سیاہ فاموں کو انسانی حقوق کے حصول کیلئے تشدّد کا راستہ اختیار کرنا پڑے تومیں تشدّد کی حمایت کروں گا،ہو سکتا ہے امریکی سیاہ فاموں کوکسی حقیقی انقلاب میں ملوث ہونے کی ضرورت ہو
مصنف: میلکم ایکس(آپ بیتی)
ترجمہ:عمران الحق چوہان
قسط:180
”اگر عدم تشدّد کا مطلب امریکی سیاہ فاموں کے مسائل کے حل کو ملتوی کیے چلے جانا ہے تو میں تشدّد کا حامی ہوں۔ اور اگر عدم تشدد سے مسئلہ کے حل میں تاخیر ہوتی ہو تو میں عدم تشدد کی حمایت نہیں کروں گا۔ میرے نزدیک مسئلہ کے حل میں تاخیر کوئی حل نہیں ہے یا اس بات کو میں دوسری طرح کہتا ہوں اگر سیاہ فاموں کو اس ملک میں انسانی حقوق کے حصول کے لیے تشدّد کا راستہ اختیار کرنا پڑے تومیں تشدّد کی حمایت کروں گا بالکل اُسی طرح جس طرح آئرش‘ پولز اوریہودی امتیازی سلوک کے خلاف کریں گے۔ نتائج سے لاتعلق ہوکر اور یہ غور کیے بغیرکہ ان کے تشدّد کا نشانہ کون بن رہا ہے۔“
سفیدفام معاشرہ سفیدفاموں کے ہاتھوں سیاہ فاموں پر توڑے جانے والے مظالم کے خلاف بات سننے سے نفرت کرتا ہے۔ بالخصوص جب وہ ایک سیاہ فام کر رہا ہو اور یقینا اسی وجہ سے مجھے اکثر ”ایک انقلابی“ کہا جاتا ہے اور ایسا تاثر دیا جاتا ہے جیسے میں نے کوئی جرم کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ امریکی سیاہ فاموں کوکسی حقیقی انقلاب میں ملوث ہونے کی واقعی ضرورت ہو۔ جرمن زبان میں انقلاب کو Umwalzung کہتے ہیں جس کا مطلب ہے مکمل مڑ جانا__ ایک مکمل کایاکلپ۔ مصر میں شہنشاہ فاروق کا تختہ الٹایا جانا اور صدر ناصر کا عنانِ حکومت سنبھالنا ایک حقیقی انقلاب کی مثال ہے جس کا مطلب ہے پرانے نظام کا خاتمہ اور نئے نظام کا نفاذ۔ دوسری مثال احمد بن بیلا کی سربراہی میں آنے والا الجزائر کا انقلاب ہے جس میں انہوں نے سو سال سے حکمران فرانسیسیوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیا تو امریکہ میں اگر کوئی نیگروز کو انقلاب کے لیے کہتا ہے تو حیرت کس بات کی۔ وہ دراصل نظام کے خلاف بول رہا ہے وہ نظام کو تباہ کرنے کی بات نہیں کر رہا۔ نیگروز کی نام نہاد ”بغاوت“ موجود نظام میں قبولیت کی درخواست ہے۔ ہو سکتا ہے ایک حقیقی نیگرو انقلاب ایک ایسی جدوجہد کی شکل اختیار کر لے جو اس ملک کے اندر سیاہ فاموں کے لیے علیٰحدہ ریاستوں کے تقاضے کی شکل اختیار کر لے لیکن یہ بات تو ایلیا محمد کے آنے سے پہلے بھی بہت سے افراد اور گروہ کہہ رہے تھے۔
سفیدفام اس ملک کے اندر ”عدم تشدد‘‘ کا مظاہرہ کر کے نہیں آئے حقیقت میں جس شخص کے نام کو آج ”عدم تشدد“ کی مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے اُس کا اپنا کہنا ہے۔
”ہماری قوم نسل کشی کے نتیجہ میں وجود میں آئی کیونکہ اس نے یہ اصول بنا لیا تھا کہ حقیقی امریکی ”دی انڈنیز“ ایک کمتر نسل ہے۔ اس سے بھی پہلے نیگروز بڑی تعداد میں ہمارے ساحلوں پر موجود تھے۔ نسلی منافرت کا داغ پہلے ہی نوآبادیاتی معاشرے کا چہرہ مسخ کر چکا تھا۔ سولہویں صدی سے آج تک نسلی برتری کی بنیاد پر جنگوں میں خون ریزی کی گئی۔ ہم شاید واحد قوم ہیں جس نے قومی پالیسی کی بنیاد پر حقیقی آبادی کو نیست ونابود کیا۔ مزید ہم نے اس افسوسناک واقعہ کو قابلِ فخر کروسیڈ کادرجہ بھی دیا۔ حقیقتاً آج بھی اس شرمناک واقعہ پر ہم نے شرمندہ ہونے یا اس سے لاتعلق ہونے کی کوشش نہیں کی۔ ہمارا ادب‘ ہماری فلمیں‘ ہمارا ڈرامہ‘ ہمارا فوک اس کی عظمت کے گن گا رہا ہے۔ ہمارے بچوں کو آج بھی اُس تشدد پر عمل پیرا ہونے کی تعلیم دی جا رہی ہے جس نے قدیم تہذیب کے حامل سُرخ جلد والے لوگوں کو بکھرے ہوئے گروہوں کی شکل میں ہانک کر بدترین زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔“
ایک اور لفظ جو سفیدفام بہت کثرت سے دوہراتا ہے وہ ہے ”پرامن بقائے باہمی“ درست! لیکن سفیدفام کے اپنے کرتوت کیا رہے ہیں؟ اپنے تمام تر تاریخی سفرمیں وہ اپنے ایک ہاتھ میں عیسائیت کا جھنڈا اور دوسرے ہاتھ میں تلوار اور بندوق تھامے رہا ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