بے نظیر بھٹو کا مقدمہ قتل 8سال گزرنے کیے بعد بھی یکسو نہ ہو سکا
لاہور(نعیم مصطفےٰ سے) سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کا مقدمہ قتل 8سال گذرنے کے بعد بھی یکسو نہیں ہو سکا اور پراسیکیوشن کی نا اہلی اور مجرمانہ غفلت کے باعث بے جان ہوتا جا رہا ہے ۔سال رواں کے دوران صرف امریکی صحافی مارک سیگل کا ویڈیو لنک بیان ریکارڈ کیا جا سکا تاہم اس پر بھی جرح نہ ہو سکی جس وجہ سے وہ بھی ادھورا ہے اور قانون کی نظر میں اس کی کوئی وقعت نہیں ۔روزنامہ’’پاکستان‘‘ کی طرف سے اس حوالے سے حاصل کی جانے والی تفصیلات کے مطابق اب تک مجموعی طور پر بینظیر قتل کیس کی مثل میں 8201صفحات شامل کئے گئے ہیں جبکہ 160گواہان کے بیانات بھی ریکارڈ کر لئے گئے ہیں استغاثہ کی طرف سے کیلنڈر آف وٹنس (گواہوں کی فہرست) میں 160افراد ہی کے نام پیش کئے گئے تھے یوںیہ پاکستانی تاریخ کا واحد مقدمہ بن گیاہے جس میں سارے کے سارے گواہ بھگت چکے ہیں صرف آخری گواہ مارک سیگل پر جرح کیا جانا باقی ہے اور جب تک ان پر کراس ایگزامن نہیں ہوتا قانونی طور پر اسے مکمل گواہی تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔2015کے دوران ایک اہم معاملہ یہ بھی ہوا کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف پراسیکیوشن کی جانب سے جمع کروائے گئے 3گواہوں بریگیڈیئر چیمہ، سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ سید کمال شاہ اور سابق ڈی جی آئی بی بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے بیانات کی ان گواہان نے تردید کر دی ہے اور عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ہم سے یہ بیانات غلط طور پر منسوب کئے گئے ہیں ۔سابق سیکرٹری داخلہ کمال شاہ نے موقف اختیار کیا کہ میرے حوالے سے جمع کروایا گیا بیان بے بنیاد ہے مجھے اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے حوالے سے کوئی خاص ہدایات نہیں دی تھیں میں نے قانون کے مطابق محض ان کی سکیورٹی کے لئے وہی کام کیا تھا جو میرے فرائض میں شامل تھا ۔آئی بی کے سابق سربراہ اعجاز شاہ کا کہنا تھا کہ میں کچھ نہیں کہنا چاہتا میں بولوں گا تو کئی بھید کھلیں گے اور بہت کچھ سامنے آئے گا اس بیان کے بعد پراسیکیوشن نے عدالت سے استدعا کی کہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کا بیان شامل نہ کیا جائے جس پر انسداد دہشتگردی راولپنڈی کی عدالت نے اس بیان کو Give Upیعنی ترک کر دیا ۔بریگیڈیئر چیمہ نے بھی اپنے حوالے سے پہلے دیئے گئے بیان سے انکار کیا اور کہا کہ میں نے محترمہ کی ناقص سکیورٹی کے حوالے سے کوئی بیان کسی ایجنسی کو نہیں دیا ہے۔اس بارے میں ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف گواہوں کے بیانات سے انحراف کے بعد محترمہ کے قتل کیس میں پرویز مشرف پر اعانت جرم کا الزام خاصا کمزور پڑ گیا ہے اور ان پر دفعہ 109کے تحت کچھ ثابت کیا جانا مشکل ہو گا دوسری جانب سال رواں کے دوران مقدمے کے پراسیکیوٹر چوہدری اظہر ایڈووکیٹ عدالت سے خود مہلت طلب کرتے رہے اور یوں یہ ہائی پروفائل مقدمہ قتل غیر ضروری طوالت کا شکار ہوتا رہا جبکہ اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے مقدمہ کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کے کئی بار احکامات دیئے گئے لیکن پراسیکیوشن کی وجہ سے ایک ایک ہفتہ کی تاریخیں پڑتی رہیں یوں اس اعتبار سے بھی بے نظیر قتل کیس اپنی نوعیت کا منفرد مقدمہ رہا جس میں پراسیکیوشن کی طرف سے تاخیری حربے استعمال کئے گئے جبکہ عام معمول میں ملزم فریق تاریخی حربوں کا سہارا لیتا ہے ۔جہاں تک اس مقدمہ میں گرفتار کئے جانے والے راولپنڈی کے ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس ایس پی خرم شہزاد کے خلاف شامل کروائے گئے گواہان ایس پی اشفاق انور ، ایس پی یاسین فاروق اور ایم ایس راولپنڈی جنرل ہسپتال ڈاکٹر مصدق نے بھی ان بیانات سے انکار کیا جو پراسیکیوشن نے ان کے حوالے سے عدالت میں جمع کروائے تھے ان تینوں گواہان کا کہنا تھا کہ ہم نے سکیورٹی ناقص ہونے کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی بیان نہیں دیا۔ لیاقت باغ کے اندرونی اور بیرونی سکیورٹی کا حصار مکمل تھا اور محترمہ جلسے کے اختتام کے بعد صحیح طور پر واپس جا رہیں تھیں کہ انہوں نے خود سر باہر نکالا جبکہ پولیس حکام کی جانب سے واضح ہدایات دی گئی تھیں کہ محترمہ باہر نہ نکلیں۔جوڈیشل فائل کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ بے نظیر مقدمہ قتل کا ماسٹر مائنڈ بیت اللہ محسود شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے کے دوران مارا گیا جبکہ لیاقت باغ سے فرار ہونے والا ملزم اکرام اللہ ایک چیک پوسٹ پر پاک فوج کے ہاتھوں ہلاک ہوگیا۔ سعید عرف بلال اور عبداللہ خود کش حملے میں ہلاک ہوئے ملزموں کو خودکش جیکٹیں فراہم کرنے والا اکوڑہ خٹک کا عبدالرحمان، مانسہرہ کا اعتزاز شاہ، ڈیرہ اسماعیل خان کا شیر زمان اللہ، راولپنڈی کے حسنین گل، محمد رفاقت اور رشید احمد پولیس کے زیر حراست ہیں جو آج کل اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید ہیں۔ابھی 4روز قبل یعنی 23دسمبر 2015ء کو ہونے والی سماعت کے دوران انسداد دہشت گردی عدالت کے فاضل جج نے مقدمہ کو غیر ضروری طور پر طویل کرنے پر پراسیکیوشن کی سرزنش کی اور کہا کہ اب تک یہ کیس نتیجہ خیز ہو جانا چاہئے تھا لیکن پراسیکیوشن کی عدم دلچسپی اور غفلت اسے مکمل نہیں ہونے دے رہی ۔دوسری جانب مقدمہ کے 5مختلف چالان پیش کئے جانے کے باوجود مقدمہ قتل درجنوں خامیوں کا شکار ہے اور تکنیکی خرابیوں کی بناء پر اسے ماہرین قانون کمزور مقدمے سے تعبیر کر رہے ہیں جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ مقدمہ میں درج براہ راست یا اعانت جرم کے کسی ملزم کو سزا دلوانا آسان نہیں ہو گا اسی طرح محترمہ کے غم زدہ خاندان کے اقربا اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سرکردہ رہنما بھی اس کیس کی پیروی میں نا صرف یہ کہ سرگرم دکھائی نہیں دے رہے بلکہ ان کی دلچسپی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