ذریعہ تعلیم اردو؟
ایکمعاصر کی خبر کے مطابق حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ملک کے تمام سرکاری سکولوں میں ایک ہی نوعیت کاذریعہ تعلیم ہوگا اور یہ قومی زبان اردو ہوگا، اس وقت ملک کے سرکاری سکولوں میں بھی امتیازی سلسلہ چل رہا ہے کسی علاقے، شہر یا صوبے میں ذریعہ تعلیم انگریزی، مقامی اور اردو بھی ہے، اور اس طرح نصاب میں بھی یکسانیت نہیں۔ جہاں تک پنجاب کاتعلق ہے تو یہاں کے تمام سرکاری سکولوں میں یکساں نصاب اور ذریعہ تعلیم اردو ہوتا تھا پھر یوں ہوا کہ حکومتیں بدلیں تو نظریئے بھی بدلے اور ذریعہ تعلیم کے لئے انگریزی کو بھی ترجیح دی گئی یہ فیصلہ کر دیا گیا کہ انگریزی بھی پہلی جماعت سے پڑھائی جائے گی۔ ایک وقت آیا کہ یہ کام نہ چلا تو پھر سکول تقسیم کر دیئے گئے دوسرے معنوں میں انگلش میڈیم اور اردو میڈیم سکول ہو گئے اور یہ والدین کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ بچے کو کس سکول میں داخل کراتے ہیں زیادہ رجحان انگلش میڈیم کا تھا اور یہی رجحان نجی سکولوں میں بھی آیا اور ہرنجی سکول انگلش میڈیم ہے۔
حکومت نے جو فیصلہ کیا وہ سرکاری سکولوں کے حوالے سے ہے کہ اسی پر جلد عمل ہو سکتا ہے۔ خبر میں یہ بتایا گیا ہے کہ تعلیمی نصاب پر غور ہو رہا ہے اور جلد ہی نصاب ترتیب دے کر منظور کر لیا جائے گا اور یکم اپریل 2015 سے شروع ہونے والے سیشن سے عمل درآمد ہوگا۔ ہم خبر کی صحت پر شبہ کئے بغیر گزارش کرتے ہیں کہ بدقسمتی سے ہمارے ماہرین تعلیم کی بہترین کاوشوں اور تمام تر مخلصانہ تجاویز اور سفارشات کے باوجود ابھی تک ملک کے لئے یکساں نصاب ہی ترتیب نہیں پا سکا اور نہ ہی ذریعہ تعلیم کے حوالے سے کوئی فیصلہ ہو سکا پاکستان میں کئی قسم کے نصاب رائج ہیں۔ یہاں مشنری سکولوں، نجی تعلیمی اداروں اور معروف قدیمی درس گاہوں کے ساتھ ساتھ سرکاری تعلیمی اداروں کے نصاب ہی نہیں سہولتیں اور ذریعہ تعلیم بھی الگ الگ ہے۔ یہ بہت بڑی کمزوری ہے اور مخصوص مفادات کا حامل طبقہ اس سلسلے میں یکسانیت پیدا ہی نہیں کرنے دیتا کہ ان کے لئے ان کی اولاد کے لئے تعلیم اور تعلیمی ادارے مختلف ہیں زیادہ فیسوں کی وجہ سے جن میں داخلے کے لئے عام آدمی تصور نہیں کر سکتا یہاں ایک سے زیادہ بار قومی نصاب اور قومی ذریعہ تعلیم کے لئے کوشش کی گئی لیکن کوئی سنجیدہ تحریک نہ بن سکی۔ اللہ کرے یہ خبر درست ہو اور اس پر عمل بھی ہو جائے تو شایدقدم قومی تعلیم کی طرف بڑھ جائیں۔
