طلباء کا انوکھا امتحان؟
قوموں کی زندگی میں ہر طرح کے امتحان اور بحران آتے رہتے ہیں۔پاکستان میں بھی آج کل داخلی و خارجی طور پر بہت مشکل وقت آیا ہوا ہے۔ کورونا تو ایک عالمگیر مسئلہ ہے،لیکن کچھ دیگر مسائل بھی سرعام محو ِ رقص ہیں، خوش قسمتی مگر یہ ہے کہ مملکت ِ خدادادِ پاکستان کی باگ ڈور ایک ”کھلاڑی“ کے ہاتھ میں ہے،جس کے بارے میں سنتے آئے ہیں کہ وہ کسی حال میں بھی گھبرایا نہیں کرتا۔اگر سونا بھٹی میں سے گزر جائے تو کندن بن جاتا ہے!کوئی انقلابی شاعر کہہ گیا ہوا ہے کہ تندیئ بادِ مخالف سے عقاب گھبراتا نہیں۔ یہ تجھے اونچا اڑانے کے لئے چلتی ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ قدرت دُنیا کو شاید کسی کی ”پرواز“ دکھانا چاہتی ہے۔ اللہ کرے قوم کا یہ نیک گمان جلد ہی ایقان کی صورت میں پورا ہو۔
اِن خاص حالات میں جبکہ کورونا کے سبب آپ طالب علموں سے متعلق ایک اقدام اٹھانے پر مجبور ہوئے، میڈیکل اور انجینئرنگ کے طلبہ کو ایک بہترین حکمت عملی کے تحت ”پروموشن“ کا سفر طے کروایا، اسی طرح فوراً ایک اور انقلابی فیصلہ درکار ہے،معاملہ یوں ہے کہ ایڈمیشن کے پس منظر میں آن لائن سٹڈی جاری تو ہے،لیکن بالکل نہ ہونے کے برابر! ”قوم کا مستقل“ چڑچڑے پن کا شکار ہوتے جاتے ہیں،انہیں بلا سبب و ناامیدی نے آ لیا ہے کہ جانے کل کیا ہو گا؟ وہی جو درگت حال میں ہی ای کیٹ کے انٹری ٹیسٹ میں بن چکی ہے۔ ایک تمسخر، استہزاد اور ناکام ترین سٹارٹ!
اب جبکہ پروموشن کا مسئلہ خوش اسلوبی سے طے پا چکا تو ان کے انٹری ٹیسٹ کا اضافی پہاڑ آ کھڑا ہوا۔ چہ معنی دارد؟ ایک غیر مفید بوجھ جو معصوم بچوں پر لادا جا رہا ہے، جس کی لو سے پھول جیسے بچے دوچار، بلکہ بیمار دکھائی دیتے ہیں۔یہ انٹری ٹیسٹ کیاہیں؟ اور ان کی افادیت و اہمیت؟؟ سابقہ حکمرانوں کی من مانی ایک عجیب کہانی! مبادی لحاظ سے سرا سر غیر آئینی اور غیر قانونی بورڈز کے امتحانات کے بعد ایک ناپسندیدہ و غیر منطقی تجربہ! الغرض اسے مستقبل کے لئے بوجوہ ناگزیر فرض کر لیا جائے تو بھی اسے کم از کم کورونا کی روک تھام کی جدوجہد کے دوران منسوخ کر دیا جانا روا اور بجا ہے۔ آخر اس بارے میں کیونکر سوچا نہیں جا رہا،اور موجودہ آفت میں امسال اس سے نجات کیوں نہیں مل سکتی؟ دیکھا جانا چاہئے کہ اپنے ملک میں انٹری ٹیسٹ کا عذاب کب نازل ہوا تھا اور کیسے؟
اربابِ حل و عقد! آپ سے بہتر یہ کون جانتا ہو گا کہ نوکرشاہی کا مزاج ایک خاص سانچے میں ڈھلا ہوا ہے اور نفسیاتی جہت سے ان کا طرزِ عمل کیا ہے؟ بلاشبہ بیورو کریسی میں اچھے اور نیک نام افراد بھی موجود ہیں، تاہم اکثر و بیشتر مکھی پر مکھی مارنے کے قائل اور نقل در نقل پر مائل ہیں۔
یہ درست ہے کہ اس امر و عمل کی راہ میں چند، پیچیدگیاں بھی حائل ہیں،لیکن ایسا نہیں کہ ان اُلجھنوں کا کوئی حل موجود نہ ہو۔ اس مسئلے کا ایک سے ایک بہترین حل ڈھونڈ نکالا جا سکتا ہے۔یہ کون سا ایسا مرض ہے کہ جس کا علاج ہی ممکن نہیں۔ان حالات و واقعات کا لازمی تقاضا ہے کہ مقتدر حلقے اس پہلو پر بطورِ خاص اور فوری توجہ مبذول فرمائیں۔ عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد صاحب سے بھی استدعا اور التجا ہے کہ اپنی قوم کے بچوں کو ذہنی اذیت اور لامتناہی عذاب سے بچائیں۔ایک ذرا حق خود اختیاری کا استعمال! طلبہ کا بہت سا قیمتی وقت پہلے ہی کافی ضائع ہو چکا ہے، لہٰذا خدارا ان کا مزید قیمتی وقت برباد ہونے سے بچا لیجیے!