آج کیا ہو گا؟سب کی نگاہیں اسلام آباد کی طرف!

 آج کیا ہو گا؟سب کی نگاہیں اسلام آباد کی طرف!
 آج کیا ہو گا؟سب کی نگاہیں اسلام آباد کی طرف!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


رمضان المبارک کا مقدس مہینہ گذرا، عید آئی اور وہ بھی گذر گئی، اِس بار چھٹیاں بھی ایک ساتھ ملیں اور یوں قوم نے پورا ہفتہ اپنے اپنے طور پر گذارا۔ یہ عید ہی کا اعجاز ہے کہ تفریح گاہوں، ریستورانوں اور ناشتہ والی دکانوں پر بھیڑ رہی۔ امیر و غریب سب نے اپنی اپنی بساط کے مطابق خوشی منائی۔ بڑے شہروں کی رونقیں دیکھ کر اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ معاشی حالات میں گھرا یہ ملک کن پریشان کن حالات سے دوچار ہے،بہرحال شہریوں نے اپنی سی کی اور لاکھوں گھرانے اس موقع پر بھی روکھی سوکھی پر ہی گذارا کرنے پر مجبور رہے۔عید کے حوالے سے سلامتی کے لئے کردار ادا کرنے والے ان مجاہدین کو سلام ہے جو عید کے موقع پر بھی اپنوں کو چھوڑ کر فرائض کی انجام دہی میں مصروف رہے اور دن رات سماج اور ملک دشمن عناصر کی سرکوبی میں گذارا۔


سلام ہے ان ”مہربان، سیاست دانوں“ کو بھی جنہوں نے اس مبارک موقع پر بھی اپنی سی کی اور مخالفین کے لتے لیے، ملک میں جاری اِس سیاسی محاذ آرائی کو التوا میں نہیں ڈالا گیا اور عید کے موقع پر بھی سابقہ سلسلہ برقرار رکھا گیا۔ عدالت عظمےٰ کی سہ رکنی بینچ کی طرف سے دی گئی مہلت بھی بار آور نہیں ہو پائی اور تاحال ایسی کوئی اطلاع نہیں کہ مذاکرات کا وقت طے ہوا ہے البتہ یہ خبر موجود ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی طرف سے ایاز صادق نے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے رابطہ کیا اور ان سے مل بیٹھنے کی بات کی، خبروں کے مطابق اس بات چیت کے نتیجے میں 26 اپریل کی ملاقات طے ہو گئی لیکن یہ بار آور نہ ہوئی کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسے رد کر دیا اور کہا کہ کسی نے مذاکرات کے لئے رابطہ نہیں کیا اور ان کی طرف سے مذاکرات کا اختیار مخدوم شاہ محمود قریشی کو دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ عمران خان نے مضبوط لہجے میں کہا کہ وہ ہر قیمت پر عدلیہ کی طرف سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لئے دیئے گئے وقت(14مئی) پر انتخابات چاہتے ہیں،حکمران اتحاد کا فیصلہ اس کے برعکس ہے اور یوں مذاکرات سے پہلے ہی ڈیڈ لاک کا اہتمام کر لیا گیا اور دونوں طرف سے کوئی لچک نہیں۔ایک دوسرا حُسن ِ اتفاق یہ ہے کہ سابق وزیر داخلہ پرویز خٹک کی اہلیہ کا لاہور میں انتقال ہوا، خبروں کے مطابق تدفین لاہور میں ہو گی، چنانچہ ان کی رہائش پر پرسہ دینے کے لئے آنے والوں کی لائن لگ گئی اس حوالے سے جہاں تحریک انصاف کے رہنما وہاں آئے تو حکمران جماعت کے خواجہ سعد رفیق اور ایاز صادق بھی تعزیت کے لئے پہنچے اور یہاں اس سوگ والی محفل میں متحارب فریقوں کے درمیان ملاقات ہوئی، معانقے ہوئے حتیٰ کہ ایاز صادق اور چودھری پرویز الٰہی کے درمیان کانا پھوسی بھی خبر بن گئی اس سب کے باوجود کوئی مثبت عمل سامنے نہیں آیا البتہ بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔

اِن حالات میں آج(بدھ) کا روز اہم ہے کہ فریقین میں ملاقات ہونا چاہئے لیکن عمران خان کی طرف سے مذاکرات کے حوالے سے بیان نے رخ موڑ سا دیا ہے، اب تو یہ آنکھیں منتظر ہیں کہ کیا اسد قیصر اپنے قول کے مطابق اب بھی ملاقات کریں گے یا نہیں؟ ان حالات میں تاحال بہتری کی صورت نظر نہیں آ رہی،سرکار کی طرف سے بھی موقف پر اصرار ہے، کل (27اپریل) چیف جسٹس کی قیادت میں سہ رکنی بینچ نے پنجاب اسمبلی انتخابات کا کیس سننا ہے۔یوں حالات پر دبیز چادر پڑ گئی ہے۔ دوسری طرف آج(بدھ) چیف جسٹس، مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال علالت کی وجہ سے سپریم کورٹ نہیں آ سکے اور نزلہ، زکام، فلو کی شکایت بتائی گئی جو کل (27اپریل) تک بحال ہونے کا امکان ہے اگر ایسا نہ ہوا تو پھر یہ اہم سماعت نہ ہو سکے گی اور کیس کی سماعت میں التوا آ جائے گا۔


