جھنڈے خانی کا کلچر اور نیا پاکستان
امریکہ میں چونکا دینے والی باتوں میں سے ایک گھروں پر باوقار انداز میں لہراتے ہوئے امریکی جھنڈے بھی ہیں، جن کو دیکھ کر یہاں پہلی بار آنے والا کوئی بھی پاکستانی یہ گمان کرنے میں حق بجانب ہو گا کہ ان گھروں میں بڑے بڑے امریکی افسر، وزیر، جج یا جرنیل رہتے ہیں۔ لیکن یہاں ایسا نہیں ہے، امریکہ میں جھنڈا لہراناملک و قوم سے محبت کا اظہار ہے، اس لحاظ سے کوئی بھی شخص اپنے گھر پر امریکی جھنڈا لہراسکتا ہے، بلکہ چاہے تو اپنے جسم سے لپیٹ کر رقص بھی کرسکتا ہے، کیونکہ اپنے جذبات کا اظہار اس کا بنیادی حق ہے۔ شاید اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے پولینڈ کی نوجوان دوشیزہ ایوا زوبیک نے بھی گزشتہ دنوں پاکستان سے اپنی محبت کا بھرپور اظہار کرنے کی کوشش کی تھی، جسے ملک بھر میں بے حد سراہا گیا تھا۔ ہاں البتہ دفتر احتساب (نیب) کے سربراہ کو اس عمل میں قومی پرچم کی بے حرمتی محسوس ہوئی اور انہوں نے فوراً اس معاملے میں بھی اپنا تازیانہ استعمال کرنے کا اعلان کردیا، لیکن عوام الناس کو ان کی یہ سِنک ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے محتسب کے فتوے کو مسترد کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے ایوا کے حق میں اکثریت رائے سے فیصلہ دے دیا۔
بھلا ہو پی ٹی آئی کا بھی جس کے منشور کا ایک اہم نکتہ ملک میں سیاحت کا فروغ ہے کہ نیب سربراہ کی تشویش خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایوا زوبیک کے حق میں بیان دے دیا۔ ایوا کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ وہ آکسفورڈ میں زیر تعلیم رہ چکی ہیں، جہاں انہوں نے جرمن اور فرانسیسی زبانیں سیکھی تھیں۔ وہ برسلز میں یورپین پارلیمنٹ کے دفاتر میں کام کرچکی ہیں۔ گزشتہ چار سال سے وہ لندن میں میڈیا کے ذریعے فروغ سیاست کے لئے کام کرنے والی ایک کمپنی سے وابستہ تھیں۔ اس سال کے آغاز میں انہیں دنیا کے ملکوں کی سیر کا شوق چرایا اور انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے چوالیس ملکوں کا دورہ کرلیا۔ ان میں سے پاکستان انہیں بے حد پسند آیا، بلکہ بقول ان کے وہ پہلی نظر ہی میں پاکستان سے محبت کے جال میں گرفتار ہوگئیں، انہوں نے پاکستان کے قدرتی مناظر کے علاوہ پاکستانی قوم کی خوبیوں پربہت سی وڈیوز تیار کی ہیں، جن تک گوگل کے ذریعے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان وڈیوز کے ذریعے ایک نوجوان خوبصورت غیر ملکی خاتون نے کراچی سے کوہ ہمالیہ تک اکیلے بلاخوف و خطر گھوم کر دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ خوبصورت پاکستان محبتوں اور الفتوں کی سرزمین ہے اور پاکستان کا جھنڈا انہی الفتوں اور محبتوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
ایک زمانہ تھا جب امریکہ میں بھی برطانوی تاج کی حکمرانی تھی اور جھنڈے کے بارے میں ایسے ہی قوانین اور حرمت و بے حرمتی کے معیار تھے، جو تاج شاہی کو زیب دیتے تھے، لیکن جنگ کے ذریعے آزادی کے حصول کے بعد ڈھائی سو سال قبل جب آئین میں ترامیم کی گئیں تو سب سے پہلی مشہور زمانہ ترمیم میں آزادی اظہار کی مکمل ضمانت دی گئی۔ اس ترمیم کی بدولت امریکی جھنڈا بھی سرکاری گھمنڈ کے بجائے ملک و قوم سے محبت کا اظہار بن کر سامنے آیا اور اسے اپنے گھر پر لہرانا ہر شہری کا استحقاق بن گیا۔ انگریزوں سے آزادی تو ہم نے بھی حاصل کی، لیکن ملکہ برطانیہ کا متعارف کردہ وی آئی پی کلچر اب بھی ہمارے شاہانہ مزاج کا حصہ ہے، جسے بتانے کے لئے ہم دیگر عوامل کے علاوہ جھنڈے کو بھی استعمال کرتے ہیں، بھٹو صاحب نے جھنڈے کو وی آئی پی کلچر کے طور پر استعمال کئے جانے کا سختی سے نوٹس لیا تھا او بڑے بڑے افسرں اور صوبائی و قومی اسمبلی کے اراکین وغیرہ کی گاڑیوں سے جھنڈے اتروا دیئے تھے۔ لیکن وزیر، وزراء اور دیگر کا استحقاق ہونے کے باعث جھنڈے کے ذریعے جھنڈے خان بننے کی خوبو ختم نہ ہوئی۔
