اسلام دینِ امن، حضرت محمدﷺ ،رسولِ رحمت!
آپ ، مخلوقِ خدا کے لئے عافیت و حفاظت کا مرکب اور سراپا کرم و رحمت ہیں۔ بقولِ رب العالمین:
ترجمہ: ذاتِ محمد عالی کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا گیا ہے“۔
طبرانی میں جبیربن مطعمؓ سے روایت ہے: ”ابو جہل نے قریش کو مخاطب کرکے کہا : ” محمد یثرب چلا گیا ہے اور اپنے جاسوسوں کو تمہاری جستجو میں بھیج رہا ہے۔ دیکھو ہوشیار رہنا! وہ بھوکے شیر کی طرح تمہاری تاک میںہے، وہ خار کھائے ہوئے ہے کیوں کہ تم نے اسے نکال دیا ہے، واللہ! اس کے جادو بے مثال ہیں۔ میں اس کے اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ شیطان دیکھتا ہوں ،ہمارے دشمن محمد نے ہمارے دشمنوں اوس اور خزرج سے پناہ اور مدد لی ہے۔ وہ تمہارے اوپر قابو پاکر کچھ پاس اور لحاظ نہ کریں گے“۔
جب یہ باتیں رسولِ رحمت تک پہنچیں تو آپ نے فرمایا:
” قسم اللہ کی! کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، میں انہیں پکڑ کر احسان کرکے چھوڑ دوں گا۔میں تو رحمت ہوں، میرا بھیجنے والا رحمن و رحیم اللہ ہے۔ وہ مجھے دین کے غلبہ سے قبل نہ اٹھائے گا۔“
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ سے کہا گیا، آپ ( ایذا رسانی پر) مشرکوں کے لئے بددعا کیوں نہیں فرماتے تو آپ نے ارشاد فرمایا:
” میں لعنت کرنے والا نہیں بھیجا گیا، میں تو فقط رحمت ہی (بنا کر) بھیجا گیا ہوں“۔ ایک دوسری روایت میں ہے، ”میں تو صرف رحمت اور ہدایت بنا کر بھیجا گیا ہوں“۔
وادی ¿طائف میں آپ پر ایذا رسانی کی انتہا کر دی گئی۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے۔ طائف سے بڑھ کر مجھے کبھی تکلیف نہیں پہنچی مگر آپ کی درگزری اور عفو کا یہ عالم ہے کہ آپ نے جبریل ؑ کے کہنے کے باوجود، ان (طائف والوں) کے لئے سزا کے لئے کچھ نہ کہا، فرمایا تو صرف یہ کہ
” اللھم اھد قومی فانھم لا یعلون“
(اے اللہ! میری اس قوم کو ہدایت دے، یہ لوگ اپنی بہتری سے ناواقف ہیں)
ابو داﺅد میں حضرت سلمانؓ سے روایت ہے کہ رسولِ رحمت نے خطبہ میں فرمایا:” جس شخص کو میں نے اپنی امت میں سے برا کہا یا لعنت کی اپنے غصے کی حالت میں، تو سمجھ لو میں بھی تم جیسا ایک انسان ہوں۔ تمہاری طرح مجھے بھی غصہ آ جاتا ہے۔ ہاں البتہ میں چونکہ رحمت ہوں تو میری دعا ہے کہ خدا میرے ان الفاظ کو بھی ان کے لئے موجب ِرحمت بنا دے“۔
حضور کی نرمی، رحم دلی، درگزری، رقت، مہربانی اور سراپا رحمت للعالمینی کے کیا کہنے کہ جس کو جائز طور پر بھی برا کہا، یا لعنت کی تو دعا کرکے یہ لعنت بھی اس کے حق میں رحمت میں تبدیل کرا دی۔
ترمذی اور ابنِ حبان میں ہے کہ کم سنی میں جب آپ خواجہ ابو طالب کے ساتھ تجارتی دورے پر شام گئے تو ایک عیسائی راہب نے آپ کے چہرہ¿ اقدس کو دیکھتے ہی کہا تھا:
” یہ سردارِ جہاں ہے۔ یہ رسولِ ربِ ارض و سما ہے اور یہ سراپا رحمت ہے یعنی آپ کی برکتوں اور رحمت بھری ذات دنیا کے لئے وجہ¿ امن و عافیت ہے۔“ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
