فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر503
یوں تو ہمارے ملک میں چار موسم ہوتے ہیں لیکن ان چار کے علاوہ ایک اور موسم بھی ہوتا ہے جسے فلمی ایوارڈز کا موسم کہنا چاہیے۔اﷲجنت نصیب کرے ’’نگار ‘‘کے مالک و مدیر الیاس رشیدی صاحب کو جنہوں نے پاکستان میں فلمی صنعت کی حوصلہ افزائی کے لیے نگار فلم ایوارڈز کا سلسلہ شروع کیا تھا۔اس کا ر خیر کا آغاز1957ء میں ہوا تھا۔وہ دن ہے اور آج کا دن۔نگار فلم ایوارڈز کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔
الیاس رشیدی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔لیکن ان کے صاحب زادے اسلم الیاس رشیدی ان کی اس روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں حالانکہ پچھلے سالوں میں انگریزی محاورے کے مطابق پلوں کے نیچے سے بے اندازہ پانی بہہ چکا ہے۔ اب نہ وہ فلم سازی رہی جو سال میں سوا سو کے لگ بھگ فلمیں بناتی تھی نہ وہ فلم ساز اور ہدایت کار رہے جن کے نام ہی فلموں کی خوب صورتی اور معیار کی ضمانت ہوتے تھے۔نہ وہ کہانی نویس ہیں مگر بھارتی میڈیا تو دم سادھے ہوئے بیٹھا ہی ہے مگر حیرت اس بات پر ہے کہ پاکستانی اخبارات و جرائد جو پاکستانی فلموں میں بھارتی فلموں کی چربہ سازی کا ڈھنڈورا ساری دنیا میں پیٹا کرتے تھے اور جن کی مہربانیوں سے بیرونی ملکوں میں پاکستانی فلموں کی مارکیٹ ہی ختم ہوکر رہ گئی ۔۔۔اب وہ بھی دم بخود چپ سادھے بیٹھے ہیں اور پاکستانی فلموں کی کہانیوں،گانوں اورنغموں کی بھارتی چوری کے خلاف ایک لفظ بھی قلم بند نہیں کرتے۔یہ اپنوں کی مہر بانیاں ہیں جنہوں نے ساری دنیا میں بھارتی فلم سازوں اور تقسیم کاروں کو یہ پراپیگنڈا کرنے کا موقع دیا تھا کہ پاکستان میں تو بھارتی فلموں کے چربے بنائے جاتے ہیں پھر کیوں نہ اصلی بھارتی فلم دیکھ لی جائے بجائے بھونڈا چربہ دیکھنے کے ۔اس پراپیگنڈے کا سحر اس قدر موثر تھا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی پاکستانی فلمیں دیکھنی ترک کر دی تھایں اور بھارتی فلموں پر ٹوٹے پڑتے تھے۔سند اور تصدیق کے طور پر خود ہمارے اخبارات و جرائد پیش کیے جاتے تھے جو آئے دن قریباً ہر پاکستانی فلم پر بھارت کا چربہ ہونے کا ٹھپا لگا دیتے تھے۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر502پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ سلسلہ 1960ء کی دہائی سے انگلستان اور یورپ میں جاری ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ اب امریکا اور ساری مغربی دنیا میں تھارتی فلموں کا ڈنکا بج رہا ہے اور وہ لاکھوں کروڑوں کا غیر ملکی زرمبادلہ حاصل کرتی ہیں۔خیر۔اب تو شکوہ شکایت کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی ہے کیونکہ گزشتہ بیس پچیس سالوں میں ہمارے ان پڑھ فلم سازوں اور ہدایت کاروں نے پاکستانی فلموں کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے اور یہ اس قدر غیر معیاری ہوتی ہیں کہ خود پاکستانی بھی انہیں دیکھنا پسند نہیں کرتے۔فلموں کی تعداد بھی گھٹ کر بیس پچیس سالانہ رہ گئی ہے جن میں اکثریت پنجابی ا ور پشتو فلموں کی ہوتی ہے ان کے معیا ر کے بارے میں سبھی جانتے ہیں لیکن پاکستانی فلمیں ہمیشہ سے ایسی نہ تھیں۔ایک زمانے میں یہ محدود وسائل کے باوجود بھارت کی بڑی سے بڑی فلموں کے ہم سر تھیں۔
