اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 23
ایک اور بات میں آپ کو بارے میں بتاتا چلوں کہ جب سے میرا جسم موت کے جنگل سے آزاد ہوا تھا میں بھوک اور پیاس سے بھی بے نیاز ہوگیا تھا۔ نہ مجھے بھوک محسوس ہوتی تھی نہ پیاس لگتی تھی نہ مجھ پر تھکاوٹ طاری ہوتی تھی۔ نہ میری ناخن بڑھتے تھے اورنہ میرے بال بڑے ہوتے تھے مجھ پر کوئی بھی ایسی علامت باقی نہیں رہتی تھی جو میری عمر کے ارتقا کو ظاہر کرتی۔ گویا میں ایک جگہ آکر ٹھہر گیا تھا۔ میری عمر ایک مقام پر ساکت دی گئی تھی۔ میں جوان اور صحت مند تھا اور کئی برسوں سے ایسا ہی چلا آرہا تھا اور اس وقت بھی ویسا ہی ہوں جب کہ مجھے اس سرزمین پر زندہ رہتے ہوئے ساڑھے پانچ ہزار سال گزر چکے ہیں۔ مجھ پر نیند بھی طاری نہیں ہوتی تھی۔ ہاں میں اپنی مرضی سے کچھ بھی کھا پی سکتا تھا اور اگر دل چاہتا تو تھوڑی بہت نیند بھی کر لیتا تھا۔ آسمان پر ستاروں کی چمک ماند پڑنے لگی۔ پوپھٹ رہی تھی۔ رات ڈھل رہی تھی۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 22پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دور مشرقی آسمان پر سفید گلاب کے بڑے پھول ایسا ستارہ صبح صحرا کی دم توڑتی رات کے کافوری اندھیرے میں بھڑک بھڑک کر جھلملا رہا تھا۔ پھر مشرقی افق سے سورج کا سرخ تھال ابھرنے لگا۔ صحرا مین گلابی روشنی پھیل گئی اور ریت کے ذرے چمک اٹھے۔ دل کا اجالا ہوتے ہی ایک اور مشکل میرے سامنے آن کھڑی ہوئی تھی۔ میں کاہن اعظم8 کے ریشمی لبادے میں تھا۔ شہر کے لوگ میری شکل سے بھی شناسا تھے۔ میں پہچانا جا سکتا تھا۔ اگرچہ میں اس فکر سے آزاد تھا کہ میر اتعاقب کیا جا رہا ہوگا۔ کیونکہ ان سب کے لئے میں مرچکا تھا اور مجھے دفن بھر کر دیا گیا تھا لیکن اگر کوئی راہ گیر آتا جاتا مل گیا۔۔۔ یا پیچھے سے آنے والاکوئی قافلہ میرے قریب پہنچا تو ہو سکتا ہے میں پہچان لیا جاؤں۔ اس طرح سے میں ایک نئی مشکل میں پھنس کر اپنی محبوبہ روکاش سی اور دور ہوسکتا تھا۔ اس لئے میں چاہتا تھا کہ سب سے پہلے تو میں اپنا لباس تبدیل کر کے جس قدر جلد ہو سکے اپنا حلیہ بدل لوں اور پھر کہیں سے کوئی گھوڑا حاصل کرنے کی کوشش کروں تاکہ یہ لمبی مسافت جلدی طے ہوسکے۔
جس صحرائی راستے سے ہٹ کر ریت کے ٹیلوں کے عقب سے ہوتا ہوا میں چلا جا رہا تھا۔ وہ قافلوں کی شاہراہ تھی اور آگے یا پیچھے سے آتا ہوا کوئی بھی قافلہ مجھے مل سکتا تھا۔ جس سے میں ہر حالت میں بچنا چاہتا تھا۔ اس زمانے میں قافلے عام طور پر منہ اندھیرے سے سفر پر روانہ ہوا کرتے تھے اور منہ اندھیرے ہی اپنی منزل پر پہنچا کرتے تھے۔ البتہ مصر اور عرب کے صحراؤں میں شدت کی گرمی اور تپش کی وجہ سے قافلے راتوں کو سفر کرتے تھے۔ رات کو صحرا کی ریت شبنم سے ٹھنڈی تھی اور فضا کافی خنک تھی مگر سورج کے نکلتے ہی اکیدم صحرا کی ریت گرم ہوگئی۔ شبنم بھاپ بن کر اڑ گئی اور صحرا تیز دھوپ میں گرم ہو کر شیش محل کی طرح جگمگا اٹھا۔
مجھے چلتے چلتے آدھا دن گزر گیا۔ نہ مجھے صحرا کی قیامت خیز تپش تنگ کر رہی تھی اور نہ پیاس لگ رہی تھی۔ نہ ہی مجھے کسی قسم کی تھکاوٹ محسوس ہوئی تھی۔ میری رفتار ایک عام انسان کے چلنے کی رفتار تھی اور میں جلد سے جلد اپنی محبوبہ روکاش کے پاس پہنچنا چاہتا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر میں اسی طرح سفر کرتا رہا تو شاید ایک مہینے کے بعد منوچہر جھیل کے جنگل میں پہنچ سکوں۔ اگر میرے پاس گھوڑا یا اونٹ ہوتا تو میں یہ فاصلہ دو تین دنوں میں طے کر سکتا تھا۔
