پشاور کے ڈرائیور کو نیشنل ہیلتھ کارڈ کی تلاش

پشاور کے ڈرائیور کو نیشنل ہیلتھ کارڈ کی تلاش
 پشاور کے ڈرائیور کو نیشنل ہیلتھ کارڈ کی تلاش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

منزل کی تلاش ہو تو ڈرائیور اور کھوجی کے طریقِ کار میں بہت کم فرق ہوتا ہے ۔یہ رائے ہم اپنے تجربے کی بنیاد پر دے رہے ہیں۔ زمان�ۂ طالب علمی سے لے کر کئی عشروں کے صحافتی تجربے کے دوران جب بھی کسی اجنبی گلی محلے یا کسی ناواقف شہر میں رکشہ یا ٹیکسی ڈرائیور کو اپنی مشکل بیان کی کہ ہمیں مکمل ایڈریس معلوم نہیں، لیکن ڈرائیور بھائی صاحب، آپ ہمیں فلاں مقام یا شخصیت تک پہنچا دیں تو ڈرائیور بھائی صاحب نے ہزار جتن کر کے بالآخر ہمیں منزلِ مقصود تک پہنچا کر دم لیا۔ اِس تجربے کے حوالے سے جب ہمیں پشاور کے ٹیکسی ڈرائیور نصرت خان کا خط ملا تو حیرت ہوئی کہ آخر نصرت خان کون سے جادوئی چراغ کی تلاش میں ہے، جو اُسے مل نہیں سکا اور لاہور میں ہم سے رابطہ کیا گیا۔ قارئین کرام حیران نہ ہوں، ہم بتا دیتے ہیں کہ ٹیکسی ڈرائیور نصرت خان کو نیشنل ہیلتھ کارڈ کی تلاش ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے اِس بھائی کو وزیراعظم نواز شریف کی تلاش ہے۔


اس سے پہلے ہم قارئین کو یہ بتائیں کہ ٹیکسی ڈرائیور نصرت خان، وزیراعظم نواز شریف کو کیوں تلاش کر رہا ہے، بہتر ہو گا کہ نصرت خان کے بارے میں کچھ تفصیلات رقم کر دی جائیں۔ نصرت خان ضلع پشاور کے گاؤں خزانہ پایان کا رہنے والا ہے۔ وہ ٹیکسی چلاتا ہے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور کی آمدن رکشہ ڈرائیور سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر سروے کیا جائے تو50 فیصد ٹیکسی ڈرائیوروں کی آمدن رکشہ ڈرائیوروں سے کم ہوتی ہے۔ شاید اِسی حقیقت کے پیشِ نظر نصرت خان خود کو غریب ٹیکسی ڈرائیور کہتا ہے۔ اپنے خط کے آخر میں نصرت خان نے دستخط بھی کئے ہیں۔(نصرت خان نے خط کمپیوٹر پر کمپوز کروا کر بھیجا ہے) دستخط دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ معمولی پڑھا لکھا ہے، لیکن خط کا متن پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ نصرت خان نے چاہے کسی کی منت سماجت کر کے لکھوایا لیکن نصرت خان کا ذہن خاصا زرخیز ہے۔ اُس نے اپنے بارے میں ہی نہیں، اپنے حالات سے متعلق بھی صاف گوئی اور اختصار سے کام لیا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ ٹیکسی چلانا اُس کا پیشہ ہے، کبھی مزدوری اچھی مل جاتی ہے، اکثر اوقات وہ خالی ہاتھ گھر لوٹتا ہے۔وہ خود بیمار ہے، لیکن اُسے اپنی بیوی کی فکر ہے، جو دِل کی مریضہ ہے۔ پہلے حکیم اور پھر ڈاکٹر سے علاج شروع کیا۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے ڈاکٹر عدنان محمود گل ماہر امراضِ قلب ہیں۔ ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے انہوں نے نصرت خان کی بیوی بارے یہ تحریری رائے دی ہے کہ اُس کے دِل کے والو بند ہیں اور انجیو پلاسٹی کروائی جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتایا ہے کہ پرائیویٹ ہسپتال میں ساڑھے تین لاکھ روپے سے زیادہ اخراجات ہوں گے۔ اگر لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ہی انجیو پلاسٹی کرائیں گے تو دو لاکھ روپے اور چھ بوتل خون کا فوری بندوبست کرنا ہوگا۔


نصرت خان کے پاس چند ہزار سے زیادہ رقم نہیں، دو لاکھ روپے کہاں سے لائے؟اس نے زکوٰۃ فنڈ اور بیت المال والوں سے مدد چاہی، مگر مدد تو خیر دُور کی بات ہے، اُسے جھوٹی تسلی بھی نہیں دی گئی۔ وہ اپنے کئی رجسٹرڈ خطوط کے جواب کا منتظر رہا۔ علاقے کے اراکین اسمبلی سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش ناکام رہی کہ یہ لوگ الیکشن کے موسم ہی میں دکھائی دیتے ہیں۔ لوگوں کے رویے سے نصرت خان اِس قدر دلبرداشتہ ہے کہ اُس نے دُکھی دِل اور مایوسی کے عالم میں جو ’’ریمارکس‘‘ دیئے ہیں وہ کچھ یوں ہیں ’’مَیں اپنی بیوی کے علاج کے لئے اپنے علاقے کے ایم این ایز اور ایم پی ایز سے ملنے بار بار اُن کے محلات کی زنجیر ہلانے کی حماقت کرتا رہا، مگر وہاں سے ’’عدل جہانگیری‘‘ کی توقع پوری نہیں ہوئی۔ یہ لوگ (ارکان اسمبلی) ویسے تو بہت مصروف بتائے جاتے ہیں، لیکن جب کوئی حادثہ، بم دھماکہ یا سانحہ ہو جاتا ہے تو ایک دم پتہ نہیں کہاں سے نمودار ہو جاتے ہیں۔ اُنہیں لوگوں کے دُکھ درد اور غم کا احساس نہیں ہوتا، بلکہ اپنی تصویریں بنوانے کا شوق ہوتا ہے۔ اگلے روز اخبارات میں اپنی تصویر دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتے ہیں‘‘۔


نصرت خان بہت دُکھی ہے، اُس نے سیاسی لیڈروں کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے ’’مَیں ایک بات یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ووٹ لے کر رکن اسمبلی یا وزیر بننے کے بعد یہ لوگ میرے جیسے غریبوں کو بھول جاتے ہیں۔ اسلام آباد جا کر تو یہ لوگ اور بھی سنگ دِل ہو جاتے ہیں۔ اُن کے رویئے سے حساس، غریب اور بے بس لوگ کڑھتے رہنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے‘‘۔ سیاست دانوں کے علاوہ نصرت خان نے کالم نگاروں کے بارے میں بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، جو کافی دلچسپ ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ آپ اِن سیاست دانوں کے بارے میں بہت لکھتے رہتے ہیں۔ میری بیوی بستر مرگ پر ہے۔ خدارا! کچھ اس کے بارے میں بھی لکھیں۔ ویسے آپ کالم نگار حضرات بھی کسی گریڈ 22 کے آفیسر سے کم نہیں ہیں۔ بغیر سفارش کے کوئی خط اپنے کالم میں شامل نہیں کرتے۔ کچھ خدا کا خوف کریں۔ آخرت کے لئے بھی کچھ کریں اور ہم غریبوں کی ڈھیروں دعائیں لیں‘‘۔

قارئین کرام! نصرت خان کی ذہنی پریشانی سے انکار نہیں کیا جا سکتا، مگر اُس کی سوچ کی گہرائی اور اُس کے مثبت ہونے میں بھی کوئی شک نہیں۔ وہ سخت ٹینشن، ڈیپریشن اور بے بسی کے عالم میں بھی اپنے دِلی جذبات کا اظہار (قدرت کی طرف سے مدد کی آس اور اُمید کے ساتھ) بہت بہتر طریقے سے کر سکتا ہے اس نے سیاست دانوں اور کالم نگاروں کے بارے میں جس صاف گوئی سے کام لیا، وہ قابل توجہ ہے۔ کالم نگاروں کو بائیسویں گریڈ کے افسر کہہ کر نصرت خان نے جس بھرپور طنز کا سہارا لیا، وہیں اُس نے پیشہ صحافت کی عظمت کا حوالہ دے کر کالم نگاروں کو غریبوں کی دُعائیں لینے اور آخرت اور غریبوں کا اپنے کالموں میں ذکر کر کے صراط مستقیم پر چلنے کا اشارہ کیا ہے۔ نصرت خان کے اس تاثر پر کہ ہم کالم نگار خود کو کسی گریڈ بائیس کے آفیسر سے کم نہیں سمجھتے (یہ ان کالم نگاروں کی توہین ہے، جو واقعی خود کو صدر اور وزیراعظم یا گورنر اور وزیراعلیٰ سے بڑی ’’شے‘‘ سمجھتے ہیں) اور سفارش کے بغیر بھی کوئی خط کالم میں شامل کر لیا کریں۔۔۔‘‘ سچی بات ہے، بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہونا پڑا۔