” اور اللہ ان کو کبھی عذاب نہیں دیں گے جبکہ آپ ان کے درمیان ہوں“(پ 9 ، رکوع 18)کہ آپ کے ہوتے ہوئے عذاب نہیں آئے گا۔ جب آپ رفیق ِاعلیٰ سے جا ملے تو آپ کی رسالت و نبوت، آپ کی نبوت اور تعلیمات ہی دراصل وجہ¿ رحمت و سکنیت ہیں۔ آپ کی سیرت کی اتباع ہی امن و عافیت مہیا کرتی ہے کہ آپ کی تمام زندگی امن و عافیت کے فروغ کے لئے تھی۔ آپ نے ہر ہر قدم پر امن و سکنیت کے لئے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا جوکہ آپ کی فطرت و طینت میں تھا۔ آپ اخلاق کے بہت بلند درجے پر فائز تھے۔ اللہ تعالیٰ گواہی دے رہے ہیں کہ ”انک لعلٰی خلق عظیم“ قلم 4 ، جوامع السیرة لابن حزم میں ہے آپ اخلاق کے اعتبار سے خوش خلق، خندہ جبیں اور مہربان طبع تھے۔ سخت مزاج اور تنگ دل نہیں تھے۔ آپ سب سے زیادہ حلیم و بردبار نہایت شجاع اور بہادر، عدل و انصاف کے پیکر، انتہائی پارسا اور پاکدامن تھے۔ جود و سخا آپ کی فطرت تھی۔ آپ کے کبار صحابہؓ میں سے ایک ایسا صحابی یہود کے ہاتھوں شہید ہو گیا جس کا مثل مفقود تھا اور ایسا بہادر تھا جس سے بڑے بڑے لشکر خوف زدہ ہو جاتے۔ وہ آپ کے دشمنوں (یہود) کے درمیان مقتول پایا گیا۔ آپ نے انتقاماًکسی پر ظلم و زیادتی نہیں کی بلکہ اپنی طرف سے سخت ضرورت مند ہونے کے باوجود سو اونٹ فدیہ میں دے دیئے۔
آپ کو زہر بھی دیا گیا۔ آپ پر جادو بھی کیا گیا لیکن آپ نے کوئی بدلہ نہیں لیا بلکہ آپ تو اپنے اوپر گندگی ڈالنے والی بڑھیا کی بیماری میں خبر گیری کرنے بھی چلے گئے تھے کہ پتہ کروں کہ آج اس نے جسمِ اطہر پر غلاظت کیوں نہیں پھینکی؟
رسول اللہ نے فتنہ و فساد کی جڑ انانیت کی سختی سے تردید کی۔ غصے کو شیطان کی طرف سے قرار دیا کہ یہ عقل کا دشمن ہے اور فرمایا جب غصہ آئے تو اس کے فرو کرنے کے لئے بیٹھ جایا کرو، بیٹھے ہو تو لیٹ جاﺅ، لیٹے ہو تو اٹھ کر چلے جاﺅ۔ ایک جگہ فرمایا کہ ”بہادر قوت والا نہیں بلکہ وہ ہے جو غصے پر قابو پا جائے“۔
قرآنِ کریم جو آپ کی سیرت کا شاہد ہے بلکہ حضرت عائشہؓ کے بقول آپ کی سیرت ہی ہے کہ آپ مجسم قرآن ہیں۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے۔ (آل عمران، 14) ”بہترین فرد وہ ہے جو غصے کو روکے اور در گزری کرے۔ در حقیقت اللہ تعالیٰ بھی (ایسے ہی) محسن افراد کو پسند فرماتے ہیں“۔
صحیح بخاری جلد 1 ، ص 11 پر ہے، آپ نے فرمایا:
” مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے سلامتی پھیلے اور دوسرے تکلیف نہ اٹھائیں۔“
رسولِ رحمت کی زندگی پائیدار امن اور مستحکم عافیت کی ضمانت ہے۔ آپ نے امن و عافیت کے لئے یہود سے بھی معاہدہ کیا اور عیسائیوں سے بھی حتیٰ کہ مشرکینِ مکہ سے بھی کہ جنہوںنے آپ پر زندگی تلخ کر دی تھی۔
طاقت و قوت کے باوجود انہی کی شرائط کے مطابق حدیبیہ میں معاہدہ کیا۔ سیرة ابن ہشام جلد 1 ، ص 178 کے مطابق یہود سے معاہدے میں لکھا:
”فریقین ایک دوسرے کی بہتری، فلاح اور نیکی میں معاون ہوں گے اور مظلوم کی مدد کریں گے“۔
اپنے مفتوح عیسائیوں کے بارے میں فاتح کی زبان استعمال نہیں کی بلکہ امن و عافیت کے تقاضوں کے مطابق ایک مصلح کی طرح فرمایا:
”اہلِ نجران اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ میں ہیں۔ ان کی جانوں، قوم قبیلے، مال و زمین، حاضرو غائب، دوست احباب اور موجودہ حالات کی حفاطت ہو گی۔
ان کے کسی حق کا بدلہ لیا نہ جائے گا۔
اور موجودہ جو کچھ تھوڑابہت ہے، بحال رہے گا“۔ (فتوح البلدان بلا ذری) ( جاری ہے)