سر مقتل بھی اپنا سر بلند رکھنے والی،محترمہ بے نظیر بھٹو شہید
دسمبر کا آخری ہفتہ سرد تو ہمیشہ ہی ہوتا ہے، مگرمحترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اب ہر سال یہ ہفتہ اپنے جلو میں بے پناہ سوگواری بھی لے کر آتا ہے۔امسال تو فضا میں انتخابات کی چاپ نے ماحول کو ان المناک لمحات سے زیادہ ہی مشابہہ کر دیا ہے، جب قوم کی عظیم بیٹی ملک بچانے کے لئے اپنی جان ہتھیلی پر سجائے عوام کے درمیان آخری بار موجود تھی۔ عوام دشمن قوتوں کی جانب سے اپنے سر پر منڈلاتے خطرے کے باوجود وہ عزم و ہمت کا پیکر بنی مقتل کی خون آشامی کو للکارتی رہیں ۔شاید وہ اس حقیقت سے آگاہ ہو چکی تھیں کہ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی اور عوامی حقوق کی بازیابی ان کی عظیم ترین قربانی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے والد چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی جلائی ہوئی شمع کو روشن رکھنے کی جدوجہد کا آغاز اس وقت کیا جب پاکستان کے عوام بدترین جبر، استبداد اور استحصال کے دور سے گزر رہے تھے۔ان نازک لمحات میں انہوں نے جمہوریت اور عوامی حقوق کی بحالی کے لئے تاریخی تحریک شروع کی ۔عوامی رہنما ہونے کی وجہ سے چیئرمین بھٹو شہید کو ان مسائل کا شدت سے ادراک تھا جو طویل دور آمریت کے باعث ملک کو درپیش تھے ۔شدید عالمی تنہائی سے نکالنا، توانائی کے بحران کا خاتمہ اور دفاعی اعتبار سے ملک کا ناقابلِ تسخیر ہونا ان کی اولین ترجیحات میں شامل تھا۔آج محترمہ بے نظیر بھٹوکی شہادت کے پانچ سال بعد بھی معےشت، ملکی سیاست، سماجی اور معاشرتی مسائل، بےن الاقوامی تعلقات اور سیاسی مفاہمت کے حوالے سے ان کا ویژن ہماری رہنمائی کرتا دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں آج سیاسی مفاہمت ، علاقائی تعاون اور دوستی کے فروغ کی باتیں ہو رہی ہیں۔جدید دور کے ان تمام تقاضوں کی ضرورت اور اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا اور ےقےنا آگے بڑھنے کا ےہی واحد راستہ ہے، تاہم ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے ہمےں ان تصورات سے اس وقت آگاہ کےا تھا، جب محاذ آرائی اور نہ ختم ہونے والی کشیدگی برقرار رکھنے کو ہی درپیش سیاسی اور بین الا قوامی مسائل کا واحد حل سمجھا جاتا تھا۔ یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ محترمہ بے نظےر بھٹو اور ان کا پورا خاندان مختلف آمرانہ اور نیم جمہوری ادوار میں بدترےن سےاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا رہا،تاہم ذاتی اور سیاسی زندگی میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود انہیں ملک کے عوام کا مفاد ہمیشہ عزیر رہا، جس کے باعث انہوں نے مفاہمت ، معاف کرنے اور آگے بڑھنے کا درس دےا۔ ان کے بدترےن سیاسی مخالفین بھی اس سےاسی بصےرت کی اہمےت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہےں اور خوش قسمتی سے محترمہ بینظیر بھٹو کی جانشےن سےاسی قےادت نے بھی انہی اصولوں کو مشعل راہ بناتے ہوئے تعمےر وطن کا راستہ اختےار کےا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی عظیم بےٹی اس امر سے بھی بخوبی آگاہ تھےں کہ پاکستان کے غرےب عوام کی خدمت اور حقےقی جمہورےت کی جدو جہد انتہائی کٹھن اور پُر خطر راستہ ہے،تاہم ملک کے غریب عوام سے بے پناہ پیار اور ان کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لئے انہوں نے اس پُر خطر میدان میں اترتے ہوئے جمہوریت اور عوامی حقوق کے لئے بے مثال جنگ لڑی۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اےک جانب ملک مےں وسےع تر سےاسی مفاہمت ، حقےقی جمہورےت اور عوامی حقوق کی بازےابی کی جنگ جاری رکھی تو دوسری جانب وہ پاکستان کی دفاعی ضرورےات کی تکمےل سے بھی غافل نہ رہےں اور اپنی بے مثال سفارتکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مختلف امور پر اقوام عالم سے پاکستان کے لئے سیاسی حمایت اور ”مورل سپورٹ“حاصل کرنے کے علاوہ پاکستان کو مےزائل ٹےکنالوجی سے لےس کےا، جو دفاعی اعتبار سے ملک کی ناگزےر ضرورت تھی۔
محترمہ بینظیر بھٹو کے پانچویں ےوم شہادت کے موقع پر پاکستان کے عوام اپنے جمہوری حقوق کی بازیابی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں اور اس حوالے سے پوری پاکستانی قوم ان کے احسانات کی زیر بار ہے اور اب یہ حقیقت عیاں ہوچکی ہے کہ انہوں نے مستقبل کی ڈیمانڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے انرجی کی پروڈکشن میں اضافے کے لئے کئی منصوبے شروع کئے جو اس وقت پاکستان کو تاریکی میں ڈوب جانے سے محفوظ بنائے ہوئے ہیں۔ محترمہ بے نظےر بھٹو نے توانائی کے حوالے سے ملک کو مستقبل میں درپیش چیلنجوں اور ضرورتوں کا ادراک آج سے کئی برس قبل ہی کر لےا تھا۔ایک قومی رہنما کے طور پر محترمہ بینظیر بھٹو اپنی سیاسی ذمہ دارےوں سے بخوبی آگاہ تھےں اور انہوں نے مخالفت برائے مخالفت کی پرواہ کئے بغےر پاکستان کی توانائی کی ضرورےات کی تکمےل کے لئے بےن الاقوامی معاہدے کئے اور آج پوری قوم ان سے مستفید ہو رہی ہے۔محترمہ بے نظےر بھٹو نے اےک اےسے پاکستان کے لئے اپنی جان کی قربانی دی، جس میں تمام شہرےوں کو بنےادی اور جمہوری حقوق حاصل ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ مَےں اس پر ےقےن رکھتی ہوں کہ پاکستان مےں عوامی حقوق کی پامالی کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہئے، کےونکہ پاکستان کے لوگ قائد اعظم کے خیالات پر ےقےن رکھتے ہےں۔پاکستان کے لوگ قائد عوام پر ےقےن رکھتے ہےں اور پاکستان کے عوام اور پاکستان کے صوبے اختےارات مےں شرکت چاہتے ہےں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاسی سوچ اور ان کا ویژن آج بھی وفاق پاکستان کی علامت ہے اور ےہ ان کی سےاسی بصےرت کا اعجاز ہے کہ صوبوں کوحقوق دیئے جا چکے ہیں اور متفقہ اےن اےف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو تعمیر و ترقی کے لئے وفاق کی طرف سے خطیر فنڈز مہیا کئے جارہے ہیں۔ ملک کی نصف آبادی، یعنی خواتےن کو ان کا مقا م اور حقوق دےنے کے لئے کئی اقدامات دےکھنے مےں آ رہے ہےں اور ہم سب آگاہ ہےں کہ ان حقوق کے لئے سب سے پہلے محترمہ بینظیر بھٹو نے آواز بلند کی اور اپنی وزارت عظمیٰ کے دونوں ادوار مےں انہوں نے اس حوالے سے واضح پیشرفت کا آغاز بھی کیا تھا۔
عالمی تاریخ میں صرف انہی ہستیوں کے نام سنہری حروف میں باقی رہتے ہیں، جنہوں نے تن ، من ، دھن اپنی قوم اور انسانےت کی خدمت کے لئے وقف کر دےا۔ محترمہ بینظیر بھٹو بھی ایسی ہی ایک عظیم ہستی اور پاکستان کے عوام کے لئے قدرت کی طرف سے بے مثال تحفہ تھیں، جنہوں نے اپنے ذاتی مفاد اور سکون و آرام کو اپنی قوم کے اجتماعی مفاد اور بہتر مستقبل کے لئے قربان کر دےا۔انہوں نے عوام کی طاقت اور اپنی جد و جہد اور سیاسی تدبر کی بدولت بے پناہ رکاوٹوں کے باوجود ایسے کار ہائے نما ےاں سر انجام دئےے، جنہوں نے حقیقی معنوں میں قوم کی تقدےر بدلنے کی بنیاد فراہم کی۔پاکستان کے حوالے سے محترمہ بے نظےر بھٹو شہیدکا شمار ہمےشہ ان عظےم رہنماو¿ں مےں کےا جاتا رہے گا ،جنہوں نے اپنا آج قوم کے روشن کل کے لئے قربان کر دےا۔
پاکستان کی تارےخ پر نگاہ دوڑائیں توقائد اعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو شہےد کی صورت مےں عوام کو اےک اےسی قےادت مےسر آئی، جس نے اےک بکھری ہوئی قوم مےں ولولہ¿ تازہ پےدا کےا۔عوام دشمن قوتوں کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو جےسی قےادت کو راستے سے ہٹائے جانے کے بعد ےہ اعزاز ان کی بےٹی محترمہ بے نظےر بھٹو شہےد کے حصے مےں آےا اور انہوں نے اپنے شہےد والد کی جلائی اس شمع کو روشن رکھا، جس کا مقصد ملک کے محروم طبقات کی تقدیربدلنا تھا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانی قوم آج بھی ان کی سیاسی جدوجہد کو اپنے لئے مشعل راہ تصور کرتی ہے اور ملکی عوام اپنے اس عزم کا بڑے فخر سے اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے افکار اور ان کے ویژن کی روشنی مےں ملک کو جدےد جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کا سفر جاری رکھا جائے گا ۔