طالبان کی جاسوسی میں سنی ہوئی گفتگو(2)
ان تمام احمقانہ باتوں کے درمیان طالبان کا اصل جوہر بھی کھلتا تھا، جو کہ ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کی باتیں تھیں۔ شاید کسی خریدوفروخت کے دوران، کسی فلم کے سیٹ پر، کسی بند کمرے میں اتنی جوشیلی گفتگو نہیں ہوتی جتنی طالبان ہر جنگ سے پہلے، اس کے دوران اور اس کے بعد کرتے تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس کی مشق رکھتے تھے۔ اُن میں سے زیادہ تر کی تمام زندگی حالت ِ جنگ میں ہی گزری تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اُنہیں اپنے مشن کے تقدس پر یقین تھا۔ لیکن میں جتنا اُنہیں سنتا، اتنی ہی میری فہم گہری ہوتی جاتی۔ میں سمجھ گیا تھا کہ یہ حوصلہ افزائی اورہلا شیری جنگ جاری رکھنے کے لیے ہے۔ وگرنہ وہ ایسے دشمن کے خلاف جنگ کی ہمت کیسے کرتے جو افراد پر بم گرانے سے پہلے دوسری مرتبہ سوچنے کا روادار نہ ہو؟ وہ بم جوپوری عمارت کو تباہ کرنے کے لیے بنے تھے۔ یہ مبالغہ آرائی نہیں۔ اپنی بائیسویں سالگرہ سے چند دن پہلے میں نے جنگی طیاروں کو پانچ سوپاؤنڈ کے بم جنگ میں گراتے دیکھا۔ ان کی زد میں آنے والے بیس افراد گردو غبار میں تحلیل ہوگئے تھے۔ پھر میں ایک اور مقام پر پہنچا۔ وہاں افراد کی لاشوں کی بجائے گڑھے پڑے تھے۔ ہوا میں دھمک موجود تھی۔ میں نے سوچا کہ یہاں تو بہت سوں کو مار دیا گیا ہوگا۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔
جب دو مزید حملہ آور ہیلی کاپٹر آئے تو میں نے اُنہیں چلاتے ہوئے سنا، ”فائرنگ کرتے رہو۔ وہ واپس آجائیں گے۔“
جب ہم حملہ جاری رکھے ہوئے تھے، میں نے اُنہیں یہ بات دہراتے ہوئے سنا، ”دوست، ہم جیت رہے ہیں۔ کیا شان دار دن ہے!“ اور جب میں نے چھے امریکیوں کو مرتے ہوئے دیکھا تو مجھے لگا جیسے بیس طالبان نے پرجوش آواز میں میرے کانوں میں نعرہ لگایا ہو:
”اللہ اکبر، وہ مررہے ہیں!“
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ نہتے تھے، یا اُن کے ہاتھوں میں تیس سال پرانی بندوقیں تھیں، اور اُن کی جنگ جدید ترین طیاروں، گن شپ ہیلی کاپٹروں اور کہیں زیادہ جدید آلات رکھنے والی زمینی فوج سے تھی۔ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ اُن میں سے کئی سو روزانہ جاں بحق ہوجاتے تھے۔ تمام ترشور، بموں کے دھماکوں، گولیوں کی ترتڑاہٹ، زخمی اور جاں بحق ہونے والے طالبان کے درمیان اُن کے ساتھی ایک دوسرے کی ہمت بندھاتے رہتے۔ ایک دوسرے کا حوصلہ جوان رکھا۔ وہ تواتر سے ایک دوسرے کو باور کرارہے تھے کہ وہ نہ صرف جنگ جیت رہے ہیں بلکہ وہ ہمیں پہلے سے بھی بہتر مزہ چکھائیں گے۔
اور یہ افغانستان میں میرا پہلا مشن تھا۔
وقت گزرنے ساتھ ساتھ میں نے مختلف خفیہ الفاظ کے معنی اخذ کرنا بھی سیکھ لیا۔ میری سماعت کی مشق بھی بہتر ہوگئی۔ میں نے فائرنگ کے درمیان انسانی آوازوں کو سننا اور سمجھنا سیکھ لیا۔ اس مشق کے ساتھ اب میرے پاس طالبان کی باتیں سننے کے لیے بہت کچھ تھا۔
یہ 2011 ء کا موسم ِ بہار تھا۔ میں سپیشل فورسز کی ٹیم کے ساتھ ایک مشن پر تھاجو شمالی افغانستان کے ایک گاؤں میں حملے کی زد میں آئی تھی۔ ہمیں نگرانی کے لیے بھیجا گیا۔ یہ بات شاید متاثر کن دکھائی دے، لیکن عملی طور پر اس کا مطلب کئی گھنٹوں تک فضا میں بلندی پر اُڑنے والے طیاروں میں بیٹھ کر مقامی افراد کی باتیں سننا تھا۔ ہم اُنہیں دیکھتے اور سنتے رہے۔ اس دوران ہماری نظر کچھ آدمیوں پر پڑی جو ایک کھیت میں کام کرہے تھے۔ اس کھیت میں تازہ تازہ ہل چلایا گیا تھا۔ از کم ہمارا خیال تھا کہ وہ کاشت کاری کررہے ہیں۔ زمین پر موجود ٹیم کو یقین تھا کہ یہ وہی افراد ہیں جنہوں نے اُن پر حملہ کیا تھا، اور اب وہ کاشت کاری نہیں کررہے بلکہ کھیت میں ہتھیار چھپارہے ہیں۔
ہم نے اُنہیں نشانہ بنایا۔ کھیت میں موجود تین افراد میں سے ایک موقع پر ہی مارا گیا، ایک کی ٹانگیں دھماکے سے کٹ گئیں جب کہ تیسرا دھماکے کی شدت سے دس فٹ دور جا گرا۔ لگتا تھا کہ طاقت ور دھماکے کی لہر نے اُس کے اندرونی اعضا کو بے کار کردیا ہوگا اور وہ اب نہیں اُٹھ سکے گا۔ لیکن تھوڑ ی دیر بعد وہ اٹھا اور بھاگ نکلا۔ صرف یہی نہیں، وہ اپنے دوستوں کے ساتھ واپس آیا اور زخمی شخص، جس کی ٹانگیں کٹ گئی تھیں، کو ایک ریڑھی میں ڈالا اور قریب ہی انتظار کرتی ہوئی کار میں لے گئے۔ گراونڈ ٹیم کو تشویش تھی کہ اب وہ بھاری تعداد میں انتقام لینے کے لیے حملہ کریں گے، لیکن میں اُن کی آوازیں سن سکتا تھا۔ وہ جوابی کارروائی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔
”چلو، گاڑی چلاؤ۔ ہم آرہے ہیں۔ عبدل زخمی ہوا ہے۔ ہم اُسے کار میں ڈال کر لارہے ہیں۔“
”چلتے رہوتاکہ وہ ہمیں نشانہ نہ بنالیں!“
”ہم آرہے ہیں۔ ہم اُسے بچا لیں گے۔“
وہ اپنے دوست کو کسی ڈاکٹر، یا کسی ایسے شخص کے پاس لے کر جارہے تھے جو اُس کی جان بچاسکے۔ اور پھر کار کی رفتار آہستہ ہوگئی۔
”نہیں۔ بھائی، یہ جاں بحق ہوگیا ہے۔“
باقیوں کو ہم نے نشانہ نہیں بنایا کیوں کہ وہ خطرناک نہیں تھے۔
اپنی تعیناتی کے دوران میں نے بار ہا دیکھا کہ ہماری ہلاکتوں سے اُن کی ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔ وہ میدان میں شکست کھاتے، ہم جیت جاتے۔ ایسا تواتر کے ساتھ ہورہا تھا۔ بعض اوقات تو واقعات میں اتنی مماثلت ہوتی کہ احساس ہوتا کہ ہم یہ واقعہ تو پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔ لیکن شاید فوجیوں میں اس کا احساس بہت گہرا ہوتا ہے۔ جب آپ میدان جنگ میں تعینات ہوں، آپ کو وہی آدمی دکھائی دیں، ایک جیسا ہی معمول ہو، ایک جیسی سرگرمیاں، ایک دن دوسرے دن سے مختلف نہ ہو۔ لیکن یہ میرا محض تصور نہیں تھا۔ ہمارے مشن انتہائی مماثلت رکھتے تھے۔ ایک ہی جگہ، وہی گاؤں۔ انہی مقامات کو طالبان سے آزاد کرانا جنہیں ہم تین سال پہلے بھی آزاد کرچکے تھے۔ اور میں وہی بے سروپا باتیں سن رہا تھا۔ وہی حوصلہ بڑھانے والی گفتگو۔ وہی منصوبہ بندی، اکثر اوقات بولنے والا وہی ہوتا جسے میں پہلے بھی سن چکا تھا۔
ایک اور طویل مشن پر ہم گراؤنڈ ٹیم کی معاونت کررہے تھے۔ وہ ٹیم ایک چھوٹے سے گاؤں میں اس کے سردار سے بات چیت کرنے گئی تھی۔ اُنہوں نے قریب ہی ایک کنواں بھی کھودنا تھا۔ہم چند گھنٹوں تک اردگرد پرواز کرتے ہوئے اُن کی باتیں سنتے رہے لیکن کوئی بھی قابل ِ ذکر یا دلچسپ بات نہ ہوئی۔ زمین پر کوئی مشکوک سرگرمی نہیں تھی۔ کوئی بھی ریڈیو پر جنگجووں سے بات نہیں کررہا تھا۔ ملاقات کامیاب رہی۔ جب ہماری ٹیم واپس ہیلی کاپٹروں کی طرف بڑھی تو طالبان نے حملہ کردیا۔
”آگے بڑھو، وہ مشرقی کھائی میں گئے ہیں۔ وہ بھاگ رہے ہیں۔ آگے بڑھو!“
”بڑی گن لاؤ، اسے تیار رکھو۔ وہ جلد ہی حرکت کریں گے۔“
گراؤنڈ ٹیم بیٹھی انتظار کررہی تھی کہ ہیلی کاپٹروں کی پرواز کے لیے فضا محفوظ ہو۔
”گن شپ، وہ کہاں ہیں؟ وہ کیا کررہے ہیں۔۔۔آہ، مجھے گولی لگی ہے۔“
طالبان جانتے تھے کہ اُنہوں نے ٹیم لیڈر کو نشانہ بنالیا ہے۔ میں اس حقیقت سے واقف تھا۔ جب میں نے لیڈر کے کراہنے کی آواز سنی، اسی وقت میں نے طالبان کو جشن مناتے بھی سنا۔
”بھائی، تم نے اُسے مار لیا ہے۔ شاباش۔ فائرنگ کرتے رہو۔ ہم باقیوں کو بھی ماریں گے۔“
”ہاں۔ ایسا ہی ہوگا۔ یہ گن بہت اچھا کام کررہی ہے۔“
اور اچانک اُن کی جشن کی آوازیں تھم گئیں۔ میرے جہاز نے اُنہیں نشانہ بنایا تھا۔ یہ میری زندگی کا بدترین دن تھا۔ لیکن اس کی وجہ فائرنگ، چیخیں یا ہلاکتیں نہیں تھیں۔ اُس وقت تک میں ایسے بہت سے واقعات سے گزرچکا تھا۔ لیکن اُس روز مجھے آخر کار سمجھ آہی گئی کہ طالبان مجھے کیا بتانے کی کوشش کررہے تھے۔ (جاری ہے)