؎ وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی
ڈاکٹر یونس بٹ نے کہا تھا جس طرح ڈاکٹر صاحبان کو تندرست لوگ اچھے نہیں لگتے اس طرح صحافیوں کو نارمل حالات اچھے نہیں لگتے۔شیخ رشید یا ایسے دوسرے سیاستدان ملک میں خانہ جنگی کی بات کریں تو سمجھ آتی ہے کہ ان سے اقتدار چھنا ہے اور انکے پاس دوسرا کوئی کام بھی نہیں اور ہمارے سیاستدانوں کو ہمہ وقت یہی فکر رہتی ہے کہ وہ کرسی اقتدار پر کیسے براجمان ہوں لیکن مجھے حیرانی تو اس وقت ہوتی ہے جب ہمارے کچھ صحافی بھائی بھی خانہ جنگی کی بات کریں یہ تو سنسنی ہے دہشت ہے۔ ہراس ہے جو ہمارے سیاستدان پھیلا رہے ہیں لیکن ان میں صحافیوں کا شامل ہونا افسوس ناک ہے اور خطرناک بھی کہ جب ملک میں خانہ جنگی کا شوشہ چھوڑا جائے گا تو ملک میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوجائے گی اور ہمارا عام شہری تو پہلے ہی سہما ہوا ہے گھبرایا ہوا ہے کہ نہ جانے کیا ہونے والا ہے کیا ہورہا ہے کیا ہوگا اور رہی بات سازش کی توسازش در حقیقت یہ ہے جو ہمارے سیاستدان یہ کہہ کر کررہے ہیں کہ ملک میں خانہ جنگی ہوگی اور ستم تو یہ ہے کہ تحریک انصاف اقتدار سے پہلے جو باتیں کررہی تھی وہی آج کررہی ہے جناب عمران خان آج لندن میں تیار ہونے والی سازش کی بات کرتے ہیں تو 2018ء سے پہلے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف ہونے والی سازش بھی لندن ہی میں تیار ہوئی جس میں بقول مسلم لیگ ’ن‘ عمران خان بھی شریک ہوئے جب مسلم لیگ ن کی پچھلی حکومت کے خلاف جناب عمران خان کی یلغار ہوئی تو اس یلغار کی تیاری بھی لندن میں ہوئی تھی جسکی کہانی لکھی گئی سارے کردار چنے گئے تھے اور پھر اس کہانی کے مطابق مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف سب نے اپنا اپنا کردار خوب نبھایا اور اس وقت بھی جناب شیخ رشید مرو مارو جلاؤ گھیراؤ کی نامناسب تقاریر کرتے رہے اور آج بھی شیخ صاحب کا لہجہ وہی ہے جناب عمران خان اس وقت بھی سول نافرمانی خانہ جنگی کی بات کرتے رہے اور آج بھی وہی کررہے ہیں کل بھی ان کے دھرنوں میں جن افسانوں نے جنم لیا انکے ذکر کا کالم متحمل نہیں ہو سکتا آج بھی عمرانی جلسوں میں وہی خوبصورت پیرہن زیب تن کئے کچھ تتلیاں اپنے رنگ بکھیرتی دکھائی دے رہی ہیں کل بھی تحریک انصاف نے سوشل میڈیا کا خوب استعمال کیا اور آج بھی کیا جارہا ہے جناب عمران خان صاحب کے پاس تقریباً چار سال کے اقتدار کے بعد بھی کچھ نیا نہیں ہے یعنی
؎وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی
یہ اپنے چار سالوں میں کچھ کرتے تو اپوزیشن کے پاس انہیں ہٹانے کا کیا جواز رہتا؟کل تک ملک اتنا مقروض نہیں تھا جتنا آج ہے عمران خان صاحب کی حکومت بیس ہزار ارب کا قرض لے کر عوام کو اور بھی مقروض کر چکی ہے حالانکہ قرض سے عمران خان خود کشی کو ترجیح دیتے رہے آج عمران خان صاحب الیکشن کی بات کررہے ہیں تو یہی بات کل تک شہباز شریف صاحب اور دیگر کرتے رہے ہیں لیکن آج جب کہ عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف صاحب وزیراعظم ہیں تو آج عمران خان صاحب کیلئے الیکشن کی بات کرنی کچھ مناسب نہیں کہ یہی بات بلکہ مطالبہ تو عمران خان کی اپوزیشن کرتی رہی ہے الیکشن کا ذکر عمران خان کو اس وقت کرنا چاہئے تھا بلکہ عمران خان کو ایک سال پہلے یہ مطالبہ مان لینا چاہئے تھا اب الیکشن کو اور ایک سال ہے یہ ہونے ہی ہیں خان صاحب ذرا انتظار فرمائیں اور ان جلسوں دھرنوں سے ملکی معیشت تباہ نہ کیجئے کل ہی کسی واٹس ایپ گروپ میں یہ پوسٹ سامنے آئی جس میں لکھا تھا کہ عمران خان صاحب کو چاہئے کہ شہر شہر جلسے کرنے کی بجائے وہ اسلام آباد امریکی سفارت خانے کے باہر احتجاج کردیں اور وہاں ان امپورٹد وزیروں شہباز گل۔ زلفی بخاری۔ملیکہ بخای۔ معید یوسف۔حفیظ شیخ، رضا باقر۔ شہزاد اکبر۔ فیصل واوڈا۔ ندیم بابر۔ثانیہ نشتر اور عمران خان صرف امریکہ مردہ باد کے نعرے لگائیں امریکی پاسپورٹ جلا کر قوم کو امریکی مظالم سے آگاہ فرمائیں خودی بھی بلند ہوگی اور حقیقی احتجاج بھی ہوجائے گا اور عوام کو سازش والے خط پر یقین بھی آجائے گا درست ہی لکھا ہے کسی نے جناب عمران خان اپنے ملک میں خانہ جنگی کی بات کرتے ہیں سول نافرمانی پر اکساتے رہے اپنے بل جلاتے رہے ذرا امریکی سفارت خانے کے سامنے کچھ کرکے تو دکھائیں لیکن شائد نہیں ان سے ایسا کچھ نہیں ہوگا انکی جذبہ ایمانی صرف اقتدار کے لئے جاگتا ہے۔ دوسری جانب شہباز شریف صاحب کی حکومت کے لئے کڑا امتحان ہے بطور ایڈمنسٹریٹر شہباز شریف صاحب کی صلاحیتوں کے سبھی معترف ہیں لیکن اس بار حالات کچھ مختلف ہیں انکے اتحادیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں سندھ ’مہیڑ‘ ہونے والے دلدوز واقعے نے تو بہت افسردہ کر دیا ہے کہ جہاں آگ لگنے سے نو بچے جان سے گئے درجنوں مویشی جھلس گئے مکانات جل کر راکھ ہوگئے پورا گاؤں اٹھارہ گھنٹے آگ کے شعلوں کی نذررہا لیکن فائر برگیڈ تک نہ آسکی اور جب اٹھارہ گھنٹوں کے بعد ایک فائر برگیڈ آئی بھی تو اس میں پانی ہی نہیں تھا اس میں وہاں کے مکینوں نے اپنے برتنوں سے پانی بھرا دو سال پہلے وہاں کتے کے کاٹنے سے ایک بچہ جان بحق ہوگیا تھا اس بچے کی ماں کمشنر آفس کے سامنے اسے اپنی گود میں لئے بیٹھی رہی لیکن بچے کو ویکسئین نہ مل سکی اور اس نے تڑپ تڑپ کر ماں کی گود میں دم توڑ دیا اور ماں کا کلیجہ کتنا چھلنی ہوا کوئی جان بھی نہیں سکا مہیڑ میں صرف ایک نہیں بلکہ چھ گاؤں آگ کی لپیٹ میں رہے اور وزیر اعظم صاحب نے صرف ایک کروڑ کی امداد کا اعلان کیا ہے جو کافی نہیں اور سندھ پر حکومت کرنے والوں کو سوچنا ہوگا کہ کیا وہ حق حکمرانی ادا کررہے ہیں۔