پاکستان میں بھٹو صاحب سے قبل تو بڑے بڑے ہوٹلوں وغیرہ میں لباس کا بھی وی آئی پی کلچر تھا اور شلوار قمیض وغیرہ پہن کر ان میں داخل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، لیکن بھٹو صاحب نے خود شلوار قمیض پہن کر ان ہوٹلوں کی وی آئی پی ثقافت مسمار کردی۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ پھنّے خانیّت کیونکہ ہمارے خمیر میں شامل ہے اور دولت یا رتبے کے لحاظ سے ہر برتراپنے سے کم ترکو مرعوب کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے، اس لئے جسے بھی جہاں موقع ملتا ہے، میز پر ہرا کپڑا پچھا کر یا پاکستان کا چھوٹا سا جھنڈا لگا کر یا گاڑی میں گول گول چمکدار طشتری لگا کر اپنا تعلق قانون سے بالاتر حکمران طبقے سے بتانے کی کوشش کرتا ہے۔
جھنڈا لہراتی گاڑیوں کے پیچھے عوام کے پیسوں سے خریدی گئی گاڑیوں کی ایک طویل قطار بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس پر آئے دن نکتہ چینی ہوتی ہے، لیکن کوئی نتیجہ اس لئے نہیں نکلتا کہ غیر منتخب حکمران طبقے میں وی آئی پی کلچر مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ ایک سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو نے جو اپنی خاندانی شرافت کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں اور جنہیں فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق لے کر آئے تھے، اس مزاج کودرست کرنے کی کوشش کی تھی اور اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ تمام بڑے بڑے افسروں کو بڑی بڑی لمبی لمبی درآمد شدہ گاڑیوں کی جگہ پاکستان میں بنی ہوئی چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے کی ہدایت کی تھی۔
جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود ان کی اپنی گاڑی کو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا، کفایت شعاری کی ایک مثال خود جنرل ضیاء الحق مرحوم نے بھی قائم کرنے کی کوشش کی تھی، جس پر لوگوں نے تالیاں بجائی تھیں، لیکن ان کا یہ اقدام پبلک کے چہروں پرمسکراہٹ لانے کے علاوہ اور کوئی نتائج مرتب نہ کر سکا۔ اُمید ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی جو وی آئی پی کلچر ختم کرنے کا عہد کرکے آئے ہیں،ان مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے کفایت شعاری کا عمل صرف اپنی ذات تک ہی محدود رکھنے کی کوشش کریں گے۔ ہماری خواہش ہے کہ اب جبکہ وہ باری انہیں مل گئی ہے جس کا وہ ایک عرصے سے میاں صاحب سے تقاضا کررہے تھے تو وہ بطور وزیر اعظم پانچ سال کی مدت پوری کریں اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ دیں کہ غیر سیاسی سربراہ تو چاہے جیسے بھی ہوں آٹھ آٹھ دس دس سال نکال لیتے ہیں، لیکن سیاسی سربراہ کو اپنی آئینی مدت بھی پوری کرنی مشکل ہوجاتی ہے۔
عدل و انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جن عوام اور خواص نے انہیں اقتدار تک پہنچانے کے لئے حد سے گزرنے سے بھی گریز نہیں کیا، انہیں کسی صورت ناراض نہ کیا جائے اور اُن کے بری بیٹروں کو جوں کا توں چلنے دیا جائے۔ ہاں البتہ خان صاحب یہ کام تو آسانی سے کرسکتے ہیں کہ ملک و قوم سے اظہار محبت کے لئے امریکہ کی طرح پاکستان میں بھی عوام کو اپنے گھروں پر جھنڈا لہرانے کا حق دلوا دیں، ان کے اس اقدام کے کئی فائدے ہوں گے،ایک تو یہ کہ ملک سے عوام کی محبت اُجاگر ہوگی، دوسرے یہ کہ جھنڈا خانی کا بطور وی آئی پی کلچر خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی اور تیسرے یہ کہ پشاور سے کراچی تک جھنڈوں سے سجا ہوا پاکستان بھی نیا نیا لگے گا۔