نامعلوم نمبر سے کال!
موبائل فون کی گھنٹی بجتی ہے ۔ سکرین پر لفظ Unknownلکھا ہوا نمودار ہوتا ہے ۔ سننے والا خوف و یاس سے لبریز آواز میں چھوٹا سا ہیلو کہتا ہے۔ دوسری جانب سے بھی لفظ ہیلو دہرایا جاتا ہے ۔ سننے والا چند لمحے توقف کرتا ہے ، ذہن پرزور ڈالتے ہوئے آواز کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہوئے قدرے ششدر لہجے میں پوچھتا ہے .....جی کون؟....مگر جواب میں کچھ دیر خاموشی رہتی ہے ، پوچھنے والی کی اپنی ہی آواز دور تک جاتی سنائی دیتی ہے اور کچھ دیر بعددوسری جانب دوبارہ ذرالمبی آواز میں کہا جاتا ہے ... ہیلوووو...!!! .... ایسا لگتا ہے جیسے کوئی کنویں سے بول رہا ہو.... صاحبِ فون جھٹ سے پوچھتا ہے .... ”جی فرمائیں ، کون ہیں آپ؟“ ..... ”باپ....پارٹی سے واقف ہیں!©©“.... آگے سے کوئی پوچھتا ہے ۔ سننے والا جی جی کرتے ہوئے گویا ہوتا ہے کہ ”باپ پارٹی سے کون واقف نہیں ، وہ تو ہمارا قومی ترانہ بن چکی ہے “اور پھر اپنا جلدی سے کہہ جاتا ہے کہ !
پاک سر زمین باپ شاپ
کشورِ حسین ٹاپ شاپ
اس پر فون کرنے والا تنک کر کہتا ہے ”بس بس؟“ اور پھر ساتھ ہی گویا ہوتا ہے ”آپ کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق؟“۔ فون سننے والا اپنے اوسان پر قدرے قابو پا چکا ہے اور دل میں ٹھان لیتا ہے کہ کسی بات کا اقرار نہیں کرنا ہے اور کرنا ہے تو انکار کی صورت کرنا ہے ۔ اس لئے قدے گول مول جواب دیتا ہے کہ ....”وہی جو ایک اجنبی کا کسی اجنبی سے ہوتا ہے ۔“ اس پر فون کرنے والا متجسس لہجے میں پوچھتا ہے ...”کیا مطلب؟“فون سننے والا مزید حوصلہ پکڑتا ہے اور بات کو مزید گھماتے ہوئے کہتا ہے ....”مطلب غیر واجبی سا تعلق ہے۔“ فون کرنے والا اس کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے اگلا سوال داغتا ہے ۔ اس مرتبہ اس کا لہجہ بہت ٹھوس اور قطعیت سے بھرپور ہوتا ہے ۔ ”عمران خان کو جانتے ہیں ؟“....فون سننے والے کے چہرے پر ایک رنگ آکر چلا جاتا ہے ، اسے فوری کوئی جواب نہیں سوجھتا کہ ہاں کرے یا ناں کرے ۔ قدرے حوصلہ کرکے پوچھتا ہے کہ ....”کون ؟ عمران رنگ ساز؟“فون کرنے والا قدرے تحمل سے کہتا ہے ۔ ”نہیں !“اس پر فون سننے والامزید کہتا ہے ”رنگ باز؟“جس پر فون کرنے والا ترش لہجے میں کہتا ہے ”نہیں ، شوکت خانم والا عمران خان“ اور فون سننے والا ہتھیار ڈالتے ہوئے کہتا ہے ”جی ہاں ، انہیں جانتا ہوں“....”کیسے جانتے ہیں ؟“ فون کرنے والے فوراً سوال داغا جس کا کوئی فوری جواب نہ بن پایا تو فون کرنے والے نے کہا ”ایسے، جیسے کوئی نہ جانتاہوتا“
دونوں طرف قدرے خاموشی رہی ۔ پھر فون کرنے والے نے ایسا سوال کیا جس پر فون سننے والے کا شک یقین میں بدل گیا کیونکہ فون کرنے والے نے پوچھا ”کبھی زمان پارک گئے ہیں آپ؟“ سوال اس قدر اچانک تھا کہ فون سننے والے نے بے اختیار کہا”بے زبان پارک؟ “ اور پھر ساتھ ہی زور سے سر ہلا کر کہنے لگا ”نہیں کبھی ، نہیں !“ فون کرنے والے نے اسی لہجے میں پوچھا ”9مئی کو کہاں تھے ؟“فون سننے والے کی گگھی بندھ گئی ۔ فوراً اردو سے انگریزی پہ آگیااور کہنے لگا"Nowhere" اس پر فون کرنے والے نے بھی ترکی بہ ترکی پوچھا"But where"فون کرنے والا مزید گھبراگیا اور انگریز ی کے پرخچے اڑاتے ہوئے کہنے لگا "Here there"سوال کرنے والا گھاگ تھا ، پوچھنے لگا "And there"اور فون سننے والا کپکپاتی آواز میں بولا"No....Where!"
فون کرنے والے نے سنی ان سنی کرتے ہوئے پوچھا ”سوشل میڈیا پر ہیں “ اور فون کرنے والا پچھلے خوف میں مبتلا تقریباً گڑگڑاتے ہوئے بولوا ”نوشل “اس پر فون کرنے والا نے گرج کر کہا ”کیا نوشل ؟“جس پر فون کرنے والا جلدی سے بولا”میرا مطلب تھا نو سر!“اس کے بعد اگلے چند سوالوں کی ترتیب کچھ یوں تھی کہ فون کرنے والے نے پوچھا ”کبھی تبدیلی کا نعرہ لگایا؟“فون سننے والے نے جواب دیا ”نہیں ، البتہ سنے ہیں ۔“”کہاں سنے ہیں ؟“ فون کرنے والے نے پوچھااور فون سننے والا اپنے انکار کو اقرار میں بدل بیٹھا جب اس نے کہا ”سوشل میڈیا پر!“کیونکہ ابھی تو اس نے کہا تھا کہ وہ سوشل میڈیا پر نہیں ہے البتہ فون سننے والے نے یہ پوچھنے کی بجائے پوچھا ”کرکٹ سے کوئی دلچسپی؟“سننے والا بولا ”چودھری ذکاءاشرف اور نجم سیٹھی جتنی ہے۔“فون کرنے والا بولا”کسی پیر فقیر سے رابطہ؟“سننے الا”نہیں “فون کرنے والے کا اگلا سوال”کسی پیرنی کو جانتے ہیں ؟“فون سننے والا پھر گھبراگیا اور کہنے لگا ”جی ہاں !“”کیا نام ہے؟“ فون کرنے والے نے پوچھا جس پر سننے والا بولا”مرشد!“فون کرنے والے نے استفہائیہ انداز میں کہا ”مرتد؟“ جس پر سننے والا جھٹ سے بولا”نہیں مرشد، مرشد!“ فون کرنے والے کا لہجہ مذاق کے موڈ میں بدل گیا”ارشد؟“ جس پر سننے والا فوراً گویا ہوا کہ ”جی ارشد سائیں ڈھول والا!“اس پر فون کرنے والے نے بات بدلی اور پوچھا ”سائیفر کے بارے میںسنا ہے؟“مگر فون سننے والا دل میں تہیہ کر چکا تھا کہ اس مرتبہ اس نے کسی قسم کا اقرار نہیں کرنا ہے ۔ چنانچہ جھٹ سے انجان بن کر پوچھنے لگا ”سلفر؟کوئی دوائی ہے؟‘ جس پر فون کرنے والے کے لہجے کا اطمینان دیکھنے لائق تھا ۔ اس نے کچھ دیر توقف کیا ، دونوں طرف خاموشی چھا گئی ، فون سننے والے کی حالت بالکل پتلی ہو چکی تھی اور اس کا خیال تھا کہ چند ہی لمحوں بعد اس کے دروازے کو زور زور سے پیٹا جائے گا اور پھر کچھ لوگ آکر اس کو اٹھا کر لے جائیں گے ، اتنے میں فون کرنے والے نے ٹھوس لہجے میں ”ٹھیک ہے ، آپ کو نگران کابینہ کے لئے منتخب کیا جاتا ہے !“ اور فون بند ہوگیا !
فون سننے والا ہکا بکا بیٹھا رہ گیا ، ممکن ہے اس کا سانس بند ہوجاتا کہ اچانک اس کی خواب سے آنکھ کھل گئی !