جدوجہد، مشاورت اور جمہوریت کی علامت:بے نظیر بھٹو

جدوجہد، مشاورت اور جمہوریت کی علامت:بے نظیر بھٹو
 جدوجہد، مشاورت اور جمہوریت کی علامت:بے نظیر بھٹو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج پھر 27دسمبر ہے وہی دن جب 2007ء میں پورے ملک میں ایک سکتہ طاری ہو گیاتھا لوگ زار و قطار ر و رہے تھے کسی کو یقین نہیں آرہا تھا اور نہ کوئی یقین کر نے کو تیار تھا کہ کوئی ظالم سے ظالم بے نظیر بھٹو کو گولیا ں مار سکتاہے وہ تو ایسی نہیں تھیں کہ بموں اور گولیوں سے مار دیا جاتا ۔ اُس نے تو ہر شخص کے ساتھ اچھا سلوک کیا تھا زیادتی کرنے والوں کو نہ صرف معاف کیا،بلکہ اپنے ساتھ شامل کر لیا اس کے باوجود گولی انکا مقد ر کیوں بنا دی گئی؟


شیکسپیئر نے خوب اور بالکل درست کہا ہے کہ یہ دنیا ایک سٹیج کی مانند ہے ۔ جہاں آنے والا ہر شخص باقاعدہ ایک اسکرپٹ کے مطابق اپنا کردار ادا کر کے رخصت ہو جاتا ہے ۔ سیاست دان کے لئے دو مقامات بہت ہی اہم ہوتے ہیں سیاسی میدان میں آمد اور پھر وہاں سے رخصتی ، بہت سارے لوگ بڑی شان بان اور ڈھول دھماکے کے ساتھ میدان میں واردہوتے ہیں، لیکن اپنی Pace برقرار نہیں رکھ پاتے اور زلیل و رسوا ء ہو کر انہیں رخصت ہونا پڑتا ہے بے نظیر بھٹو کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ وہ بڑی شان و شوکت کے ساتھ سیاسی میدان میں داخل ہوئیں اور اسی طرح نہایت شان و شوکت، وقار اور فخر کے ساتھ سر بلند کیے چلی گئیں ۔ بے نظیر بھٹوکا دنیا کے اس اسٹیج پر آنا اور پھر چلے جانا شہزادے ، شہزادیوں اور پریوں کی داستان لگتا ہے ۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا منظر آنکھوں کے سامنے آتے ہی اسٹیج پہ رچائے گئے شیکسپیئر کے کسی ڈرامے کا گمان ہونے لگتا ہے ۔ چند لمحے پہلے عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں چاہنے والوں میں گھری ہوئی اور ہمیشہ کی طرح مسکراتے اور کھلکھلاتے چہرے کے ساتھ خوشی سے مخمور دونوں ہاتھ فضاء میں بلند کیے اپنے چاہنے والوں کے زبردست نعروں کا جواب دے رہی تھی اور کیسی بد قسمتی کہ دوسرے ہی لمحے منظر تبدیل ہو گیا ۔


والہانہ استقبال اور خوشی کی بجائے موت رقص کر رہی تھی ابھی ابھی کیا تھا اور ابھی ابھی کیا ہے ۔ جیسے بے نظیر بھٹو اس دنیا میں آئی ہی نہیں تھیں ۔ گولی چلنے اور بم دھماکے کے بعد ایک لمحہ قبل خوشی سے بھری ہوئی کھلکھلاتی بے نظیر بھٹو پلک جھپکتے ہی جس طور پر اور جس شان کے ساتھ اچانک، مگر محض جسمانی طور پر منظر سے غائب ہوئیں کہ ایسے لگا کہ گولی لگنے کے بعد نیچے گرنے کی بجائے قدرت نے اس عظیم مقدس شخصیت کو اوپر اٹھا لیا ہو ۔


بے نظیر بھٹو کی زندگی ، جدوجہد، کارنامے اور ملک و قوم کے لئے خدمات پر محیط ہے ۔ 1988ء اور 1993ء میں وزیراعظم بنیں ۔1998ء میں دبئی چلی گئیں اور د س سال بعد 18اکتوبر 2007ء کو وطن واپس آئیں تو بم دھماکوں نے انکا استقبال کیا ۔ تمام خطرات اور خدشات کو پس پشت ڈالے ہوئے انتخابی مہم جاری رکھی۔ جمہوریت ،قانون کی حکمرانی، عدل اور مُلک کی ترقی کے عزم کی تکمیل کے لئے وہ بے دھڑک باہر نکل آئیں، لیکن 27دسمبر2007ء کی شام روشنی کی یہ کرن بجھ گئی۔


مجھے 1996ء سے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور یہ سلسلہ ان کی زندگی کے آخری دن تک چلتا رہا ۔ ساتھیوں کے خیال کا عالم یہ تھا کہ1997ء اور 2002ء میں مخالفت کے باوجود صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا اور کہاکہ وہ ARDمیں پارٹی کے لئے کام کر رہا ہے اورمیڈیا کی ذمہ داری سنبھالی ہے میں اس کو کیسے نظر انداز کر سکتی ہوں البتہ اگر وہ سینٹر بننا چاہتا ہے تو اس سے بات کر لیں۔میاں مصباح الرحمن زبردست انسان ہیں اور دوستوں کے دوست، لیکن گروپنگ کی وجہ سے ہم نے انکی نہ سنی ۔ بے نظیر بھٹو اپنے ساتھیوں کا بہت خیال کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ نشست ہارنا قبول ہے لیکن ساتھی کو مایوس کرنا نہیں ۔


ساتھیوں کا خیال اور بہت عزت کرتی تھی ۔ جب ہم لوگ نواب زادہ نصر اللہ خان اور سہیل وڑائچ کے ساتھ لند ن گئے تو انہوں نے پارٹی کے لوگوں کو کہہ کر دعوتوں کا اہتمام کرایا ۔2006ء کو نیویارک میں انہوں نے میری بیٹی سائرہ خان کی منگنی پر مبارک باد کے لئے ہوٹل میں دعوت دی، جس میں دوسری بیٹی رائما خان بھی شریک ہوئیں۔ بیٹیوں کو تحفے دئیے اور ڈھیر ساری دعائیں بھی ۔


بے نظیر بھٹو کے مخالفین کہتے تھے کہ بے نظیر کسی کی نہیں سنتی اور مجھے جب ان کے قریب ہونے کو موقع ملا تو میں حیران ہو گیا کہ وہ تو مشاورات پر سب سے زیادہ یقین رکھتی ہیں ۔ 1997ء میں بے نظیر بھٹو نے ایک کونسل بنانے کا فیصلہ کیا، جس میں پارٹی کے سینئر لوگوں کو شامل کیا تاکہ ان سے مشاورت اور تجربات سے فائدہ اٹھا یا جا سکے انہوں نے کونسل کا نام رکھنے کے لئے میرے سمیت بہت سارے پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کی اور پھر اس کا نام فیڈرل کونسل رکھا جس کے سیکرٹری جنرل خالد احمد کھرل بنائے ۔ بد قسمتی سے ان کی شہادت کے بعد پارٹی کی قیادت سنبھالنے والوں نے فیڈرل کونسل کا اجلاس بلانا بھی گوارہ نہیں کیا ۔ شائد انہیں مشاورت قبول نہیں تھی۔ بے نظیر بھٹو نے ہر سطح پر ایسی کمیٹیاں بنائیں تھیں، جن کی مشاورت سے وہ پارٹی چلاتی اور پالیسی بناتی تھیں۔ فارن لائزن کمیٹی سفارت کاروں سے رابطہ کے لئے بنائی ۔


راؤ سکند ر اقبال اپنی بیماری کے باعث پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے پاتے تھے ۔ محترمہ نے ان کو ہٹانے کی بجائے لاہور رابطہ کمیٹی بنا دی، جس میں پنجاب کے صدر اور سیکرٹری جنرل سمیت اہم رہنماؤں کو شامل کر دیا۔خالد کھرل کو اسکا کوارڈینیٹر اور مجھے سیکرٹری کے فرائض دئیے گئے لاہور کے صدر کی جگہ خالی ہوئی تو کہا گیا کہ نام تجویز کریں کمیٹی نے عزیز الرحمن چن کا مشورہ دیا تو بے نظیر بھٹو نے فوراً نامزدگی کا اعلان کر دیا جنرل مشرف کے دور میں نے محترمہ کو مشورہ دیا کہ لاہور کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے لئے 8ماہ قبل ضلعی ناظم کے امیدوار کا اعلان کر دینا چاہئے تاکہ وہ ہمارے امیدوارں کی الیکشن مہم چلا سکے۔ میرا مشورہ قبول کر کے انہوں نے عزیز الرحمن چن کو ضلعی ناظم کا امیدوار ڈکلیئر کر دیا ۔ مشاورت کا عالم یہ تھا کہ 1997ء کے بعد محترمہ نے جب بھی لاہور کا دورہ کیا تو وہ اپنے پروگرامز کو تین حصوں میں تقسیم کرتی تھیں پارٹی کے لوگوں سے ملاقات، میڈیا سے رابطہ اور دانشوروں سے ملاقاتیں ۔ دانشوروں کے تین گروپ بنائے جاتے تھے، جن میں ریٹائرڈ بیورو کریٹ ،فوجی ، ججز اور وکلاء شامل تھے ۔


آج پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کی سوچ اور فلسفے سے بہت دور جا چکی ہے ۔ لیڈر شپ مشاورت پر یقین نہیں رکھتی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارٹی آکسجن ٹینٹ میں ہے ۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی بدولت ملنے والا پانچ سالہ اقتدار لوٹ مار کر نے میں گزر گیا بے نظیر بھٹو کی مفاہمت اور مشاورت پالیسی کی بجائے مفاد اور صرف مفاد کی پالیسی اختیار کی گئی۔ ذاتی دوستوں اور رشتہ داروں کو بڑے بڑے عہدے دئیے گئے، جس پارٹی کو زوالفقار علی بھٹو کے خون سے پروان چڑھایا گیا اور بے نظیر بھٹو کے خون سے توانا کیاگیا اس پارٹی کو بے حیثیت کر دیا گیا ہے ۔


کتنی شرمناک بات ہے کہ پیپلزپارٹی کو علاقائی پارٹی کہا جانے لگا ۔ یقیناًاس پر بے نظیر بھٹو کی روح تڑپ رہی ہو گی۔ بے نظیر بھٹو نے تو کہا تھا کہ ہم تو وفاق پر یقین رکھتے ہیں اسی لئے عوام بے نظیر بھٹو کو چاروں صوبوں کی زنجیر کہتے تھے ۔ پیپلز پارٹی تو اللہ کے سپردہو رہی ہے، لیکن بے نظیر بھٹو کی سوچ کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، جس طرح وہ مشاورت پر یقین رکھتی تھیں ۔اس سوچ کو تمام سیاسی پارٹیوں کی لیڈر شپ کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔ کوئی عقل کل نہیں ہوتا ۔ مشاورت سے مسائل حل ہوتے ہیں اور قومیں ترقی کرتی ہیں۔
مشاورت ہی جمہوریت کا دوسرا نام ہے ۔

مزید :

کالم -