دھوپ اس قدر تیز ہوگئی تھی کہ اب کسی قافلے ک مل جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں اسی ادھیڑ بن میں جلا جا رہا تھاکہ مجھے سامنے کچھ فاصلے پر ایک انسانی ہیولہ صحرائی راستے کے کنارے کنارے اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ قریب آیا تو دیکھا کہ وہ ایک سپیراتھا جو پسینے میں شرابور سر پو تنکوں کا جھاج رکھے چلا آرہا تھا۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں اس کو اپنے کپڑے دے کر اس کے کپڑے پہن لوں۔ سپیرے نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا۔ مجھے یہی ڈر تھا کہ کہیں یہ مجھے پہچان نہ لے مگر اس نے مجھے نہیں پہچانا تھا۔ وہ شاید کسی دور دراز گاؤں کا رہنے والاتھا اور سانپوں کا تماشا دکھانے شہر جا رہا تھا۔
جب میں نے اس سے بات کی تو وہ بولا۔ تم مجھے کوئی امیر کبیر پجاری لگتے ہو۔ تم نے پجاریوں جیسے ریشمی کپڑے پہن رکھے ہیں۔ میں نے اسے کہا کہ وہ میرے کپڑے لے کراپنے کپڑے مجھے دے دے۔ پہلے تو وہ اسے مذاق سمجھا مگر جب میں نے بہت اصرار کیا تو وہ راضی ہوگیا۔ میری کپڑے قیمتی تھے اور وہ انہین بیچ کر پیسے کما سکتا تھا۔ ہم نے آپس میں لباس تبدیل کر لئے۔ وہ پجاری بن گیا اور میں سپیرا لیکن اس نے سانپوں کی پٹاری والا جھولا اپنے پاس ہی رکھا اور اس کی مجھے ضرورت بھی نہیں تھی۔ بین بھی اس کے پاس ہی رہی۔ اس نے مجھ سے بعد میں پوچھا کہ میں کہاں جا رہاہوں اور اپنا لباس میں نے کیوں تبدیل کیا ہے؟ میں نے اس سے کہا کہ میں ایک پجاری ہوں اور شہر میں میرا مکان بھی ہے مگر اب میں دیوتاؤں کی عبادت غریب آدمی بن کر کرنا چاہتا ہوں۔ میں دولت اور مندروں کے چکر سے نکل کر ایک فقیر بن کر صحراؤں مین اپنا ٹھکانہ بنانا چاہتا ہوں۔ وہ کچھ سمجھا کچھ نہ سمجھا۔ وہ تو بار بار میرے ریشمی لبادے کو دیکھ رہا تھا جو اس نے پہن رکھا تھا۔ پھر وہ چلا گیا۔
میں بھی سپیرے کے بھیس میں اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ میرے سر پر بڑا سا پگڑ بندھا تھا اور کمر میں کالی رسی لٹک رہی تھی۔ ایک نظر میں مجھے کوئی نہیں پہچان سکتا تھا۔ تپتے ہوئے صحرا میں میرا سفر جاری رہا۔ سپیرے نے ازراہ ہمدردی مجھے بتایا تھا کہ آگے راستے میں مجھے کوسوں دور تک پانی نہیں ملے گا اس لئے میں کسی قافلے کے ساتھ ہو لوں لیکن مجھے پانی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ میں سفرکرتا رہا۔ اسی طرح شام ہوگئی۔
سورج مغربی افق میں اتر گیا اور صحرا میں ایک بار پھر ٹھنڈ اتر آئی اور پھر آسمان ستاروں سے بھرگیا اور ان کی روشنی میں صحرا کی ریت کے ذرے چمکنے لگے۔ میں رکا نہیں چلتا گیا۔
اب ریت کے ٹیلے پیچھے رہ گئے تھے اور چھوٹی چھوٹی سنگلاخ ٹیکریوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ ککروندے اور آگ کی زہریلی جھاڑیاں اگی ہوئی مل جاتی تھیں۔ رفتہ رفتہ ریت بھی سخت ہوتی گئی۔ اس ریت کی سختی نے مجھے حوصلہ دیا کہ میں ٹھیک سمت کو سفر کر رہا ہوں۔ اب میں قافلوں کے راستے کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا تاکہ بھٹک جانے کا ذرا بھی امکان باقی نہ رہے۔ ویسے بھی میں اب سپیرے کے لباس میں تھا اور آسانی سے کوئی مجھے پہچان نہیں سکتا تھا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)