بے نظیر بھٹو کیس
عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز حاصل کرنے والی دختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو کی آج آٹھویں برسی ہے۔27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والی شہیدسابق وزیراعظم کی آٹھویں برسی مناتے ہوئے اس امر کا شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ اتنی اہم شخصیت کے سفاکانہ اور بہیمانہ قتل کے اصل محرکات سے قوم ابھی تک بے خبر ہے۔ یہ کس قدر افسوسناک اور شرمناک پہلو ہے کہ آٹھ برس گزرنے کے بعد بھی ملک کی منتخب سابق وزیراعظم کا مقدمہ قتل تاحال عدالت میں زیر سماعت ہے۔ غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ آج تک اس ہائی پروفائل کیس کو یکسو ہی نہیں کیا جاسکا۔ بنیادی نکات کا تعین کیا جاسکا اور نہ ہی ملزموں پر جرح مکمل ہوسکی۔ جہاں تک اس کیس کے تفتیشی، تکنیکی اور قانونی پہلوؤں کا تعلق ہے تو آج ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سات سال پہلے موجود تھے۔ سال رواں (2015ء) کے دوران محترمہ شہید کے مقدمہ قتل میں صرف ایک ڈویلپمنٹ ضرورہوئی اور وہ یہ کہ امریکی صحافی مارک سیگل کا بطور گواہ بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرلیا گیا اور وہ بھی اس حوالے سے ادھورا ہے کہ آٹھ برس کے دوران محض بیان ریکارڈ کرکے ہم لمبی تان کر سوگئے ہیں اور غیر ملکی صحافی کے اس بیان پر جرح تک نہیں کی جاسکی۔ قانون شہادت کے مطابق جب تک گواہ پر ’’کراس ایگزامن‘‘ نہیں کیا جاتا اس کی شہادت کی کوئی اہمیت اور قانونی قدر و قیمت نہیں ہے۔ امریکی صحافی نے اپنے بیان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے اس ای میل کا تذکرہ کیا ہے جو انہوں نے اپنی پاکستان روانگی سے قبل مارک سیگل کو بھجوائی تھی اور اس میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ مجھے پاکستان کے اندر قتل کروایا جاسکتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کی تمام تر ذمہ داری اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف پر ہوگی۔ ویڈیو لنک پر دی گئی اپنی شہادت میں مارک سیگل نے اس ای میل کی تفصیلات بتائیں اور کہا کہ محترمہ سے میرا اس حوالے سے ٹیلیفونک رابطہ بھی ہوا تھا۔ اس دوران بھی مرحومہ نے اپنے خدشات سے مجھے آگاہ کیا۔
اس مقدمہ قتل کے حوالے سے سب سے مایوس کن اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار پانچ سال پورے کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی اپنے دور اقتدار میں بھی اپنی سربراہ کے مقدمہ قتل کو فیصلہ کن بنانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ پانچ سال کے دوران اس حوالے سے مصلحتیں آڑے آتی رہیں اور مقدمہ کے جو پہلو بآسانی سلجھائے جاسکتے تھے ان سے بھی دانستہ طور پر چشم پوشی کی گئی۔ اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے اور یہ جرم کس کے کھاتے میں رکھا جائے یہ ذرا مشکل کام ہے لیکن اس حقیقت کو جھٹلانا بھی آسان نہیں کہ پارٹی اپنے دور اقتدار میں بھی اپنی لیڈر کے قتل کی وجوہات جاننے میں بری طرح ناکام ہوگئی۔ مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانا تو کجا اس بنیادی امر کا بھی حتمی تعین نہیں کیا جاسکا کہ حملہ آوروں کے تانے بانے کہاں سے ملتے ہیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کرنے والے دہشت گردوں کے اصل پشت پناہ کون تھے اور اتنی قد آور شخصیت کو راستے سے ہٹانے کا حکم کس نے دیا تھا۔؟ محض یہ دعویٰ کرنے سے قوم کو اطمینان نہیں دلایا جا سکتا کہ بی بی کے تمام قاتل پکڑ لئے گئے ہیں بیت اللہ محسود گروپ کا کام تھا ملزمان پولیس مقابلے یا آپریشن کے دوران مارے گئے۔ اس بارے میں حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کے مختلف پہلوؤں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کیس میں ابھی تک کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوسکی اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے قانون شہادت کے مطابق مطلوبہ ثبوت بھی صفحہ مثل پر مناسب انداز میں تحریر نہیں کیے جاسکے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے بلاول ہاؤس کراچی میں اپنی پارٹی کے شریک سربراہ اور سابق صدر آصف علی زرداری کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر ایک میں جو کیس زیر سماعت ہے اس میں پراسیکیوشن نے جنرل پرویز مشرف، ڈی آئی جی سید سعود عزیز، ایس پی خرم شہزاد سمیت آٹھ نامزد ملزموں کو پانچ جنوری 2013ء کو طلب کیا تھا جبکہ بے نظیر بھٹو شہید کے دوست امریکی صحافی مارک سیگل کو بھی بطور گواہ جرح کیلئے طلب کیا گیا۔ سابق وزیر داخلہ نے بلاول بھٹو کو دوران بریفنگ یہ بھی آگاہ کیا تھاکہ ایف آئی اے کے دو افسران گزشتہ سال بے نظیر قتل کیس کے حوالے سے امریکہ گئے تھے جہاں انہوں نے مارک سیگل کا بیان قلمبند کیا۔ دوران بریفنگ ایک نیا انکشاف یہ کیا گیا کہ تفتیش میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ملزموں کا ایک اور ساتھی موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا، جس کا جہادی نام فسکٹ تھا وہ وزیرستان کا رہنے والا ہے۔ عمر 20 سے 25 سال کے درمیان جسم دبلا پتلا اور پھرتیلا ہے۔ داڑھی بڑھی ہوئی، بال سنہرے اور خاصے بڑے ہیں۔ اس ملزم کو بھی پولیس نے اشتہاری مجرم قرار دے دیا ہے۔ اب تفتیشی ٹیم اس کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ فسکٹ کا اصل نام تو مقدمے کی مثل میں شامل نہیں، لیکن اسے موقع کا ملزم ظاہر کیا گیا ہے۔ سانحہ کے وقت لیاقت باغ میں تیار کی جانے والی فوٹیج میں بھی یہ شخص واضح دکھائی دے رہا ہے جبکہ گرفتار ملزم ڈیرہ اسماعیل خان کے شیر زمان نے اپنے بیان میں اس کے بارے میں انکشاف بھی کیا ہے۔ سابق وزیر داخلہ نے پارٹی چیئرمین کو بتایا کہ اس وقت صورتحال یوں ہے کہ قتل کا ماسٹر مائنڈ بیت اللہ محسود شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے کے دوران مارا گیا جبکہ لیاقت باغ سے فرار ہونے والا ملزم اکرام اللہ ایک چیک پوسٹ پر پاک فوج کے ہاتھوں ہلاک ہوگیا۔ سعید عرف بلال اور عبداللہ خود کش حملے میں ہلاک ہوئے ملزموں کو خودکش جیکٹیں فراہم کرنے والا اکوڑہ خٹک کا عبدالرحمان، مانسہرہ کا اعتزاز شاہ، ڈیرہ اسماعیل خان کا شیر زمان اللہ، راولپنڈی کے حسنین گل، محمد رفاقت اور رشید احمد پولیس کے زیر حراست ہیں جو آج کل اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید ہیں۔
پاکستان کی سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کی پوری مثل کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سانحے کی تفتیش کو تقویت دینے اور پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے تین رپورٹوں کا سہارا لیا گیا ہے جن میں فرانزک ایکسپرٹس، بم بلاسٹ ایکسپرٹس اور ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹیں شامل ہیں۔ ان رپورٹس میں لیاقت باغ کے اندر اور باہر سے اٹھائی گئی تمام شہادتوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے اور ہر موضوع کو زیر بحث لاتے ہوئے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے جن میں کرائم سین بشمول واقعاتی شہادتیں موقعہ کی شہادتیں چشم دید گواہیاں و دیگر لوازمات اس کا حصہ ہیں۔