یہ جو بھی حالات ہیں،ان کے لئے سیاست دان حضرات ہی کو ذمہ دار سمجھا جا رہا ہے اور عام آدمی اب مایوس ہے اب تو بعض حضرات نے یہ تجویز کیا ہے کہ متحارب سیاست دانوں کی کوریج بند کر دی جائے،میڈیا والے حضرات کو اس محاذ آرائی میں اپنا مثبت کردار پیش کرنا چاہئے، مجھے بھی یہ تجویز بہتر نظر آتی ہے کہ اگر ان سیاسی رہنماؤں کی نوک جھونک کو دیکھیں تو یہ سب ”کوکلا چھپاکی“ کھیل رہے ہیں، خصوصی طور پر فرزندِ راولپنڈی محترم شیخ رشید صاحب کا تو کوئی جواب نہیں، وہ ہر بار پیش گوئی کرتے اور ہر مرتبہ ناکامی کے بعد تاریخ آگے بڑھا دیتے ہیں،ان محترم کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ علم الغیب کے ماہر بننے سے باز آ جائیں کہ ان کی طرف سے دی گئی ہر تاریخ پر کچھ نہیں ہوا اور یہ دن آگے بڑھاتے چلے گئے،مجھے ان کے بیانات کے حوالے سے سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ تشدد کی بات کرتے ہیں اور خانہ جنگی کا ذکر کرتے ہیں۔یہ دم اور چونچ کے گم ہونے کی بات بھی کر چکے ہیں،ویسے محترم اپنے حوالے سے بہت ثابت قدم بھی ہیں کہ مسلسل خانہ جنگی کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں اللہ ہمیں اور ہمارے ملک کو اس سے بچائے۔افریقی ملک سوڈان کی حالیہ کشمکش دیکھ لیں کہ وہاں خانہ جنگی نے کیا صورت اختیار کر رکھی ہے اس لئے ان حضرات کو ایسی باتوں سے گریز کرنا چاہئے۔


یہ واحد شخصیت نہیں ہیں،ہر جماعت نے اپنے کچھ لوگ اس کام کے لئے متعین کر رکھے ہیں، جو دوسروں کو بُرے القابات ہی سے یاد کرتے ہیں،حالانکہ حالات کا تقاضہ اور ہے،جب وطن کی خاطر سب کو مل کر بیٹھنا اور معاملات طے کرنا ہوں گے کہ یہاں مسئلہ صرف اور صرف آئی ایم ایف سے معاہدے کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ جس بھاری تعداد میں قرضے لئے جا چکے اور مزید لئے جا رہے ہیں یہ واپس بھی تو کرنا ہیں اور کیسے ہوں گے، ممکنات میں صرف یہ ہے کہ مکمل اتحاد و اتفاق سے معاملات چلائے جائیں، ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور قرضوں کا بوجھ کم ہونا شروع ہو۔


مسلح افواج کی طرف سے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس بڑی واضح ہے۔ فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کی یہ پریس کانفرنس پہلی ہے جو چیف آف آرمی سٹاف کے تقرر کے بعد ڈائریکٹر جنرل کے عہدہ پر فائز ہونے والے میجر جنرل احمد شریف چودھری نے کی۔انہوں نے بڑی تفصیل سے سرحدی حالات، بھارت کی ریشہ دوانیوں اور مغربی سرحدوں کے بارے میں بات کی اس کے ساتھ ہی سوالات کے جواب بھی دیئے،ان کی بڑی بات یہ تھی کہ فوج اور حکومت کے درمیان آئینی رشتہ ہے اور فوج کو کسی سیاسی جماعت کے ساتھ جوڑنا درست نہیں۔انہوں نے چیف جسٹس سے ملاقات کے حوالے سے جواب نہ دیا اور موقف اختیار کیا کہ وزارت دفاع نے عدلیہ کو آگاہ کر دیا چونکہ یہ ملاقات اِن کیمرہ تھی اس لئے وہ بھی اس پر کوئی بات نہیں کریں گے۔ان کی وضاحت سے یہ تاثر لیا جا رہا ہے کہ مسلح افواج اپنے موقف پر قائم ہیں جبکہ محترم کپتان نے ایک بار پھر کہہ دیا کہ اسٹیبلشمنٹ موجودہ حکومت کے ساتھ ہے،حالات پر نظر رکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی عناصر اس مہلت سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور ان کو مزید و قت درکار ہو گا جبکہ آج(جمعرات) اس حوالے سے تاریخ متعین ہے اور سیاسی جماعتوں کو جواب دینا ہے۔ حکمران اتحاد نے تو جو موقف اختیار کیا اس کے مطابق وہ نتائج کے لئے تیار ہیں لیکن یہ اس سوال کا جواب ضروری ہے کہ سہ رکنی لارجر بینچ کی حیثیت کیا ہے۔ نظربہ ظاہر یہ مستحکم پوزیشن ہے کہ چیف جسٹس موجود ہیں، حکمران اتحاد کی طرف سے تاحال پارلیمان ہی کو محور بنایا گیا،کسی قسم کی قانونی اور آئینی چارہ جوئی نہیں کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ حکمران جماعت سہ رکنی بینچ کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی؟ جو کچھ بھی کہا جا رہا ہے وہ پریس کانفرنس کے ذریعے ہی کہا جا رہا ہے،کیا اس سے عملی طور پر کوئی فائدہ ہو گا؟یہ سوال ہے جو پوچھا جا رہا ہے اگر متوقع طور پر توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو گئی تو پھر حکومت کیا موقف اختیار کرے گی۔اس بارے میں بھی آج(بدھ) ہی کو فیصلہ کرنا ہو گا، دیکھتے ہیں 27 اپریل کا سورج قوم کے لئے کیا توقعات لے کر طلوع ہوتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -