جناب ایس ۔ ایم ظفر ایلاف کلب میں
جناب ایس ۔ ایم ۔ ظفر ایلاف کلب میں مہمان خصوصی تھے،چوٹی کے ماہر قانون و آئینی امور،مصلح قوم اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے سرگرم شخصیت کے طور پر ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا گیا کہ وہ ایک سچے کھرے اور انسانیت کا درد رکھنے والے انسان ہیں، جس وجہ سے اپنے نظریات اور سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ہر مکتب فکر اور ہر طرح کے حلقوں میں ان کو یکساں عزت و احترام حاصل ہے۔ ان کا شکریہ ادا کیا گیا کہ وہ اتنے بڑے وکیل ہونے کے باوجود اپنا قیمتی وقت نکال کر اس مجلس میں مہمان مقرر کی حیثیت سے تشریف لائے۔ایس ایم ظفر نے وضاحت کی کہ وکیل کی حیثیت سے ان کی فیس کے متعلق پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ وہ دو سال قبل اپنی صحت کی وجہ سے وکالت چھوڑ چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کے متنازعہ شخصیت نہ بننے اور زمانے کے طعن و تشنیع سے محفوظ رہنے کا راز یہ ہے کہ انہوں نے کبھی شخصیات کے متعلق بات نہیں کی۔ ہمیشہ ایشوز پر بات کی ہے۔ قانونی، آئینی اور انسانی اقدار کے لحاظ سے جس بات کو درست سمجھا وہ کردی ، تکرار اور اصرار سے اجتناب کیا۔ اس طرح انسان ضمیر کے مطابق سچ بات کہنے کے باوجود دوسروں کے کینے اور بغض سے محفوظ رہتا ہے۔
ایلاف کلب کی طرف سے اٹھائے گئے اس سوال پر کہ آخر عدلیہ سے لوگوں کو انصاف کیوں نہیں ملتا، اور وکلاء کس حد تک انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟ایس ایم ظفر نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے موجودہ حالات میں بات عدلیہ یا وکلاء سے بھی بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ یہ درست ہے کہ نظام عدل کی گاڑی کے دو پہئے ۔۔۔ وکلاء اور جج صاحبان ۔ اچھے وکیل اپنی زیادہ فیس کی وجہ سے چھوٹے مقدمات نہیں لیتے، ان تک عام آدمی کی رسائی نہیں ہے،جہاں جہاں سرمایہ دارانہ نظام ہے، وہاں ہر جگہ یہی صورت حال ہے۔ یہ ضرور ہے کہ وکلاء اپنا ٹیکس اداکرتے ہیں ،لیکن اچھے وکلاء کے سامنے مقدمات میں سچے لوگ بھی جھوٹے بن جاتے ہیں، تاہم اس سلسلے میں وکلاء یہ کرسکتے ہیں کہ جہاں بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ہو، وہاں وہ اپنی فیس نہ لیں۔ اس سے وکلاء کی عزت اور شہرت میں بھی اضافہ ہوتا ہے ، قومی معاملات یا بنیادی انسانی حقوق کے سلسلے میں مفت مقدمات لڑنے سے وکلاء کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اکثر وکلاء تنظیموں کی طرف سے بنیادی انسانی حقوق کے سلسلے میں قانونی اعانت کے لئے کمیٹیاں بنا دی جاتی ہیں جو اس سلسلے میں مفت قانونی اعانت فراہم کرتی ہیں۔ بیرونی ممالک میں توہر وکلاء تنظیم کی طرف سے بنیادی انسانی حقوق کی کمیٹی مقرر کی جاتی ہے جو ہمیشہ فعال رہتی ہے، تاہم ہمارے ہاں بھی جج حضرات اکثر ایسے معاملات میں وکلاء کی معاونت حاصل کرلیتے ہیں ۔ اس طرح غریب موکل کو بھی اس کے خیرات ہونے کا تاثر نہیں ملتا۔