خیر۔یہ ایک علیحدہ دکھ بھری داستان ہے۔پاکستان میں فلمی صنعت اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور جو گنتی کی فلمیں تیار ہوتی ہیں ان کی اکثریت کو کسی بھی معیا ر سے فلمیں کہنا ہی زیادتی ہے۔دنیا بھر میں سنیما اور فلم سازی آسمان کو چھو رہے ہیں لیکن ہمارے ملک میں فلمیں اب تو گلی بن کر رہ گئی ہیں۔معیار میں گراوٹ اور پستی تو ہر شعبے میں ہی کار فرما ہے لیکن فلمی صنعت کی حالت زار غالباً سب سے زیادہ خراب ہے اور اب تو اس پر آنسو بہانے والے بھی نہیں رہے۔ذکر ہو رہا تھا’’نگار‘‘ایوارڈ کا ۔بھارت میں انگریزی کا معروف فلمی جریدہ’’فلم فیئر‘‘ ہر سال فلم ایوارڈز تقسیم کرتا تھا جن کی بڑی اہمیت اور قدروقیمت تھی پھر بھارتی حکومت نے بھی سرکاری پیمانے پر قومی صدارتی ایوارڈز اور دوسرے کئی قسم کے اعزازات کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔اس کی دیکھا دیکھی پاکستان میں بھی پہلے صدارتی ایوارڈ اور پھر’’نیشنل فلم ایوارڈ‘‘کا اجرا کیا گیا لیکن سرکار نے یہ بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا۔سالہا سال کے بعد نیشنل ایوارڈز تقسیم ہوتے ہیں وہ اعزازکی جگہ شرمندگی اور ندامت کا ذریعہ ہیں۔یہ موازنہ کرنے کی ضرورت صرف یہ بتانے کیلئے پیش آئی کہ ایک تن تنہا،درویش صفت صحافی نے پاکستانی فلمی صنعت کی حوصلہ افزائی اور قدرومنزلت کی خاطرفلم ایوارڈز کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ آج بھی ہر سال بلا ناغہ تقسیم کیا جاتا ہے ۔جبکہ نیشنل ایوازڈز کی تقریب دیکھنے کو فلم والوں کی آنکھیں ترستی رہتی ہیں۔اگرچہ اب اس ایوارڈ کا معیار بھی بوجوہ پہلے جیسا نہیں رہا مگر یہ آج بھی اپنی جگہ بھاری ہے۔نگار فلم ایوارڈز کی کامیابی کو دیکھ کر دوسرے فلمی جرائد اور مختلف اداروں نے بھی فلم ایوارڈ تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا اور اسے پبلسٹی،پیسہ کمانے کا ذریعہ بنا لیا پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب ایک مخصوص عہد میں فلم ایوارڈز ریوڑیوں کی طرح تقسیم ہونے لگے تھے۔ان میں سے بہت سے کچھ عرصے وضع داری نبھانے کے بعد ختم ہوگئے تو ان کی جگہ دوسروں نے لے لی۔اب رفتہ رفتہ فلم ایوارڈز کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے ۔ظاہر ہے کہ جب فلمیں ہی کم اور انتہائی غیر معیاری بن رہی ہیں تو فلم ایوارڈز تقسیم کرنے کا کوئی سبب باقی نہیں رہ گیا۔فلم ایوارڈز کا تذکرہ کرتے ہوئے ہم یہ بھی بتا دیہ کہ ہماری فلمی صنعت میں کشادہ دلی اور عالی ظرفی ہمیشہ ایک کمیاب جنس رہی ہے۔پہلے بھی یہ ہوتا تھا کہ جس فنکاریا تخلیق کر کو ایوارڈ نہیں ملتا تھا وہ دھاندلی اور بے ایمانی کے الزامات عائد کر دیا کرتا تھا۔ایک زمانے میں یہ کام بھی کسی قدر و ضع داری اور رکھ رکھاؤ کے ساتھ کیا جاتا تھا۔فنکار عموماًاخباری بیانات جاری کرنے سے پرہیز کرتے تھے اور اپنی ناراضی اور نا پسندیدگی کا اظہار پرائیویٹ محفلوں میں شنا ساؤں کے سامنے ہی کیا کرتے تھے مگر رفتہ رفتہ فلموں کے ساتھ ساتھ فنکاروں اور انسانی قدروں اور ادب و آداب کا معیار بھی گرتا چلا گیا۔اب جسے ایوارڈ نہ ملے تو وہ کھلے عام الزامت عائد کرنے نہیں ہچکچاتا۔ہیروئن ایک دوسرے کے خلاف غلیظ اور بے ہودہ الزامات عائد کرنے سے بھی باز نہیں رہتیں۔
