بیگم سرفراز اقبال کی یاد میں
گیارہ سال پبلک جھپکنے میں گزر گئے۔ شاعر مشرق نے کہا :
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
مگر بیگم سرفراز اقبال سے میرا، میری فیملی کا اور ان گنت دوسرے لوگوں کا جورشتہ تھا اور جو ہے، وہ وصل وجدائی کی کیفیات سے ماوراقرار پاتا ہے۔ گیارہ سال قبل مَیں اسلام آباد کے قبرستان میں کھڑا تھا اور خوشبو کی شاعرہ کے کتبے پر درج اس شعر کے بے پناہ ابلاغ میں کھویا ہوا تھا :
بزم انجم میں قبا خاک کی پہنی مَیں نے
اور میری ساری فضیلت اسی خاک میں ہے
بیگم سرفراز اقبال کی خواہش کے احترام میں جب اس کا جسد خاکی پروین شاکر کے پہلو میں سپردخاک کیا جارہا تھا تو مَیں سوچ رہا تھا.... ”مرحومہ کی ساری فضیلت اس کی ممتا میں مضمر ہے۔ جب میرے دل سے یہ دعا نکل رہی تھی.... ”یااللہ !اس قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنادے تو چمن ممتا کے گل بوٹے اسی دعا سے معمور حسرت اپنی آنکھوں کے کٹوروں سے ٹپکارہے تھے .... غالب ، دیمی، مینا اور مانو زبان حال سے پکاررہے تھے :
سارے جہاں کی دھوپ مرے گھر میں آگئی
سایہ تھا جس درخت کا مجھ پہ وہ گر پڑا
(ایمبیسڈر غالب اقبال بیگم سرفراز کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ ان سے چھوٹے ڈاکٹر ندیم اقبال کا نک نیم دیمی ہے۔ ان کی بیٹی پروفیسر غزالہ حیات مینا اور پروفیسر ثمینہ یاسمین مانو کے نک نیمز سے موسوم ہیں )
جب مجھے ایک ٹی وی چینل پر نشر ہونے والی خبر کے ذریعے سے بیگم سرفراز اقبال کی وفات کا پتہ چلا تو مَیں نے مینا سے بذریعہ فون تعزیت کی اور کہا:”مینا بیٹی !کہانی ختم ہوگئی“۔ مینا کا جواب تھا”خالو جی ! یہ نہ کہیے کہ کہانی ختم ہوگئی “ ۔ بعد میں سوچا تو مینا ہی سچ کہہ رہی تھی۔ آج برسوں بعد بھی گھر گھر مرحومہ ہی کی کہانیاں سنی اور سنائی جارہی ہیں۔ ہردل کی اقلیم پر انہی کی حکمرانی ہے۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور سفر میں تھا کہ سخت بیمار پڑ گیا اور راستے ہی میں اس کا انتقال ہوگیا۔ آخری وقت میں اس کی زبان پر یہ فقرہ تھا.... ”بادشاہ وہ ہے جو نہ مرے “ ۔
ان دنوں مَیں اور حامد میر دونوں روزنامہ” پاکستان“ سے وابستہ تھے۔ حامد میر نے اپنے کالم ”قلم کمان“ میں ایک روز ایک لڑکی کا خط شائع کیا جس کی ماں وفات پاگئی، تو خالہ نے اسے اس بازار پہنچانے کا فیصلہ کرلیا ۔اس بیٹی نے حامد میر کے نام اپنے خط میں مدد چاہی۔ ”قلم کمان“ میں چھپنے والی پکار ایک درد مند دل میں اتر گئی اور ایک معصوم روح گناہوں کی دلدل میں فنا ہونے کے بجائے معاشرے میں عزت و احترام کے مقام پر پہنچ گئی۔ مَیں اپنے محلے کی ایک لڑکی کو جانتا تھا، جسے حالات اپنے جبر کے شکنجے میں جکڑ رہے تھے۔ مَیں نے حامد میر سے کہا :”میر صاحب !آپ کے ذریعے سے ایک حوازادی محفوظ ومامون ہوگئی۔ اس بازار سے واپس آگئی اور اپنا گھر بسا لیا۔ اسی طرح ایک محروم ومجبور لڑکی کی مدد کرواور اسے اس بازار جانے سے بچا لو!
”قلم کمان“ سے ایک اور تیر نکلا، جو اپنے ٹھیک ہدف پر جالگا۔ غزالہ نامی اس بیٹی سے متعلق تفصیلات حامد میر کے اثرانگیز اسلوب کے جلو میں بیگم سرفراز اقبال کے دل میں اتریں تو مرحومہ سے میرے تعارف کا سامان ہوگیا۔ بیگم صاحبہ دردمنددل تو رکھتی ہی تھیں ،اس پر مستزادیہ کہ ان کی اپنی بیٹی کا نام بھی غزالہ تھا، انسانی ہمدردی کے ساتھ ممتا نے مل کر احساس وجذبے کی صورت حال دوآتشہ کردی۔ غزالہ کی اعانت کی تفصیلات کا بیان سرفراز اقبال کو پسند نہیں تھا ،لہٰذا مَیں بھی بوئے گل کو برگِ گل ہی میں محفوظ رہنے دوں گا۔
بیگم سرفراز اقبال سے جتنی بھی ملاقاتیں اور باتیں ہوئیں۔ مرکزومحور ممتا کا لازوال جذبہ ہی رہا۔ مادروطن کا تذکرہ ہویا اپنی ماں کا ۔ دونوں سے ان کا تعلق خاطر قابل رشک لگتا۔ میری مانو، میری مینا ....اپنی بیٹیوں کا نام لیتی تو منہ سے ممتا کے پھول جھڑتے۔ لاتعداد مسکین بچوں میں اعانت اور ماں کی سی محبت بانٹنے والی سرفراز دہشت گردی کی ہلاکت خیزیوں پر تڑپ اٹھتی، انسداد دہشت گردی کے نام پر دہشت گردی اسے مزید مغموم کردیتی۔ ایک دن کہہ رہی تھی :”ستمبر کے المیہ پر مَیں بہت روئی اور جب افغانستان پر حملہ ہوا تو مزید شدت سے روئی۔ مائیں جنگوں کا ایندھن بن رہی ہیں۔ بچے یتیم ہورہے ہیں۔ تباہ حال جنگ زدگان کی بحالی کے دعوے کرنے والے جنگجو کیا ان بچوں کو ان کی ممتا لوٹا سکتے ہیں۔
ایک مسکین لڑکی کی شادی میں شرکت کے لئے لاہور آئیں۔ شادی کے تمام تر اخراجات بیگم صاحبہ نے کئے۔ انتظامات مجھے اور میری اہلیہ کو سونپ رکھے تھے۔ بیگم صاحبہ میرے گھر آئیں تو بچوں کو اپنی آمد پر خوش دیکھ کر بے حد خوش ہوئیں۔ ایک ”فیملی ممبر“ کو غیرحاضر پاکر ٹھیٹھ پنجابی میں کہنے لگیں(تواڈی ووہٹی کھتے اے جی )مَیں نے اشارے سے بتایا : ادھر بیٹھی ہے جی !اصل وچ ایہہ کج بہتی ہی پینڈو اے، احساس کمتری دا شکار اے۔ تواہڈے توں جھک دی....“ بیگم صاحبہ !میری اہلیہ کے پاس چلی گئیں۔ اسے گلے لگایا۔ اپنا دوپٹہ اتارکر اسے اوڑھا دیا اور کہا : آپ اپنا دوپٹہ مجھے اوڑھائیں اور کہنے لگی ”بہن !کوئی وڈا چھوٹا نئیں ہندا۔ اج تو ں اسیں دونوں دوپٹہ بدل بھیناں بن گیاں واں “۔ ( اسی نسبت سے مینا مجھے خالو کہہ کر پکارتی ہیں اور ہمارے فیملی کے ساتھ محبت آمیز تعلق قائم رکھنے میں اپنی ماں کی صحیح جانشین ثابت ہوئی ہیں۔
دلوں کو مسخر کرنے والا انداز مرحومہ کے ساتھ ہی دفن ہوگیا۔ یہ حسرت اور محرومی اکثر سوگوار کردیتی ہے۔ ایک اور حسرت ناتمام کاغم اس سے سواہے۔ بیگم صاحبہ اپنی جوکتاب شائع نہ کرسکیں، اس میں میری کوتاہی بھی شامل ہے، مرحومہ کی خواہش تھی کہ یہ کتاب اسلوب ، زبان وبیان اور پروڈکشن کے حوالے سے ان کی موجودہ تصانیف سے بہتر ہونی چاہئے۔ حسن ظن کی بنا پر اس ضمن میں میری معاونت چاہتی تھیں۔ چند نشستوں میں ہم مجوزہ تصنیف (جو اصلاً مرحومہ کی آپ بیتی تھی ) کی ترتیب اور اسلوب پر متفق ہوگئے۔ مواد ضبط تحریر میں لانے کے لئے چند روز کے لئے اکٹھے بیٹھنا تھا کہ مَیں ہارٹ اٹیک کے باعث ہسپتال پہنچ گیا۔ جب سنبھلا تو بیگم صاحبہ اپنے دل کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئیں۔
اچانک موت کا صدمہ عام صدمات کے مقابلے میں زیادہ شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ چلتے پھرتے لوگ رک جائیں، بولتی زبانیں خاموش ہوجائیںتو یقین متزلزل ہوجاتا ہے۔ وفات کی خبر سے چند گھنٹے قبل مرحومہ کے لاہور والے گھر میں ان کے ملازم سرفراز سے بات ہوئی وہ کہہ رہا تھا ۔”بیگم صاحبہ آج امریکہ (اپنی بیٹی کے ہاں سے ) اسلام آباد واپس پہنچ رہی ہیں۔ مَیں ان کے استقبال کے لئے یہاں سے نکلنے ہی والا ہوں۔ ثمینہ بی بی (مینا) بھی ایک روز قبل بتارہی تھی۔ ”امی کل امریکہ سے واپس پہنچ رہی ہیں۔ اچانک المیوں پر ہمیشہ ذہنوں میں سوال ابھرتا ہے :” یہ کیوں ہوا؟ “ مَیں اس سوال کا جو جواب سمجھ پایا ہوں، وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہمیں یہ سمجھانے کے لئے ہوتا ہے کہ :
دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر آنا ہے
ادب سے لے کر سیاسیات تک، صحافت سے تصوف تک جس موضوع پر بھی بات چھڑتی مرحومہ کا مطالعہ میرے اندر یہ احساس اجاگر کرتا کہ کتنا چھوٹا آدمی ہوں۔ شاید اس احساس کمتری کا ردعمل ہی ہوگا کہ مَیں نے ایک روز ممتا کے موضوع پر گفتگو کے دوران ہی بیگم سرفراز سے کہا :: ممتا میں شان ربوبیت پائی جاتی ہے۔ مولانا ابوالکلام نے سورئہ فاتحہ کی تفسیر میں لفظ رب کی جو عظیم الشان شرح لکھی ہے، اس میں ممتا کے جذبے کو ربوبیت ہی کی شان بیان کیا ہے۔ آپ بھی یہ تفسیر ضرور دیکھیں۔علمیت بگھارنے کی یہ کاوش اس وقت خفت میں بدل گئی، جب مرحومہ نے بتایا: ”ترجمان القرآن “ کے نام سے شائع کیا گیا مولانا ابواکلام کی تفسیر کا یہ حصہ اس وقت میری نظر سے گزرا تھا جب مَیں نویں جماعت کی طالبہ تھی۔
اسلام آباد کے قبرستان سے واپسی سے پہلے لحد میں اتری ماں کے سرہانے کھڑی مانو بیٹی نے جب کہا: ” لے نی ماں ہن رب دے حوالے“ تو کوئی بھی شخص اپنے آنسو ضبط نہ کرسکا “۔یادیں ہی باقی رہ جاتی ہیں، مَیں انہیں بھی غنیمت سمجھتا ہوں کہ زندگی کا ایک سہارا ہیں۔ عالم آب وگل سے عالم ارواح تک جانے والی ہواﺅں کے دوش پر مرحومہ کو سلام بھیجتے ہوئے آج مجھے ایک بار پھر اپنی یہ محرومی ستا رہی ہے کہ اب میں فون پر کبھی یہ جملہ نہ سن سکوں گا ”قربان جی!فارغ ہو تو آجاﺅ کچھ دیر مانواں دھیاں والیاں گلاں کر لیے “