ہر طرف خوبصورت کھیت وجود میں آگئے جن میں لہلہاتی فصلیں انتھک محنت کا افسانہ سناتی تھیں،ایسی مشقت جس نے جسموں کو شکستہ کر دیا تھا لیکن حوصلے نہ توڑ سکی تھی
مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:20
یوں آہستہ آہستہ گاؤں کے آس پاس کی زمین کا کچھ روپ نکلنے لگا۔ مشترکہ مفادات کے بھی کئی کام ”منگ“ کے ذریعے کیے گئے جن میں مویشیوں کے لیے ٹوبہ بنانا اور گھریلو استعمال کا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے گاؤں کے عین وسط میں ایک تالاب یعنی ڈگی بنانا بھی شامل تھا۔اس باہمی شراکت سے مہینوں کے کام دنوں میں طے پا جاتے تھے اور کسی ایک شخص پر مالی بوجھ بھی نہیں پڑتا تھا۔
شروع میں تو لوگ جیسے جیسے آتے رہے انھوں نے اپنی زمینوں میں ہی چھپر ڈال لیے تھے، تاہم بعد میں حکومت نے باقاعدہ گاؤں کی نشان دہی کر کے اس میں کاشتکاروں کو ان کی زمین کے مطابق گھر بنانے کی لیے ایک ایک ایک قطعہ زمین الاٹ کیا جسے احاطہ کہتے تھے۔اس طرح با ضابطہ آباد کاری کا آغاز ہوا۔
وسطی اور شمالی پنجاب میں تو ہر گاؤں کا ایک منفرد نام ہوتا ہے جو وہاں کی کسی مشہور اور با اثر شخصیت کے نام سے منسوب ہو جاتا تھا، لیکن یہاں ایسا نہیں تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ سارا علاقہ ہی نیا تھا اور با اثر یا طاقتور شخصیت کوئی تھی ہی نہیں،سارے ہی معمولی سے کاشتکار تھے اور کسی میں اتنی اخلاقی جرأت بھی نہیں تھی کہ علاقے کا نام اپنے نام پر رکھ لے۔ لہٰذا یہاں ایک حکومتی نظام کے تحت ہر گاؤں کو ایک نمبرالاٹ کیا گیا تھا جو ”چَک نمبر“ کہلاتا تھا، یہ گاؤں یا ”چَک“ عموماً قریبی نہر کے دائیں یا بائیں طرف دو تین کلومیٹر کے فاصلے سے بسائے گئے تھے۔ اسی طرح نہروں کو بھی نام کے بجائے نمبروں سے جانا جاتا اور اس کے دائیں یا بائیں طرف ہونے کا حوالہ بھی چک نمبر کے ساتھ لکھا جاتا تھا۔ اس طرح گاؤں کو ڈھونڈنا انتہائی آسان ہو جاتا تھا۔ مثلاً ہمارے اس علاقے کو جو نہر سیراب کرتی تھی اس کا نمبر 9 تھا اسی حوالے سے ہمارے گاؤں کا نام ”چَک نمبر 213/9-R“ تھا جس میں گاؤں کا نمبر 213تھا، جو 9نمبر نہر کے دا ہنی طرف آتا تھا۔اس طرح بے نام علاقے کو اپنی شناخت مل گئی تھی۔
کئی سال کی محنت رنگ لائی اور جیسے ہی پانی کا نظام کچھ بہتر ہوا تو ہر طرف ہرے بھرے کھیت لہلہانے لگے، لیکن ابھی بھی جس ریت کو ہٹا کر ان کو بنایا گیا تھا اس کو ٹھکانے لگانا ایک مسئلہ تھا جسے خدا پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ ہی کچھ کرے تو کرے انسان کے بس کی بات تو نہیں ہے۔ اور اللہ نے ان کو کبھی مایوس نہیں کیا اور مسلسل چلنے والی آندھیوں اور ہواؤں نے کچھ ریت تو اڑا کر دوبارہ کھیتوں میں پھیلا دی جو بعد میں دھرتی کا حصہ بن گئی، اور کچھ تیز ہواؤں کے دوش پر اڑتی اڑاتی کہیں دور نکل گئی۔ ہر طرف خوبصورت کھیت وجود میں آگئے تھے جن میں لہلہاتی فصلیں ایک انتھک محنت کا افسانہ سناتی تھیں،ایسی مشقت، جس نے جسموں کو تو شکستہ کر دیا تھا لیکن حوصلے نہ توڑ سکی تھی۔
نمبرداریاں
جب حالات سنبھلے اور ہر گھر میں پیٹ بھر کے مگر سادہ روٹی ملنے لگی تو بڑے بوڑھے سر جوڑ کر بیٹھے اور جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہجوم کو اکٹھا کر کے ایک معاشرے کی بنیاد رکھی۔زیادہ تر لوگ غریب تھے، یا ہجرت کا دکھ جھیل کر آئے تھے، ان میں کوئی بھی رئیس نہیں تھا، سب کی حیثیت تقریباً یکساں اور ایک عام سے کاشتکار جیسی تھی اسی لیے وہاں کوئی بڑا چودھری، ملک یا راجہ تو نہ بن سکا، ہاں دل خوش رکھنے کو سارے ہی آپس میں ایک دوسرے کو چودھری کہہ لیا کرتے تھے۔ فیصلے برابری کی بنیادوں پر ہوتے تھے۔ اسی دوران سرکار نے ہر گاؤں سے سفید سروں والے اور نسبتاً کچھ زیادہ زمین رکھنے والے ایک دو بابوں کو ڈھونڈ کر گاؤں کا نمبردار بنا دیا، گھوڑی پال سکیم یا سرکاری سانڈھ رکھنے کی معمولی سی شرط پر ان کو حکومت کی طرف سے ساڑھے بارہ ایکڑ اضافی زمین بھی دی گئی۔ ایک خاص سوچ اور اپنے اختیارات کا تسلّط قائم رکھنے کے لیے نمبرداروں سے حکومت اور دیہاتی آبادی کے درمیان رابطے کا کام بھی لیا جاتا تھا۔ سرکار کے احکامات ان کے ذریعے ہی عام لوگوں تک پہنچائے جاتے۔ وہ مالیہ اور اجتماعی جرمانہ وغیرہ بھی اکٹھا کرتے اور حکومت کے خزانے میں جمع کروا دیتے، اس کے صلے میں خود ان کا اپنا ذاتی مالیہ معاف ہو جاتا تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