نیکٹا کے سیکیورٹی الرٹ اور وزیراعظم کی سادگی
خبر آئی ہے کہ نیکٹا نے وزیراعظم عمران خان کو چھٹی بار سیکیورٹی تھریٹ سے آگاہ کر دیا ہے۔ اِس سے پہلے یہ خبریں بھی آ چکی ہیں کہ بنی گالہ میں دہشت گردوں نے گھسنے کی کوشش کی،جسے ناکام بنا دیا گیا۔اُدھر وزیراعظم عمران خان اپنی اِس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ زیادہ سیکیورٹی نہیں لیں گے۔ وہ آج بھی خود کو صرف عمران خان سمجھ رہے ہیں،حالانکہ اب وہ وزیراعظم ہیں جو ایک ریاستی عہدہ ہے اور اس عہدے پر متمکن شخص کی حفاظت ملکی سلامتی کی طرح کی جاتی ہے، کیونکہ وہ اُس کی عزت اور اقتدارِ اعلیٰ کی علامت ہوتا ہے۔
نیکٹا کے حکام اور دیگر سیکیورٹی پر مامور اداروں کے افسران انہیں قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ وزیراعظم کے لئے ریڈ بُک میں جو معمول کی سیکیورٹی درج ہے، اُس کے مطابق سیکیورٹی ضرور لیں۔اُن کی کابینہ کے ارکان کو بھی چاہئے کہ وہ وزیراعظم پاکستان کو ملنے والی سیکیورٹی رکھنے پر عمران کو قائل کریں۔پروٹوکول اور سیکیورٹی میں بہت فرق ہوتا ہے۔چند روز پہلے جب وہ اپنے دفتر سے وزارتِ خارجہ کے دفتر گئے تو اُن کے ساتھ اپنی گاڑی سمیت صرف پانچ گاڑیاں تھیں۔ یہ بہت خطرناک بات ہے۔ آج کل کے زمانے میں جب راستے میں گاڑیوں کو ٹکرا کر یا بارودی خود کش مواد کے ذریعے نشانہ بنا کر مذموم عزائم پورے کئے جاتے ہیں،وزیراعظم کی حفاظت ضروری ہے۔ نیکٹا کے سیکیورٹی الرٹ معمولی بات نہیں۔ اندرونی و بیرونی عناصر تو پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے تاک میں ہیں، انہیں کوئی ایسا موقع نہیں ملنا چاہئے کہ وہ خدانخواستہ اپنے گھٹیا عزائم کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب رہیں۔
قوم جان چکی ہے کہ وزیراعظم عمران خان ایسے لاؤ لشکر کے قائل نہیں، جو جعلی کروفر کے لئے استعمال کئے جائیں۔اُن کے قافلے میں دو گاڑیاں چلتی ہیں اور دونوں پر قومی جھنڈا لگا ہوتا ہے،اس کا مقصد بھی اُن کی سیکیورٹی کو یقینی بنانا ہے تاکہ یہ پتہ نہ چلے وہ کس گاڑی میں سفر کر رہے ہیں، لیکن ان گاڑیوں کی حفاظت بھی تو ضروری ہے۔اِسی اسلام آباد تا راولپنڈی روٹ پر سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے قافلے کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔چلتی گاڑیوں میں ایک گاڑی کو داخل کر دینا کون سا مسئلہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان قوم کے منتخب رہنما ہیں اور پوری قوم کی امیدیں اُن سے وابستہ ہیں۔ نواز شریف کو احتساب عدالت تک لانے کے لئے آج بھی جتنی سیکیورٹی اور پروٹوکول ملتا ہے، منتخب وزیراعظم کو اُس سے آدھا بھی نہیں مل رہا، یا وہ لینا نہیں چاہتے۔یہ بات جتنی قابلِ ستائش ہے، اتنی یہ تشویشناک بھی ہے۔یہ کوئی یورپ کا پُرامن مُلک نہیں،بلکہ آج بھی دہشت گردی کا شکار ایک خطہ ہے۔
پھر اسی ملک میں دو وزرائے اعظم گولی کا نشانہ بن چکے ہیں۔بے نظیر بھٹو شہید اگرچہ شہادت کے وقت وزیراعظم نہیں تھیں، تاہم اُن کی اہمیت کسی وزیراعظم سے کم بھی نہیں تھی۔ معمول کی سیکیورٹی میں زیادہ گاڑیاں نہیں ہوتیں، زیادہ گاڑیاں اُس وقت ہوتی ہیں جب وزیراعظم کے ساتھی،وزراء اور مشیر بھی اپنی گاڑیاں اُن کے قافلے میں شامل کر دیتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں، وہ جہاں بھی جاتے ہیں، صرف اُن کا سیکرٹری یا ملٹری سیکرٹری اُن کے ساتھ ہوتا ہے،ایسے میں اگر پولیس، حساس ادارے اور بم ڈسپوزل سٹاف کی گاڑی اُن کے ساتھ چلے تو یہ معاملہ کسی پروٹوکول نہیں،بلکہ حفاظتی زمرے میں آئے گا، جو اشد ضروری ہے اور ملک کے سب سے بڑے انتظامی عہدے کی حفاظت بھی۔