بات یہ ہے کہ قانون اور آئین ہی ہر معاملے میں آپ کی مدد نہیں کرسکتا۔ معاشرتی برائیوں اور کمزوریوں کے خلاف عوام میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انصاف اور معقولیت پسند لوگ اکثریت میں ہوجائیں تو اقلیتی دھاندلی باز اور کرپشن والے از خود درست ہوجائیں گے۔ایسے لوگ بھی ہیں ،جنہوں نے عوامی خدمت اور اصلاح و فلاح کے لئے اپنا سب کچھ وقف کردیا۔ عبدالستار ایدھی اور حکیم محمد سعید کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ یہ دراصل انسان کے اندر کا ضمیر ہے جو اسے بھلائی اور نیکی پر مجبور کرتا ہے۔ مغرب میں تو بہت سی ایکٹریسیں بھی ایسی ہوئی ہیں جنہوں نے اپنی کروڑوں ڈالر کی رقوم قومی فلاح کے لئے وقف کردیں۔ اس موقع پر بریگیڈئیر ریاض حیدر نے سوال اٹھایا کہ ہمارے ہاں جرائم کی سزا کا تصور غلط ہے۔ ایک ہی نوعیت کے جرم کی مختلف سزا دی جاتی ہے۔
جج حضرات کی طرف سے کئے جانے والے اکثر مقدمات نامکمل ہوتے ہیں ۔ اگر ایک غریب عورت کی جائیداد پر کئے جانے والے مقدمے کے سلسلے میں اس بے چاری کی بیس سال تک خواری کے بعد فیصلہ اس کے حق میں سنایا جاتا ہے تو اس کے باوجود اسے قبضہ نہیں ملتا اور خواری کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔ عدالت کو فیصلہ اتنا جامع کرنا چاہئے کہ مظلوم عورت کی زمین کا قبضہ بھی اسے فوری طور پر دلایا جائے اورجن ظالموں نے اسے بیس سال تک ناجائز قبضہ کرکے خوار کیا، انصاف کا تقاضا پورا کرنے کے لئے انہیں بیس سال کی سزا بھی ملنی چاہئے۔
ایس ایم ظفر نے کہا کہ جج ہی مقدمے کی نوعیت کا تعین کرتا ہے۔ اسے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے صرف قانون کے اندر ہی نہیں رہنا چاہیے، بلکہ احسان بھی کرنا چاہئے۔ہر مقدمے کے سلسلے میں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ مظلوم کے ساتھ احسان کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ دراصل آپ نے تاخیر کے ڈسے ہوئے لوگوں کی بات کی ہے۔ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر انصاف کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جرائم کی سزاؤں میں اضافے سے بھی جرائم کی تعداد میں کمی نہیں ہوئی۔ عزت کے نام پر قتل کی سزا بڑھائی گئی، لیکن اس نوعیت کے جرائم مسلسل ہورہے ہیں۔ انصاف نہ ملنے کی بڑی وجہ ناقص تفتیش اور جھوٹے گواہ ہیں۔ نچلی سطح کی عدالتیں بھی کرپٹ ہیں۔ دہشت گردوں کے معاملات میں تو ڈر اور خوف کی وجہ سے نہ گواہ ملتے ہیں اور نہ ہی جج ان کو سزا دینے کا حوصلہ کرتے ہیں، ان کے مجرم ہونے کے باوجود بری ہوجانے کی مثالیں عام ہیں۔ ہمارے طریقہ کار کے برعکس مغرب میں ویڈیو پر گواہی لی جاتی ہے، جج اور گواہوں کے نام اخفا ء میں رکھے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ بڑے مقدمات مغربی ممالک میں جیوری سنتی ہے۔ تین ججوں میں سے کس نے کیا فیصلہ دیا، یہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا ۔تاخیر کی وجہ عام طور پر یہ بتائی جاتی ہے کہ ججوں کی تعداد کم ہے ۔ مَیں اس بات سے متفق نہیں ہوں۔ہمارے ہاں عوام کا مزاج یہ ہے کہ مقدمہ بنانے والا ایک کے بجائے دس مقدمات بناتا ہے۔ جن لوگوں کا کسی واردات میں کوئی دخل نہیں ہوتا، ان کے نام بھی دشمنی کی وجہ سے پرچے میں لکھواتا ہے۔ لوگ انصاف کے حصول کے لئے ہی نہیں، مقدمہ حق میں جیتنے کے لئے لڑتے ہیں۔ ضد بھی چلتی ہے۔
