ہے۔اور اگر کوئی شخص بغیر کسی وجہ کے روزے چھوڑ دے تو اس کو ساٹھ دن کے روزے رکھنے ہو نگے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو گا یا ایک غلام آزاد کرنا ہو گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
" اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلےلوگوں پر کیے گئے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ"۔
روزہ ہرمسلمان  عاقل، بالغ اور مقیم پر فرض ہے۔جب ماں کو اللہ نے بنا لیا تو فرشتوں کو حکم دیا کہ آفتاب کی تمازت،چاند کی ٹھنڈک،شبنم کے آنسو،بلبل کے نغمے،چکوری کی تڑپ،گلاب کے رنگ،کوئل کی کوک،سمندر کی گہرائی، دریاؤں کی روانی،موجوں کا جوش،کہکشاں کی رنگینی،زمین کی چمک اور صبح کا نور جمع کرو تاکہ ماں کو تخلیق کیا جائے۔جب ماں کی تخلیق  کے لیے اتنی خوبصورت،قیمتی اور انمول چیزوں کو اکٹھا کیا گیا تھا تو مسلمانوں سوچو وہ اللہ جو ستر ماؤں سے بڑھ کر محبت کرنے والا ہے اگر اس کی رضا کے لیے ہر کام کرو گے تو وہ تم سے کتنی محبت کرے گا تم پر کتنا مہربان ہو گا تم کو کتنا عطا کرے گا۔اللہ جی ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اورہم سب سے راضی ہو جائے آمین ۔ اس تحریر کا اختتام اس آیت مبارک سے کروں گی۔
" اے اللہ! ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا دے اور روزے رکھنے، نماز پڑھنے ،قیام کرنےاور قرآن پڑھنے کی توفیق عطا فرما". آمین یا رب العالمین

۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.   ‎

مزید :

بلاگ -