اب ہم یہ بتا دیتے ہیں کہ غریب ٹیکسی ڈرائیور نصرت خان کو کسی سیانے یا ڈاکٹر عدنان محمود گل نے بتایا ہوگا کہ وہ ’’نیشنل ہیلتھ کارڈ‘‘ حاصل کر لے تو اُس کی بیوی کے دِل کا آپریشن مفت ہو سکتا ہے۔ حیرت اِس بات پر ہے کہ جن لوگوں نے اُسے ’’نیشنل ہیلتھ کارڈ‘‘ حاصل کرنے کا مشورہ دیا، وہ یہ نہیں بتا سکے کہ کارڈ کہاں سے اور کیسے مل سکتا ہے۔ نصرت خان نے ہم سے مدد چاہی ہے تو اے ہمارے پیارے بھائی! یہ ’’کارڈ‘‘ وزیراعظم نوازشریف نے سال رواں کے آغاز میں متعارف کروایا تھا۔ اخبارات میں ہاتھ ہلاتے اور مسکراتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف کی تصویر کے ساتھ مفت علاج کے اِس ’’گارنٹی کارڈ‘‘ کی تفصیلات بھی اشتہارات میں موجود تھیں۔ آپ وہ تفصیلات معلوم کرنا چاہیں تو پشاور کی سنٹرل لائبریری میں جا کر کسی بھی قومی اخبار کی چند ماہ قبل کی فائلیں نکلوائیں۔ ان کی ورق گردانی کریں گے تو آپ کو وزیراعظم نواز شریف کی بڑی بڑی تصویریں اور نیشنل ہیلتھ کارڈ کا عکس بھی دکھائی دے گا جی ہاں وہی کارڈ جسے آپ امریکن گرین کارڈ سے بھی زیادہ اہم قرار دیتے ہیں۔اس کے علاوہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال جا کر ڈاکٹرعدنان گل سے کارڈ بنوانے کا طریقہ معلوم کرلیں۔


نیشنل ہیلتھ کارڈ کے حصول میں پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے نصرت خان نے لکھا ہے کہ کارڈ اراکین اسمبلی او رپارٹی عہدیدار اپنے رشتہ داروں،چہیتوں اور گھریلو ملازمین میں تقسیم کر دیتے ہیں، مجھ ایسے غریب ٹیکسی ڈرائیور کو نہیں ملتا۔ ایک مشورہ ہم نصرت خان کو قسمت آزمائی کا دیتے ہیں وہ ایک خط وزیراعظم نواز شریف اور محترمہ مریم نواز کو ’’پرائم منسٹر ہاؤس، اسلام آباد‘‘ کے ایڈریس پر بھجوائیں اور ایک خط اپنے صوبے کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو بھی بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک روانہ کریں۔ دیکھیں، سب سے پہلے کون آپ کو جواب دیتا ہے۔ اس کو آپ قسمت آزمائی سمجھیں، زیادہ سنجیدہ نہ ہوں۔

مقدر جاگ اٹھا، قسمت نے ساتھ دیا یعنی قدرت مہربان ہوئی تو آپ کا کام معجزانہ طورپرہو جائے گا۔اللہ ان حکمرانوں کو توفیق دے کہ وہ آپ کے ایڈریس، ٹیکسی ڈرائیور نصرت خان ولد عباس خان مرحوم۔ ڈاک خانہ خزانہ پایان گاؤں خزانہ، تحصیل و ضلع پشاور، فون نمبر 0308-5320404 پر رابطہ کر کے آپ کی بیوی کے علاج کو یقینی بنائیں۔ (آمین)

مزید :

کالم -