دراصل معاشرے کے لوگوں کا جیسا مزاج ہوگا کسی بھی سلسلے میں ویسے ہی نتائج برآمد ہوں گے۔ہمارے لیڈر بھی عوام سے ڈرتے ہیں اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی نہیں کرتے ۔ جہاں بھی بہتری پیدا ہوئی ہے، وہاں میڈیا ، سول سوسائٹی ، وکلاء ، اساتذہ اور سیاستدانوں سب نے مل کر کام کیا ہے۔ خلیفہ ضیاء الدین نے کہا کہ ہمارے قانون میں یہ سقم موجود ہے کہ جب تک کسی کے خلاف گواہی اور تفتیش وغیرہ سے ثابت نہ ہوجائے اسے بے گناہ ہی سمجھا جائے ،جبکہ یہ دونوں چیزیں ہمارے ہاں جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں۔ اس طرح اکثر گیارہ میں سے دس مجرم بچ جاتے ہیں۔ڈاکٹر مجاہد منصوری نے کہا کہ اگر چھوٹے مقدمات کا فیصلہ لوکل باڈیز کے سپرد کردیا جائے تو اس طرح عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم ہوسکتا ہے۔ ایس ایم ظفر نے کہاموبائل کورٹس صوبہ خیبر پختونخوامیں ناکام ہوچکی ہیں۔اگر گواہ پیش نہیں ہوگا تو موبائل عدالتیں بھی کیا کریں گی۔ایوب خان کے زمانے میں مقدمات کا فیصلہ جلد کرنے کے لئے جرگہ سٹم بنایا گیا تھا، لیکن وکلاء کو یہ نظام منظور نہیں تھا۔ دراصل ہمیں دوسرے ملکوں سے اپنا موازنہ نہیں کرنا چاہئے ۔ ہمیں اپنا نظام خود وضع کرنا ہے۔ خلیفہ ضیاء الدین نے کہا کہ ہمارے ہاں پراسیکیوشن انصاف کی راہ میں حائل ہے۔ ایس ایم ظفر نے کہا کہ اب ہمارے ہاں پراسیکیوشن کو بھی پولیس سے الگ کردیا گیا ہے، اس سے بھی فرق نہیں پڑا۔میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ جو لوگ بھی وکیل کے پاس آتے ہیں، وہ انصاف لینے نہیں ، مقدمہ اپنے حق میں جیتنے کے لئے آتے ہیں۔
جب انہیں کہا جائے کہ یہ مقدمہ نہیں بنتا، آپ کے پاس جو ہے اسی پر اکتفا کریں تو وہ کسی دوسرے وکیل کے پاس چلے جاتے ہیں۔اگر لوگوں میں خوف خدا نہیں ہوگا تو ان کو درست کرنے کا پھر یہی طریقہ ہے کہ ان کے لئے آپ سوسائٹی کا خوف لے کر آئیں ۔ حق اور انصاف پر لوگوں کو رکھنے کے لئے سوسائٹی کا دباؤ ڈالیں۔آپ دیکھیں کہ پانامہ لیکس نے پاکستان کے علاوہ بہت سے ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لیا، کسی جگہ بھی قانون اور عدالتوں نے کام نہیں کیا ، لوگ سڑکوں پر آئے اور عوامی دباؤ نے حکومتیں الٹ دیں۔ لندن میں بیٹھے ہوئے الطاف حسین کا بیان آگیا، پوری قوم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ، کچھ واقعات بھی ہوگئے۔ اس سلسلے میں بھی قانون اور عدالتوں سے کچھ نہیں ہوگا جو کچھ ہوگیا بہتر ہوا۔ہم ایک باشعور اور تعلیم یافتہ لوگوں کا معاشرہ نہیں۔ تاہم پاکستان کمزور نہیں ہے۔ پاکستان کی طاقت تاریخ بنارہی ہے۔ ہم تاریخ نہیں، لیکن تاریخ کسی نہ کسی طرح ہمیں بہتر بناتی چلی جارہی ہے۔ دراصل جو آہستہ بولتا ہے، اس کی دلیل میں عموماً زیادہ زور ہوتا ہے، لیکن جو باآواز بلند بولتا ہے، اس کے پاس اکثر کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ محمد عظیم صاحب نے پوچھا کہ کیا ہمارے ہاں یہ جمہوریت چلے گی۔ ایس ایم ظفر نے کہا کہ گفتار کے غازی بننے سے کام نہیں چلتا، میز پر بیٹھ کر اچھی باتیں ہوسکتی ہیں،مقدر نہیں سنور سکتے ۔ آپ کو اپنے پورے معاشرے کی تطہیر کرنا ہوگی۔ باکردار لوگوں کو آگے لائیں ، رسول اللہ کی زندگی سے سیکھیں کہ معاشرے کی تطہیر کس طرح ہوتی ہے۔ کردار بنانے کے لئے قربانی دینا ہوتی ہے۔ جب قائد اعظم کی وفات ہوئی، اس وقت تک قوم کی سیاسی ریاضت پوری نہیں ہوئی تھی۔ ہماری سیاست میں پہلے گھوڑے بکتے تھے ، اب پورے کے پورے اصطبل بک رہے ہیں۔آپ اگر صحیح ہیں تو یہ سوچیں کہ آپ تو ایک قطرہ ہیں ، قطرے کی سمندر میں کیا حیثیت ہے؟