زندگی چاہے کتنی بھی مصروف کیوں نہ ہو کچھ لوگوں سے محبت اور عقیدت کا ایسا رشتہ ہوتا ہے کہ وہ نگاہوں، یادوں اور دعاؤں سے کبھی بھی دور نہیں ہوتے

زندگی چاہے کتنی بھی مصروف کیوں نہ ہو کچھ لوگوں سے محبت اور عقیدت کا ایسا رشتہ ...
زندگی چاہے کتنی بھی مصروف کیوں نہ ہو کچھ لوگوں سے محبت اور عقیدت کا ایسا رشتہ ہوتا ہے کہ وہ نگاہوں، یادوں اور دعاؤں سے کبھی بھی دور نہیں ہوتے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف:شہزاد احمد حمید
 قسط:112
 ہم پیدل ہی اس پل سے گزر کر اٹک خورد ریلوے سٹیشن پہنچے ہیں۔ سر سبز پہاڑوں میں گھرا یہ ریلوے سٹیشن انیسویں صدی کے ولایت کا کوئی سٹیشن معلوم ہوتا ہے۔ مجھے لمحہ بھر کے لئے محسوس ہوا میں اٹھارویں صدی کے ”ولیم وڈزورتھ“ کے ولایت میں ہوں۔ پرسکون ماحول، پلیٹ فارم پر رکھے لکڑی کے بنچ، مخروطی طرز کی چھتیں، پرانی طرز کے لوہے کے کھمبے اُن سے جھولتی لمبوتری لالٹین، سر سبز پہاڑ،پہاڑ کے گرد گھومتی نیم گولائی میں گزرتی ریل کی پٹری، پرانی اینٹ سے بنی ریلوے سٹیشن کی پر شکوہ عمارت، سٹیشن کے احاطے سے ملحق چند پرانی طرز کے بنے ریلوے ملازمین کے کوارٹر اور ریل کے انتظار میں بیٹھے چند مسافر۔ مجھے لگا وڈزورتھ بھی اسی سٹیشن کے کسی بنچ پر بیٹھا اپنی شہرہ آفاق نظم ”the prelude“ کا کچھ حصہ لکھا ہو گا۔برطانوی انگریزی ادب میں وڈزورتھ کو عظیم رومانوی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔ the prelude کا مرکزی خیال قدرت سے محبت ہے۔ دراصل یہ نظم شاعر کی اپنی آب بیتی ہے۔ جسے اس نے 1798ء میں لکھنا شروع کیا۔ اس نظم کا کوئی نام نہ تھا۔ یہ اس کی وفات کے3 ماہ بعد  1850؁ء میں شائع ہوئی اور اس کو ”پری لیوڈ“ نام وڈزورتھ کی بیوہ ”میری“ نے دیا تھا۔  میرا تخیل مجھے 100سال پہلے کے دور میں لے آیا ہے۔ 
”نین کے ہمراہ میں سٹیشن پر ریل کے انتظار میں بنچ پر بیٹھا ہوں۔ یہ وہ دور ہے جب بھاپ کے انجن ریل کو کھنچتے تھے۔ پورے سٹیشن پر صرف ایک ہی چائے کی دکان ہے جہاں پختہ عمر کا شخص چائے بنا رہا ہے۔ ہم چائے کی چسکیاں لے رہے ہیں کہ سگنل ڈاؤن ہوا، ریل کی سیٹی سنائی دی اور لمحوں میں نیم دائرے میں گھومتی پٹری پر بھاپ اڑاتی چھک چھک کی آواز نکالتی ریل پہاڑوں کے گرد بل کھاتی سٹیشن کے پلیٹ فارم پر آن رکی ہے۔2 مسافر اترے اور ہم دو سوار ہوئے۔بیس سکینڈ بعد ریل کی کوک پھر فضا ء میں بلند ہوئی، یہ روانگی کی اطلاع ہے۔ چھک چھک کی آواز بڑھی، فضاء میں دھویں کا بڑا گولہ بلند ہوا اور ریل دھیرے دھیرے پلیٹ فارم سے سرکنے لگی ہے اور لمحوں میں سٹیل کے بنے اس دیو ہیکل پل سے گزر کرصوبہ سرحد (آج کے خیبر پختون خوا) کے قصبہ خیرآباد پہنچی ہے۔ میں نے سر نین کے زانوپر رکھا اور اس سے کہا؛”زندگی چاہے کتنی بھی مصروف کیوں نہ ہو کچھ لوگوں سے محبت اور عقیدت کا ایسا رشتہ ہوتا ہے کہ وہ نگاہوں، یادوں اور دعاؤں سے کبھی بھی دور نہیں ہوتے۔لوٹ کر یادیں آتی ہیں وقت نہیں۔ تمہارے نزدیک محبت کیا ہے۔“لمحوں کی خاموشی کے بعدوہ بولی؛ ”احساسات کا جذبہ جس میں 3چیزیں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ روٹھنا، منانا اور مان جانا۔ ان میں تیسری سب سے اہم ہے۔جس سے محبت کی جاتی ہے وہ من کے بہت نزدیک ہو تا ہے اور من پسند شخص ہر مرض کا علاج ہوتا ہے۔اگر کسی کی یاد شدت اختیار کرے اور تم اسے کبھی بھلا نہ پاؤ  تو یہ تمھارا کمال نہیں۔ کمال تو اس کا ہے کہ اس کے پیار اور خلوص میں کوئی ملاوٹ نہیں ہے۔ آپ ایسے ہی ہو شہزاد۔“ وہ خاموش ہوئی تو اس کی آنکھوں کی چمک اس کا بھید کھولنے لگی ہے کہ یہ پیغام ہے اس کی بے پناہ محبت کا۔میں اسے کوئی جواب نہ دے سکا۔ اس کا فقرہ”من پسند شخص ہر مرض کا علاج ہوتا ہے“ میرے دل ودماغ میں اتر گیا ہے۔ نین! ایک مختصر تحریر تمھاری نظر؛
”کچھ لوگ خوبصورت ہوتے ہیں اور کچھ بہت خوبصورت اور جو ان سے ماورا ہوں ان کے لئے شاعری کی جاتی ہے۔ شفق، دھنک، مہتاب، گھٹائیں، تارے، نغمے، پھول۔ یہ سب اکٹھے ہوں، مل کر ایک پیکر میں ڈھل جائیں تو ”نین“ بن جاتے ہیں۔ صبح کی پہلی کرن کے بعد کا اجالا جیسے طلوع ہو یا رات کا پہلا ستارہ جس کے بعد اندھیرے کی چاندنی پھیل جائے۔“ 
مجھے بازو پر سخت جکڑ محسوس ہوئی یہ مشتاق ہے جو مجھے تخیل کی انیسویں صدی سے اپریل2020؁ء میں واپس کھنچ لایا ہے۔ میرا سندر سپنا ٹوٹا مجھے باقی دوستوں کی معنی خیز مسکراہٹ شرمندہ کر گئی ہے۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں، بلا شبہ یہ پاکستان کا سب سے خوبصورت ترین ریلوے سٹیشن ہے۔  2007ء میں اسے ”ٹورسٹ ریزوٹ“ کا درجہ دیا گیا ہے اور پاکستان ریلوے نے راولپنڈی اور لنڈی کوتل کے درمیان ”سفاری ٹرین“ سروس کا آغاز کیا ہے تاکہ سیاح اس تاریخی ریل روٹ کا بھرپور نظارہ کر سکیں۔ یقیناًایسے منصوبے اس ملک میں سیاحت کے فروغ کا باعث ہیں۔   (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -