کون سی کیسی اقلیتیں؟ وحدت میں کثرت!

کون سی کیسی اقلیتیں؟ وحدت میں کثرت!
کون سی کیسی اقلیتیں؟ وحدت میں کثرت!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 لیکن پہلے نامزد چیف جسٹس پاکستان جناب فائز عیسی کے لیے چند کلمات تحسین جو لگی بندھی "عدالتی روایات" سے انحراف کرتے ہوئے مسیحی متاثرین فساد و بلوہ کی دل جوئی کی خاطر اپنی اہلیہ کے ہمراہ جڑانوالہ جا پہنچے۔ شکر ہے کہ اب کے غل نہیں مچا۔ پارلیمان میں آئین کی 50 سالہ تقریب سالگرہ میں ان کی شرکت پر آپا دھاپی تو آپ کو یاد ہوگی۔ عدلیہ کی جگمگاتی، جھلملاتی کہکشاں کا بلیک ہول ثاقب نثار نامی جج تو آپ کو یاد ہوں گے جو کبھی کسی ہسپتال کے ٹائلٹ کی معطر فضا میں اپنی افتاد طبع کے سبب سکینت پاتے تو کبھی راولپنڈی کے بدنام زمانہ سیاستدان کی انتخابی مہم چلا رہے ہوتے، تب تو کوئی غل نہیں مچتا تھا۔ جسٹس فائز عیسی بروقت اور بر محل فیصلہ کر کے مسیحی اقلیتی آ بادی کی خاطر اگر جڑانوالہ جا پہنچے تو یہ ان کی عظمت ہے۔ اللہ کرے دیگر ضلعی جج بھی ان کی پیروی میں کمروں سے نکلا کریں۔ اپنی قانونی ذمہ داری نباہنے کی خاطر جیلوں کا دورہ کیا کریں جہاں ناقابل ذکر اور معمولی جرائم کے وہ مرتکبین سڑ رہے ہوتے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ جڑانوالہ کی مسلم آ بادی نے مسیحی متاثرین کے لیے اپنے دروازے ہی نہیں کھول دیے، مسجدوں میں انہیں پناہ ہی نہیں دی بلکہ محرم راز خالق کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے انہیں وہاں عبادت کی اجازت بھی دی۔ تین چار بڑے مذاہبِ کا جتنا کچھ میں مطالعہ کر سکا ہوں، انسانی قدروں سے متعلق سب کی تعلیمات میں مجھے شمہ برابر فرق نظر نہیں آیا۔ قرآن ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے (المائدہ -32) تو بائبل احکام عشرہ میں بالفاظ صراحت "تو خون مت کر" کہتی ہے (کتاب پنجم, تثنیہ شرع, باب 5)۔ سکھ مت آج الگ سے ایک مستقل مذہب تو ہے لیکن توحید کو نقطہ ماسکہ کہنے والا یہ مذہب الگ ہوتے ہوئے بھی بڑی حد تک اسلامی تعلیمات کا انعکاس ہے۔ اس مذہب کے بانی گرو نانک ہمارے آقا و مولا کی بابت جو عقیدہ رکھتے تھے، اختر شیرانی نے اسے یوں منظوم کیا ہے:
سما سکتا اگر حسن بقا فانی نگاہوں میں
خدا کا نور خود آوارہ ہوتا جلوہ گاہوں میں
نہ پائی طاقت دید اس لیے صورت میں احمد کی
خدا پھرتا رہا برسوں عرب کی شاہراہوں میں
اس منظوم رائے کو فقہی سان پر چڑھائے بغیر ہندو مت کا جائزہ لیں۔ یہاں بھی کم و بیش ہمیں یہی کچھ ملتا ہے۔ آوا گون یا عقیدہ تناسخ یہی تو ہے کہ کسی کو ایذا دو گے، قتل کرو گے تو اگلے جنم میں سانپ، بچھو یا دیگر موزی گزندے بن کر پیدا ہو گے۔ مجھے تو کسی مذہب کی تعلیمات میں انسان دشمنی یا مذہب کش عنصر پڑھنے کو نہیں ملا۔ آج اگر مغربی ممالک میں ستم یافتہ انسانوں کو پناہ ملتی ہے تو لائق ستائش ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ اندلس میں مسلمانوں کی شکست کے بعد جب مسیحی حکمران انہیں تہہ تیغ کر رہے تھے اور یہی سلوک یہودیوں کے ساتھ بھی تھا تو کسمپرسی کے اس عالم میں یہودیوں کو خلافت عثمانیہ نے اپنے ہاں پناہ دی تھی۔ تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ ہر طرف قتل و غارت کیوں مچی ہے؟ اس کا ذکر آخر میں ہو گا. پہلے چند وقوعات کا ذکر جنہیں پڑھ کر ہم سب بلا تفریق مذہب شاید کسی ایک ہی نتیجے پر جا پہنچیں۔