ایک بار جب نیشنل فلم ایوارڈز کی جیوری کے صد جاوید اقبال تھے اور جیوری نے اپنے معیار پر رکھنے کے بعد ایوارڈز کا اعلان کیا تھا تو انجمن جیسی پرانی اور تجربہ کار اداکارہ نے کھلے بندوں اخبارات کو یہ بیا ن دیا تھا ’’ مجھے معلوم ہے کہ فلاں ہیروئن کو ایوارڈ کیوں ملا ہے۔کیونکہ اس نے ججوں کا دل خوش کر دیا ہے جو میں نہیں کر سکتی‘‘اس قدر اخلاق و آداب سے گرا ہوا بیان اور وہ بھی صف اول کی اداکارہ کی زبان سے۔الامان و الحفیظ یہ تو محض ایک نمونہ ہے۔ایوارڈ سے محروم ہر شخص ایسے ہی الزامات عائد کرتا رہتا ہے۔خصوصاً فلمی ہیروئنوں کے بیانات سے تو سرشرم سے جھک جاتا ہے۔مگر شکایت کی گنجائش نہیں ہے۔اس معیار اور کردار کے لوگوں سے بہتر اخلاق کی کیوں کر توقع کی جا سکتی ہے۔کاروباری رقابتیں ہر زمانے اور ہر ملک میں کار فرما رہی ہیں لیکن اظہار و احتجاج کا ایک طریقہ ہوا کرتا تھا۔صبیحہ خانم اور مسرت نذیر کی باہمی رقابت کا یہ عالم تھا کہ وہ دونوں کبھی بیک وقت ایک ہی چھت کے نیچے اکٹھی نہیں ہوئیں۔ایک کے رخصت ہو جانے کے بعد دوسری کی آمد ہوتی تھی لیکن کبھی ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور زبان درازی کی نوبت نہیں آئی تھی۔
یہی عالم دوسری ہیروئنیں کا بھی تھا۔ایک وقت ایسا تھا جب پاکستان کی فلمی صنعت میں ممتاز ہیروئنوں اور ہیروز بہت بڑی تعدادمیں تھے۔ان کی فلمیں بھی معیاری ہوتی تھیں۔انہیں فلم بین پسند بھی کرتے تھے مگر ظاہر ہے کہ ’’نگار‘‘ایوارڈ تو ایک سال میں ایک ہی فنکار یا فنکارہ کو مل سکتا تھاپھر بھی اس قسم کے عامیانہ بیانات کبھی سننے میں نہیں آئے۔اس سے فلموں اور فلم سے وابستہ لوگوں کے معیار کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب فلم ایوارڈز کی کثرت ہو گئی۔بہتر کارکردگی کا کوئی پیمانہ نہیں رہا جس کی وجہ سے ہر فنکار کے حصے میں کوئی نہ کوئی ایوارڈ آجاتا تھا لیکن اب رفتہ رفتہ ایوارڈز کی تعداد میں کمی پیدا ہو رہی ہے۔اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ملک میں فلم اسٹار بہت کم ہوگئے ہیں۔ظاہر ہے کہ اس قسم کی تقریبات میں فلم اسٹاروں کے دم قدم سے ہی رونق ہوتی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ فلم اسٹاروں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے بہت سے فنکار پیشگی شرط لگا دیتے ہیں کہ مجھے ایوارڈ ضرور دیا جائے ورنہ پھر کوئی اور بندوبست کرلیں۔اب ظاہر ہے کہ ہر ایک کو تو ایوارڈدیا نہیں جاسکتا پھر بھی بعض ہوشیار ایوارڈز دینے والے مختلف بہانوں سے سبھی کو مختلف’’کارناموں‘‘کے حوالے سے ایوارڈ دے کر انہیں مطمئن کردیتے ہیں۔اس کے باوجود تقریب میں رونق نظر نہیں آتی۔بنیادی وجہ یہ ہے کہ پہلے تو فلمی فنکار محض فلموں میں ہی کام کرتے تھے۔اب وہ طائفے بنا کر بیرونی ملکوں کے دوروں پر نکل جاتے ہیں اس لیے دستیاب نہیں ہوتے۔ان وجوہات کی بنا پر اب ایوارڈ کی اقسام اور تقریبات میں کمی کا ایک اور سبب بن گیاہے۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)