تاہم اس کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی پر مامور محکموں کو اِس امر کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ وزیراعظم عمران خان کی خواہش کے پیشِ نظر اُن کی نقل و حرکت کو عوام کے لئے کس طرح کم سے کم مشکلات پیدا کرنے کا باعث بنایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان شاید اِس لئے بھی معمول کی سیکیورٹی لینے سے احتراز کر رہے ہیں کہ اُس سے عام آدمی کو سخت اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ کئی گھنٹے پہلے سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں اور متبادل راستوں پر بھی پہرے بٹھا دیئے جاتے ہیں۔ یہ ہٹو بچو کی صورتِ حال غالباً عمران خان نہیں چاہتے، اس کے لئے سیکیورٹی اداروں کو کوئی نیا لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے کہ شہریوں کو کم سے کم دشواری کا سامنا کرنا پڑے۔جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے وزیراعظم کے روٹ پر وقتی طور پر جیمر لگا کر موبائل سروسز بند کی جا سکتی ہیں۔ فاصلے کی مناسبت سے ٹریفک کو منظم کیا جا سکتا ہے۔بجائے دس میل دور تک سڑکیں بند کرنے کے وائرلیس کے ذریعے لمحہ بہ لمحہ آگاہی کے ساتھ راستے میں آنے والی ٹریفک کو روکا جاتا رہے تو صرف چند لمحوں کا انتظار کرنے کے بعد عوام کو اپنی معمول کی زندگی جاری رکھنے کی سہولت فراہم کی جا سکتی ہے۔
اسلام آباد کی تو خیر ہے کہ وہاں منظم ٹریفک چلتی ہے اور دفاتر جہاں کا وزیراعظم نے دورہ کرنا ہوتا ہے، قریب قریب ہیں، لیکن وہ جب لاہور، کراچی،ملتان، فیصل آباد، پشاور، کوئٹہ اور دیگر شہروں کے دورے پر جائیں گے تو اصل امتحان اُس وقت ہو گا۔ اب تو یہ دستور ہے کہ اگر وزیراعلیٰ یا وزیراعظم ملتان کے دورے پر آتے ہیں تو صبح ہی سے پورے شہر میں پولیس پھیلی نظر آتی ہے، پھر جگہ جگہ بیریئر رکھ دیئے جاتے ہیں۔ وزیراعظم کا طیارہ ابھی اسلام آباد سے اڑتا ہے کہ اُن کے روٹ کی سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں۔ اب ظاہر ہے ایسے اقدامات سے شہریوں کی زندگی کئی گھنٹے کے لئے رُک جاتی ہے۔یہ چیز اب شاید نہ چل سکے،اس کے لئے سیکیورٹی اداروں اور انتظامیہ کو بڑی سوچ بچار کے بعد ایسے فیصلے کرنا ہوں گے کہ وزیراعظم کا گذر بھی ہو جائے اور عوام گھنٹوں ذلیل بھی نہ ہوں،کیونکہ اگر ایسا ہوا اور ٹی وی چینلوں پر خبریں چلیں تو وزیراعظم عمران خان نے اسے نظریۂ ضرورت سمجھ کر قبول نہیں کرنا، بلکہ محض ناپسندیدگی کا اظہار کر کے پھر سیکیورٹی پر مامور اداروں کو مشکل میں ڈال دینا ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ اب کسی بھی عہدیدار کا پہلے جیسا کروفر نہیں چل سکتا۔ کل خبر چل رہی تھی کہ چیئرمین سینیٹ اور قائم مقام صدر صادق سنجرانی طبیعت خراب ہونے پر خود گاڑی چلا کر اسلام آباد کے ہسپتال پہنچ گئے۔بظاہر اس کی ستائش ہوئی،مگر مَیں یہ سمجھتا ہوں ہمارے حالات کا تقاضا ہے کہ احتیاط کی جائے۔اگر خدانخواستہ ریاست کے کسی بڑے عہدے پر متمکن کوئی شخصیت کسی ناخوشگوار واقعہ کا ہدف بنتی ہے تو دُنیا میں ہماری ساکھ کو بہت نقصان پہنچے گا۔پہلے ہی یہ تاثر موجود ہے کہ پاکستان سیاحوں کے لئے محفوظ ملک نہیں، کرکٹ ٹیمیں بھی اِسی لئے پاکستان میں کھیلنے کو تیار نہیں کہ یہاں امن و امان کی صورتِ حال بقول اُن کے مخدوش ہے۔ ایسے میں کوئی بڑا واقعہ ہمیں بہت نقصان پہنچا سکتا ہے۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین جو اُن کے سانس لینے پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ اُن کی نمازِ عید پر بھی اِس لئے تنقید کرتے ہیں کہ اُس کی ویڈیو کیوں سامنے نہیں آئی،پانچویں سے چھٹی گاڑی اُن کے قافلے میں شامل ہو جائے تو اس پر طنز کے نشتر برسانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ عمران خان اب ملک کے وزیراعظم ہیں،اُن کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے، کیونکہ اگر ملک میں وزیراعظم بھی محفوظ نہ رہ سکے تو عام آدمی کی حفاظت کون کرے گا۔
مَیں سمجھتا ہوں ہمیں اجتماعی طور پر یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ وزیراعظم عمران خان کو ملنے والے سیکیورٹی تھریٹ ملک کے لئے تشویشناک ہیں اور اِسی بات پر زور دینا چاہئے کہ عمران خان وزیراعظم کے لئے ریڈ بُک میں درج معمول کی سیکیورٹی سے انکار نہ کریں۔ پروٹوکول سے اُ ن کا انکار اچھا فیصلہ ہے،مگر اُن کی حفاظت کے لئے کئے جانے والے انتظامات پروٹوکول نہیں،بلکہ اشد ضرورت کے زمرے میں آتے ہیں۔امید کی جانی چاہئے کہ وزیراعظم عمران خان نیکٹا کے سیکیورٹی الرٹس کو اہمیت دیں گے اور سیکیورٹی سٹاف کو اپنا کام کرنے دیں گے تاکہ اُن کی زندگی کو خطرات لاحق نہ ہوں اور وہ ملک و قوم کے لئے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، کر جائیں۔