2019 میں عارضہ قلب ہسپتال لاہور پر وکیلوں کا حملہ۔ تین مریض جان بحق درجنوں گاڑیاں نذر آتش۔ قیمتی آلات اور سازو سامان راکھ۔ کیا یہاں کسی مذہبی عنصر کا سراغ ملتا ہے؟ 2015 میں لاہور کے گرجا گھر پر خود کش حملہ۔ یہ حملے مسجدوں، مدرسوں، کالجوں یونیورسٹیوں،امام بار گاہوں پر بھی خوب ہوئے۔ لیکن اس حملے کے رد عمل میں مشتعل مسیحیوں نے اپنے خداوند کی تعلیمات کو پامال کرتے ہوئے دو مسلمان زندہ جلا ڈالے۔ کروڑوں کی املاک تباہ کیں۔ محدب عدسہ لگا کر بھی مجھے یہاں مذہبی عنصر نہیں ملا۔ 2021 میں بھارتی صوبے بہار میں مسلمانوں کے سینکڑوں گھر مسمار اور کئی مسلمان مار ڈالے گئے۔ ایک لاش پر ایک ہندو بھنگڑا ڈال ڈال کر سلفیاں بناتا رہا۔ ایسے شخص کے بارے میں اس کا اپنا ہندو مذہب کہتا ہے کہ اگلے جنم میں وہ سانپ بن کر پیدا ہوگا۔ تو پھر یہاں مذہبی عنصر کیوں اور کیسے ملے گا؟ 2021 میں ایک ناچنے والی نے منارہ پاکستان تلے اپنے "مداحوں" کو جمع ہونے کی دعوت دی. "ٹیلنٹ پرفارم" کرنے کی دیر تھی, ہزاروں مداحوں نے اسے دن دہاڑے بے لباس کر کے اس کا حشر نشر کر دیا۔ اس "ستائشی عمل" سے قبل یا بعد میں کیا ان مداحوں کی مذہبی شناخت پریڈ ہوئی تھی؟ اور ہاں وہ جو کراچی میں اکیلے، نہتے، ہاتھ جوڑتے نوجوان کو رینجرز کے بہادر نے گولیوں سے بھون دیا تھا کیا وہ بھی کسی مذہبی بنیاد پر تھا؟
چنانچہ مسئلہ بڑا ہی سادہ سا ہے۔ آج ہر مذہب کا کم و بیش ہر پیروکار اپنی الہامی تعلیمات سے اتنے ہی فاصلے پر ہے جتنے ہمارے تینوں ریاستی ادارے مقدس دستور پاکستان سے دور ہیں۔ مسلمان دل پر ہاتھ رکھ کر خود سے پوچھیں کہ ترجمے کے ساتھ مہینے میں کبھی ایک دفعہ بھی قرآن پڑھا۔ ہندو دوستوں سے یہی سوال کرتا ہوں تو کھسیانی ہنسی کے ساتھ جواب ملتا ہے کہ بھگوت گیتا وغیرہ پڑھنا پنڈتوں کا کام ہے۔ تو پھر آپ کون؟ جی ہم ہندو ہیں؟ رہی مسیحی آبادی تو اس کی غالب اکثریت 21ویں صدی میں بھی انسانی فضلہ ٹھکانے لگا کر پیٹ کی آگ بجھاتی ہے جبکہ اس کے مقامی "مسلمان" سرپرست اور عالمی ادارے ان لوگوں کا وزیراعظم نہ بن سکنے پر واویلا کر رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ پہلے ان کی معاشی اور معاشرتی حالت سدھاری جائے، ان لوگوں نے بذریعہ این جی اوز کروڑوں ڈالر جھونکتے ہوئے اس معصوم آبادی کو ناممکن الحصول ہیولے کے تعاقب میں لگا رکھا ہے۔ اور اپنی اپنی مقدس تعلیمات سے یہ سب بلا تفریق مذہب کنارہ کش ہیں۔
تمام الہامی تعلیمات کا محور انسان اور اس کی بقا ہے۔ ان تعلیمات سے دوری کا نتیجہ سانحہ جڑانوالہ نکلے گا۔ مسیحی، مسلمانوں کو زندہ جلایا کریں گے۔ کالے کوٹ پہنے افراد عارضہ قلب ہسپتال پر حملہ آور ہوا کریں گے۔ مسلمان کی لاش پر ہندو بھنگڑا ڈالے گا۔ لیکن الہامی تعلیمات سے مزین "ان پڑھ جاہل ملاو¿ں" نے اپنی مساجد کو ستم رسیدہ مسیحی آبادی کے لیے نہ صرف کھول دیا بلکہ انہیں عبادت کی اجازت بھی دے دی۔ قارئین کرام ! یہ افرا تفری، یہ غارتگری، یہ لوٹ مار ان سب کا تعلق کسی مذہبی اکائی سے ہر گز نہیں۔ مان لیجیئے کہ یہ اپنے اپنے مذہب سے دوری کا نتیجہ ہے۔

مزید :

رائے -کالم -