افغانستان کا امن،مذاکرات ہی سے ممکن ہے!
طالبان کے چیف امن مذاکرات کار ملا عبد الغنی برادرکی سربراہی میں افغان طالبان کے وفد نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان طالبان کے وفدکے ساتھ افغان امن عمل کو سبوتاڑ کرنے اور '' سپائلرز '' سے متعلق ممکنہ خطرات سے آگاہ کیااور انہیں باور کرا یا کہ پاکستان خطے میں امن و استحکام کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے انٹرا افغان مذاکرات کے جلد انعقاد کا متمنی ہے۔ افغان طالبان کے وفد نے اس موقع پر وزیر خارجہ کو طالبان اور امریکہ کے مابین طے پانے والے معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے تازہ ترین صورتحال سے بھی آگاہ کیا۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ سے اس موقف پر قائم ہے کہ کہ افغان مسئلے کا دیرپا اور مستقل حل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے، جس میں تمام فریقین کی شمولیت ضروری ہے۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان عمل امن میں اپنا مصالحانہ کردار ادا کرتا آیا ہے،اوراس کی کوششوں سے ہی 29 فروری کو دوحہ میں طالبان اورامریکا کے مابین امن معاہدہ عمل میں آیا۔ یہ اور بات کہ افغان حکومت کو یہ معاہدہ ایک آنکھ نہیں بھایا تھا کیونکہ ان کو طالبان کی خواہش کے مطابق اس عمل میں شامل نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی افغان حکومت کو دستخط کی تقریب میں مدعو کیا گیا۔
افغان طالبان کے وفد کی پاکستان آمدکا مقصد پاکستان کو افغان امن عمل کے حوالے سے تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرنا اور لوگوں کی آمد و رفت و تجارت میں سہولت جیسے پہلوؤں پر بات چیت کرنا تھا۔ پاکستان بھی دل سے افغان مسئلے کے پرامن حل کا حامی ہے، گو کہ پاک افغان تعلقات ہمیشہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔
24دسمبر 1979ء کو سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا، افغان مجاہدین 9سال سوویت فوجوں کا مقابلہ کرتے رہے، بالآخر15فروری1989ء میں اس جدو جہد کا اختتام ہوا۔ اس لشکر کشی کے بعد سوویت یونین بھی سنبھل نہ سکا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین نے جس طرح جہاد کیا اور جدید جنگی ہتھیاروں کا مقابلہ کیا، وہ تاریخ میں ہمیشہ امر رہے گا،لیکن اس کے بعد بھی افغانستان کی مشکلات کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ قبائلی سرداروں، گروہوں میں روس کے نکل جانے کے بعد افغانستان آگ و خون کا ایک ایسا میدان بن گیا، جس میں مارنے والا بھی اپنا تھا اور مرنے والا بھی۔11ستمبر2009ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد امریکہ نے القاعدہ کے خلاف اعلانیہ جنگ شروع کر دی۔ امریکہ اس سے قبل2001ء میں ہی افغانستان میں داخل ہو چکا تھا، وہاں 1996ء سے 2001ء تک طالبان اور شمالی اتحاد کے درمیان خانہ جنگی جاری رہی۔ اس کے بعد سے اب تک امریکہ افغانستان میں موجود ہے، اب امریکی افواج کی تعداد کم رہ گئی ہے، امریکہ و طالبان کے درمیان معاہدہ بھی طے پا چکا ہے لیکن خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان مخالف قوتوں نے افغانستان میں جنگ کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستان مخالف طالبان کو اکٹھا کر کے وسائل اسلحہ، انٹیلی جنس شیئرنگ فراہم کی۔ نائن الیون کے بعد ایک طرف افغانستان میں متحرک گروپ برسر پکار تھے تو دوسری جانب پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ انتہا پر پہنچ گیا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لگ بھگ80ہزار قیمتی جانوں کی قربانی دی،اربوں ڈالر کا مالی نقصان بھی اٹھایا۔اب خدا خدا کر کے پاکستان میں دہشت گردی کا جن کسی حد تک بوتل میں بند ہوا ہے۔
پاکستان بارہا اس عزم کا اظہار کر چکا ہے کہ خطے کا امن انٹرا افغان مذاکرات میں ہے، جب تک افغانستان میں موجود تمام سٹیک ہولڈرمل کر مذاکرات کی میز پرنہیں بیٹھتے افغانستان میں امن قائم ہونا ممکن نہیں ہے۔ ماضی میں جب بھی پاکستان نے افغان مسئلے کے حل کے لئے تمام فریقین کے مابین مذاکرات کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو امن دشمن قوتوں نے اس عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں تیز کر دیں۔افغان حکومت کا بھارت کی طرف جھکاؤ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، بھارت پاکستان میں دہشت گردی کے لئے افغان سرزمین استعمال کرتا رہا ہے جس کے ثبوت بھی افغان حکومت کو دئیے جا چکے ہیں۔ بھارت دوحہ معاہدے کو ناکام بنانے پر بھی تلا ہوا ہے۔ایسے میں افغان حکومت کا فرض ہے کہ وہ بھی امن عمل میں پوری دلچسپی لے کہ افغانستان میں امن کے لئے معاہدے پر عملدرآمد ازحد ضروری ہے۔ دوحہ میں طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے معاہدے اور اس کی شرائط پر من و عن عمل ضروری ہے،اس بات پر نظر رکھی جانی چاہئے کہ کوئی سپلائر گروپ اس امن عمل کو تباہ نہ کر سکے۔طویل عرصہ حالت جنگ میں رہنے کے بعد ایک بات تو واضح ہے کہ ہتھیار اور طاقت کے زور پر امن قائم نہیں کیا جا سکتا،تمام فریقین مل کرہی معاملات کو کسی امنطقی انجام تک پہنچا سکتے ہیں۔ افغانستان میں بھی عوامی امنگوں کی ترجمان جمہوری حکومت قائم ہونی چاہئے تاکہ افغان بھی سکون کا سانس لے سکیں۔