بھرپور اور مکمل صحت، میری دسترس میں ہے اور میرے ذہن و بدن میں قانونِ توازن کارفرما ہے، خوبصورتی، دلکشی، محبت پیار، امن، سکون، طمانیت اور خوشحالی، میری مٹھی میں ہیں
مصنف: ڈاکٹر جوزف مرفی
مترجم: ریاض محمود انجم
قسط:25
میں نے اسے بتایا کہ وہ اپنی سوچ میں ایک عظیم اور اہم توجیہی اندازفکر یہ پیدا کرے کہ اس کے تحت الشعوری ذہن میں موجود لامحدود اور بے انتہا تخلیقی قوت و صلاحیت، اسے ذہنی، روحانی اور مادی خوشحالی کے ضمن میں رہنمائی مہیا کر رہی ہے اور پھر اس طور اس کا تحت الشعوری ذہن خودبخود اسے نہایت فہم و فراست کے ساتھ کاروبار کیلئے محفوظ سرمایہ کاری اور فیصلوں کے طرائق سے آگاہ کرے گا، نیز اس کے بدن کو بھی تمام امراض سے نجات دلا دے گا اور اس کے ذہن کو سکون و طمانیت میسر ہو جائے گی۔
اس پروفیسر نے اپنی مطلوبہ طرزِزندگی کا ایک مجموعی طریقہ کا روضع کیا اور اس کا سب سے اہم اور عظیم توجیہی بیان یہ تھا:
”مجھ میں موجود لامحدود اور بے انتہا تخلیقی قوت وصلاحیت، میری زندگی کے ہر پہلو میں مجھے رہنمائی مہیا کرتی ہے۔ بھرپور اور مکمل صحت، میری دسترس میں ہے اور میرے ذہن و بدن میں قانونِ توازن کارفرما ہے۔ خوبصورتی، دلکشی، محبت پیارا، امن، سکون، طمانیت اور خوشحالی، میری مٹھی میں ہیں۔ صحیح عملی قدم کااصول اور روحانی تقویم، میری زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مجھے خبر ہے کہ میرا توجیہی بیان زندگی کے ابدی سچ پر مبنی ہے اور میں یہ جانتا، محسوس کرتا ہوں کہ میرا تحت الشعوری ذہن، میرے شعوری ذہن کی سوچ کی نوعیت کے مطابق اپنا ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ پھر اس نے مجھے خیالات سے تحریری طور پر یوں آگاہ کیا۔
”میں نے مندرجہ بالا بیان، نہایت آہستگی، خاموشی اور محبت بھرے انداز میں یہ جانتے ہوئے دن میں کئی بار دہرایا کہ میرے یہ الفاظ میرے تحت الشعوری ذہن میں گہرے طور پر جذب ہوتے جا رہے ہیں، اور اس طور ان کا نتیجہ بھی ضرور ظاہر ہونا چاہیے۔ میں آپ سے ملاقات کا انتہائی مشکور ہوں اور میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میری زندگی کے تمام پہلوؤں میں بہتری کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں، یہ ایک نہایت ہی قابل عمل طریقہ ہے۔“
تحت الشعور بحث و مباحثہ میں نہیں الجھتا:
آپ کا تحت الشعوری ذہن نہایت ہی عقلمند اور عقل سلیم کا مالک ہے اور تمام سوالات کے جوابات سے باخبر ہے۔ یہ آپ کے ساتھ کسی دلیل بازی میں نہیں الجھتا اور نہ ہی آپ کی بات کو غلط ثابت کرتا ہے۔ مثال کے طور پر جب آپ یہ کہتے ہیں کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا تو آپ کا تحت الشعور یہ نہیں کہتا: ”تمہیں، مجھے یہ کام کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔“ بلکہ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ”میں اب بہت بوڑھا ہو چکا ہوں۔“،”میں یہ ذمہ داری پوری نہیں کر سکتا“ ”میں غلط مقام پرپیدا ہو گیا تھا“، ”میں کسی اچھے سیاستدان کو نہیں جانتا“ تو آپ اپنے تحت الشعوری ذہن میں یہ تمام منفی خیالات سمو رہے ہیں اور پھر تحت الشعوری ذہن بھی اسی کے مطابق جواب دیتا ہے۔ اس طریقے کے ذریعے دراصل آپ خود پر مایوسی، ناکامی،محرومی طاری کر کے اپنے خوشحالی کے راستے کو روک رہے ہیں۔
جب آپ اپنے شعوری ذہن میں رکاوٹیں، مشکلات اور تاخیری روئیے بوتے ہیں، تو اس طور، آپ اپنے تحت الشعوری ذہن میں موجود فہم و فراست اور تخلیقی صلاحیت سے انکار کرتے ہیں۔ اس ضمن میں دراصل آپ یہ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں کہ آپ کا تحت الشعور، آپ کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت و قدرت نہیں رکھتا۔ اس عمل کے ذریعے ذہنی و جذباتی الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں جس کے باعث جسمانی و اعصابی امراض جنم لے لیتے ہیں۔
اپنی خواہشات کو حقیقت کا روپ دینے اور اپنی مایوسی و پریشانی سے نجات حاصل کرنے کیلئے دن میں کئی بار ”مثبت انداز میں خود کو یقینی دہانی“ پر مشتمل بیان برملا انداز میں کئی دفعہ دہرایئے۔
”جس لامحدود اور بے انتہا تخلیقی صلاحیت نے میرے اندر یہ خواہش پیدا کی، وہ مجھے اپنی اس خواہش کے تکمیل کیلئے رہنمائی اور ایک مکمل طریقہ کار مہیا کرتی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے تحت الشعور میں موجود فہم وفراست اپنے اثرات ظاہر کر رہی ہے، اور جو کچھ میں اندرونی طور پر محسوس کر رہاہوں، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میری زندگی نہایت ہی معتدل اور متوازن ہو چکی ہے۔“
اگر آپ یہ کہتے ہیں:
”اب اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے، میں شکست خوردہ ہوں، اس بحرانی صورتحال سے نجات کیلئے کوئی راستہ نہیں ہے۔“(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)