دوسری جانب یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ صوبائی سطح پر بننے والی دو اعلیٰ سطحی قومی اور ایک بین الاقوامی تفتیشی ٹیموں کے قیام اور پانچ مرتبہ چالان پیش کئے جانے کے باوجود دُخترِ جمہوریت کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا جاسکا۔ لیاقت باغ راولپنڈی کے بالمقابل ہونے والے سانحہ کے کرائم سین دھونے سے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف اور امریکی صحافی مارک سیگل کے بیانات ریکارڈ کئے جانے تک 8201 صفحات ضرور کالے کئے گئے، لیکن 27 دسمبر 2015ء تک ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں 24 جنوری 2008ء کو کھڑے تھے، جب محترمہ کی شہادت کے 28 روز بعداس مقدمہ قتل کی ابتدائی تفتیش کا آغاز کیا گیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ تفتیش راولپنڈی کی مقامی پولیس نے کی تھی۔ موقع کے جن پانچ ملزموں کو مرکزی مجرموں کے طور پر راولپنڈی پولیس نے نامزد کیا تھا اب تک وہی ملزم اصل کردار چلے آ رہے ہیں اگر اب تک ہونے والی تفتیش پر نگاہ ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دو خودکش حملہ آوروں سعید عرف بلال اور عبداللہ کے بارے میں تحریر کیا گیا ہے کہ وہ محترمہ پر حملے کے دوران کام آگئے، جبکہ تیسرا ملزم اکرام اللہ ایک چیک پوسٹ پر پاک فوج کے ہاتھوں مارا گیا۔ پنجاب حکومت کی طرف سے ایڈیشنل آئی جی چودھری مجید کی سربراہی میں قائم کردہ جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم اور وفاقی حکومت کی طرف سے گزشتہ سال ڈائریکٹر خالد قریشی کی سربراہی میں بنائی جانے والی ایف آئی اے کی ٹیم نے اپنی الگ الگ تفتیشوں میں لکھا ہے کہ محترمہ کو طالبان رہنما بیت اللہ محسود کے ایماء پر جہادی گروپ کے 8 رکنی گروہ نے قتل کیا‘ جس کی سازش سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے تیار کی تھی۔ یوں دونوں تفتیشی ٹیموں نے سابق فوجی صدر کو بے نظیر بھٹو کیس میں اعانت جرم کا ملزم ٹھہرایا ہے۔ 2011ء میں ایف آئی اے کو مقدمے کی تفتیش سونپی گئی، جس پر یہ اعتراض بڑی شدومد سے سامنے آیا کہ گریڈ 20 کے ڈائریکٹر خالد قریشی کو تفتیشی ٹیم کا سربراہ بنایا گیا ہے جبکہ جے آئی ٹی کے سربراہ چودھری مجید ایڈیشنل آئی جی سطح کے گریڈ 21 کے افسر اس مقدمے کی تفتیش کرتے رہے ہیں۔ بہرحال 2011ء میں بے نظیر قتل کیس کی تفتیش کا ازسرنو آغاز کیا گیا۔ راولپنڈی پولیس نے جائے وقوعہ سے جو 133 شہادتیں اکٹھی کی تھیں، نئی تفتیشی ٹیم نے بھی انہیں ہی بنیاد بنایا تاہم کرائم سین دھوئے جانے کا ایک ایسا شوشہ چھوڑا گیا جسے قومی سطح پر مقبولیت تو حاصل ہوئی، لیکن یہ کوئی ٹھوس شکل اختیار نہ کرسکا اور کیس کی سماعت کے دوران انسداد دہشت گردی راولپنڈی کی عدالت نمبر ایک کے جج حبیب الرحمان کے روبرو موقف اختیار کیا گیا کہ ملک کے جس بھی حصے میں خودکش دھماکہ حملہ ہوا ہو، جو شارع عام پر ہو، وہاں کا کرائم سین میسر اور مطلوبہ شہادتیں اکٹھی کرنے کے بعد دھلوا دیا جاتا ہے۔ عدالت میں سانحۂ کارساز کراچی اور جنرل مشتاق کی ہلاکت والے سانحہ راولپنڈی کی نظیریں پیش کی گئیں جن میں ایک دو گھنٹے بعد کرائم سین کلیئر کردیا گیا تھا۔
ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم نے پہلے سے کی گئی تفتیش میں کوئی نیا اضافہ تو نہیں کیا البتہ دو سینئر پولیس افسروں سانحہ لیاقت باغ کے وقت تعینات سی پی او راولپنڈی ڈی آئی جی سید سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد وڑائچ کو گرفتار کرلیا، جن پر استغاثہ کوئی جرم تو ثابت نہ کرسکا، لیکن انہیں مقدمہ قتل میں نامزد کرکے ناقص سکیورٹی انتظامات اور حفاظتی اقدامات میں غفلت کا مورد الزام ٹھہرا کر پابند سلاسل کردیا گیا، لیکن بعد ازاں دونوں افسران کو سپریم کورٹ نے ضمانت پر رہا کردیا۔ ایک اور پیش رفت جو نئی تفتیشی ٹیم نے کی وہ گواہوں کی فہرست میں اضافہ ہے جو 72 سے بڑھ کر 160 ہوگئی۔
ایک ڈویلپمنٹ دو سال کے دوران یہ ضرور ہوئی ہے کہ مقدمہ قتل میں اعانت جرم کے ملزم سابق صدر پرویز مشرف واپس وطن آگئے اور انسداد دہشت گردی کی عدالت نے انہیں اشتہاری مجرم قرار دینے کی جو کارروائی کی تھی وہ ختم ہوگئی اور سابق صدر اس مقدمہ میں باقاعدہ شامل تفتیش ہوگئے۔ انہوں نے اپنے تحریری بیان میں صحت جرم سے انکار کیا ہے اور ان کے وکلاء کا کہنا ہے کہ سابق صدر محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں کسی طرح بھی Beneficiaryنہیں ہیں۔
ان آٹھ برسوں کے دوران سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اب تک کیس کی تفتیش یا ٹرائل کے اعتبار سے کوئی خاطر خواہ ڈویلپمنٹ نہیں ہوئی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دو تین سال مزید گزر گئے تو اس مقدمہ کو بھی چوری ڈکیتی اور معمولی نوعیت کے واقعات کے دیگر مقدمات کی طرح داخل دفتر سمجھا جائے گا۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا ٹرائل میں پیش ہونا یا اپنا بیان ریکارڈ کروانا کوئی بڑا معاملہ نہیں ہے کیونکہ ان کے خلاف کیس فائل میں کوئی بڑی شہادت موجود نہیں جو ان پر بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کی اعانت جرم کا الزام ثابت کرسکے۔ سابق صدر کے خلاف محض امریکی صحافی مارک سیگل کی ای میل یا ویڈیو لنک سٹیٹمنٹ ٹھوس ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کی جاسکتی۔ رہ گئی بات کرائم سین دھونے کی اور اس الزام کے تحت پکڑے جانے والے ڈی آئی جی پولیس سید سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کی تو وہ سپریم کورٹ کے حکم پر دو سال قبل ہی رہائی پاچکے ہیں۔ اب تو ان دونوں افسروں کو وفاقی حکومت میں باقاعدہ پوسٹنگ بھی مل گئی ہے۔ عدالت ان کے اس موقف کو بھی درست تسلیم کرچکی ہے کہ کرائم سین کا دھویا جانا کسی طور بھی مجرمانہ اقدام یا غفلت کے زمرے میں نہیں آتا، جہاں تک طالبان کے ایک گروہ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ محترمہ کی شہادت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس حوالے سے بھی استغاثہ کوئی معقول یا ٹھوس شواہد دوران ٹرائل فراہم کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوا۔ تین چار ملزمان ویسے بھی مبینہ طور پر مارے جاچکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مقدمہ کے مستقبل کا حساب لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے۔ 16 دسمبر 2014ء کو ہونے والے سانحہ پشاور کے بعد پھانسی کی سزا پر سے پابندی اٹھتے ہی یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اب محترمہ شہید کے بچے کھچے قاتل بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے، لیکن کیس فائل اتنی مضبوط اور جاندار دکھائی نہیں دے رہی۔
مقدمہ قتل کی فائل کا پیٹ بھرنے کی غرض سے بہت کچھ کیا گیا، لیکن تفتیش کو ٹھوس بنیاد فراہم کرنے اور کیس ٹرائیل کو استحکام دینے کی مطلوبہ ضروریات کو پورا کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کی گئی۔2015ء کے پورے سال کے دوران ٹرائل کورٹ میں 100کے لگ بھگ پیشیاں ضرور ہوئیں، لیکن مارک سیگل کے ویڈیو لنک بیان کی ریکارڈنگ کے سوا کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا جا سکا۔ بالخصوص پراسیکیوشن کے شعبہ کی کارکردگی نہایت مایوس کن دکھائی دی۔ دُنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص عدالتی تاریخ یہ ہے کہ مقدمہ کے ملزم فریق کی طرف سے تاخیری حربے استعمال کئے جاتے ہیں لیکن پراسیکیوشن مقدمہ کی فوری انجام دہی کے لئے سر توڑ کوشش کرتی ہے۔ بے نظیر بھٹو کیس میں حساب الٹا معلوم ہوتا ہے، جہاں پراسیکیوشن نے نہایت سست روی کا مظاہرہ کیا، بالخصوص2015ء میں جبکہ اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے اس مقدمہ کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کے احکامات جاری کئے گئے تھے، لیکن اس کے باوجود اس کیس کے پراسیکیوٹر چودھری اظہر انسداد دہشت گردی کی عدالت سے مہلت اور وقت طلب کرتے رہے۔ فاضل جج نے بھی اس بات کا کئی بار نوٹس لیا اور سرزنش کی کہ مطلوبہ ضروریات فوری مکمل کی جائیں، لیکن ایسا نہ ہو سکا،اعلیٰ عدالتوں کی بار بار ہدایات کے باوجود کیس روزانہ کی بنیاد پر نہ سنا جاسکا اور ایک ایک ہفتہ کی تاریخیں بھی پڑتی رہیں۔ سال2015ء میں دورانِ سماعت ایک اور اہم معاملہ جو سامنے آیا وہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف جن تین گواہوں کے بیانات استغاثہ کی طرف سے پیش کئے گئے تھے، گواہوں نے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے انکاری بیانات تحریری طور پر عدالت میں جمع کرواتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ہمارے یہ بیانات خود ساختہ ہیں۔ بریگیڈیئر چیمہ، سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ سیدکمال شاہ اور سابق سربراہ آئی بی بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے تردیدی بیانات سے بے نظیر قتل کیس شہادتوں کے اعتبار سے خاصا کمزور ہو گیا۔ سابق سیکرٹری داخلہ کمال شاہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مجھے سابق صدر مشرف نے بینظیر کے بارے میں کوئی ہدایات نہیں دی تھیں، مَیں نے صرف قانون کے تحت وہ کام کیا جو میرے فرائض میں شامل تھا۔ بریگیڈ(ر) اعجاز شاہ نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مَیں بولوں گا تو بھونچال آ جائے گا۔کوئی بھید نہیں رہے گا۔ بے بنیاد باتیں کی جا رہی ہیں، پراسیکیوشن کے کہنے پر عدالت نے اعجاز شاہ کی گواہی کو (Give up) کر دیا۔ یوں انہیں بطور گواہ بے نظیر قتل کیس میں شامل نہیں کیا جا سکا، حالانکہ اُن کا نام شاہدین کی فہرست (callender of witness)میں شامل تھا یہ کیلنڈر 160 گواہوں پر مشتمل ہے اور تمام کی گواہیاں ریکارڈ کی جا چکی ہیں، صرف مارک سیگل پر جرح ہونا باقی ہے۔اس کیلنڈر کے مطابق پراسیکیوشن نے ڈی آئی جی سید سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کے خلاف جو تین گواہ ایس پی اشفاق انور،ایس پی یاسین فاروق اور راولپنڈی جنرل ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر مصدق پیش کئے تھے، انہوں نے بھی اپنے حوالے سے فائل کردہ بیانات کی تردید کی اور کہا کہ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ27دسمبر2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی کے اندر اور باہر حفاظتی اقدامات مناسب نہیں تھے۔ وہاں بہترین سیکیورٹی سسٹم بنایا گیا تھا،اندرونی و بیرونی حصار بھی درست طور پر لگایا گیا تھا۔ ایس پی صاحبان کا بیان تھا کہ ڈی آئی جی سید سعود عزیز ہمیں وائرلیس پر احکامات بھی دیتے رہے اور وہ محترمہ کے پرنسپل سیکیورٹی سٹاف کو بھی اس امر سے روک رہے تھے کہ بے نظیر بھٹو کو گاڑی سے باہر نہ نکلنے دیں۔ میجر (ر) امتیاز نے موقف اختیار کیا کہ سی پی او راولپنڈی سید سعود عزیز نے محترمہ کے چیف سیکیورٹی افسر کو میری موجودگی میں کہا تھا کہ محترمہ کو باہر نکلنے سے منع کریں، کیونکہ سیکیورٹی خدشات موجود ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے باہر نکلیں اور گاڑی کی چھت سے سر بھی باہر نکالا۔
ٹرائل کورٹ میں ہونے والی سماعت، گواہوں کے بیانات اور تمام تر تفتیشی پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بے نظیر قتل کیس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے جان ہوتا جا رہا ہے۔ بالخصوص پراسیکیوشن کی سست روی اور تاخیری حربوں کے باعث اس ہائی پروفائل کیس کی اہمیت میں خاصی کمی آئی ہے اورا س کا سو فیصد فائدہ اصل ملزموں کو ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کیس میں موجود خامیوں کو دور کر کے اسے ٹھوس بنیادوں پر از سر نو استوار کیا جائے، مقدمہ کا نیا چالان پیش کرنے کے بجائے پانچویں چالان پر ہی اکتفا کیا جائے تاہم اسے بہتر پوزیشن میں لانے کے لئے ممتاز ماہرین قانون کی سربراہی میں ایک ٹیم تشکیل دی جانی چاہئے جو تمام امور کا جائزہ لے کر بے نظیر قتل کیس کو اس انداز سے مکمل کرے اصل قاتل اور ان کے سرپرست سزا سے بچ نہ پائیں۔