نواز شریف اورمودی کو سیاسی نقصان ہو سکتا ہے،بھارتی تجزیہ نگار
لندن (مانیٹرنگ ڈیسک)وزیرِ اعظم نریندرہ مودی کی جانب سے دورہ پاکستان کے بعد انھیں حزبِ اختلاف جماعتوں خصوصاً کانگرس کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے اچانک دورہ پاکستان کے حوالے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس دورے سے دونوں ملکوں میں غلط فہمیاں دور کرنے میں مدد ملے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ دورہ دونوں جانب کی سیاسی قیادت کے لیے سیاسی نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے۔بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس سے منسلک تجزیہ کار سی راجا موہن کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بین الاقوامی سفارتکاری اور سیاست ملکی سیاست سے کافی مختلف ہوتی ہے اور اس میں آپ کو دلیرانہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔سی راجا موہن کے مطابق کچھ لوگ کہتے ہیں ان چیزوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور حالات ایسے دوروں سے بہتر نہیں ہوسکتے ’لیکن میرا ماننا ہے مودی نے ایک مثبت قدم اٹھایا ہے اور اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔‘مختصر نوٹس پر مودی کے دورہ پاکستان کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے رابطوں میں اضافہ ہونا چاہیے اور رابطوں کا فقدان بھی باہمی تعلقات میں ابتری کا باعث بنتا ہے۔’اگر ہم دیکھیں تو اب تک کسی بھی بھارتی وزیراعظم کا پاکستان کا یہ صرف آٹھواں دورہ ہے اور ضروری ہے کہ اس طرح کے دورے تاریخی نہیں بلکہ معمول کا حصہ ہونے چاہیں۔مودی نے جس طرح مختصر نوٹس پر پاکستان کا دورہ کیا ہے ہمیں اسی طرح کی غیر رسمی سفارتکاری کی ضرورت ہے۔‘مودی کے لیے سب سے بڑہ خطرہ یہ ہے کہ اگر کوئی واقعہ (دہشت گردی کا) ہوگیا تو ان کے لیے اپنا دفاع کرنا مشکل ہو جائے گاکانگریس ماضی میں خود پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے اور امن کی خواہاں رہی ہے۔ اچانک کانگریس کے رویے میں تبدیلی کے حوالے سے دہلی میں قائم وِوکنڈا انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے سینیئر فیلو اور سیاسی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار سوشانت سِریِن کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کانگریس اور دیگر جماعتوں کی جانب سے کی جانے والی تنقید کے پیچھے ان کی سیاسی مجبوریاں ہیں۔
’کانگریس وہی سیاست کھیل رہی ہے جس طریقے کی بی جے پی والے کھیلتے تھے جب وہ اپوزیشن میں تھے۔‘سوشانت سِریِن کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ایک دورے کے بعد تہلکہ مچا دیا جاتا ہے یہ امید کرنا کہ ایک دورے کے بعد تمام مسائل حل ہو جائیں گے دورست نہ ہوگا۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سوشانت کا مزید کہنا تھا کہ مودی کو دائیں بازو کے لوگوں سے مخالفت کا سامنا نہیں ہے کیونکہ انتہا پسندوں کی اکثریت ان کی حمایتی ہے۔لیکن ان کو حکومتی افسران کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا سکتا ہے۔سوشانت سِریِن کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ یہ قدم اٹھا کر وزیرِ اعظم مودی نے بڑا خطرہ مول لیا ہے لیکن اگر حالات بہتری کا جانب جاتے ہیں تو اس ان کا کافی سیاسی فائدہ بھی پہنچے گا