بھارتی وزریر اعظم کے دورہ پاکستان سے زیادہ امید یں نہ رکھی جائیں ،جنرل (ر)فیض علی چشتی
لاہور (محمد نصیر الحق ہاشمی تصاویر عمر شریف) بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا دورہ پاکستان اچانک نہیں تھا،ایسے پروگرام سوچ سمجھ کر بنائے جاتے ہیں،یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ اچانک ایک ایسے ملک کا دورہ کریں جس سے آپ کے اختلافات بھی ہوں اور آپ کے ساتھ 120رکنی وفد بھی ہو،پہلے کہا گیا کہ ملاقات ایئرپورٹ پر ہوگی اور پھر وہ ہوائی جہاز سے اتر کر فوراً ہی ہیلی کاپٹر میں بیٹھ جاتے ہیں۔یہ ظاہر کرتا ہے کہ پروگرام پہلے سے طے شدہ تھا جیسے اچانکک دورہ کا نام دیا گیا،ان خیالات کا اظہار معروف عسکری ماہر اور تعمیر پاکستان پارٹی کے صدر لیفٹینٹ جنرل (ر) فیض علی چشتی نے روزنامہ’’پاکستان‘‘کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیا،جنرل فیض علی چشتی نے سوال کیا کہ دورہ اگر اچانک تھا تو کیا ڈیڑھ دو سو بندوں کا کھانا چندگھنٹوں میں تیا ر کیا جا سکتاہے اور وہ بھی ایسا کھانا کہ جس میں کئی ڈشزاور لوازمات ہوں۔جنرل فیض علی چشتی کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم کا دورہ پاکستان اچھی بات ہے لیکن ہمیں اس دورہ سے زیادہ امیدیں نہیں باندھنی چاہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ آیا ان کے دورہ سے ملک اور قوم کا کیا فائدہ ہوگا۔بات دراصل یہ ہے کہ بھارت کو پاکستان اپنی تجارت کے لئے افغانستان اور وسطی ریاستوں تک جانے کے لئے راہداری چاہیے۔اس لئے یہ سب کیا جا رہا ہے۔اب دیکھنا یہ کے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور بھارت کے ساتھ دیگر متنازعہ امور طے ہوجاتے ہیں تو پھر تو آپ کو بھارت کی بات مان لینی چاہیے لیکن اگر بھارت ہی آپ سے اپنی باتیں منواتا رہے اور آپ کو کچھ نہ ملے تو اس کا کیا فائدہ۔۔۔؟ ہمیں کھل کر بھارت سے بات کرنی چاہیے،بالخصوص مسئلہ کشمیر جیسے مَیں جموں کشمیر کہوں گا کیونکہ اصل ریاست جموں کشمیر ہی ہے اس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل ہونا ہے۔اس کے لئے بھارت سے دو ٹوک بات کی جائے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر سے اور پاکستان آزاد کشمیر سے اپنی فوجیں واپس دیکھیں جموں و کشمیر،کشمیریوں کا ہے پروہ کشمیری جو پاکستان اور انڈیا سمیت دنیا کے جس ملک میں بھی رہتا ہے،اسے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور صرف کشمیریوں کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ کشمیر کا فیصلہ استواب رائے کے ذریعے کریں،جو کشمیر یوں کا فیصلہ ہو،پاکستان اور بھارت کو اسے قبول کرنا چاہیے ،جنرل فیض علی چشتی کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے جب بھی مذاکرات ہوئے دونوں نے کشمیر کی تو ضرور کی لیکن بھارت نے آزاد کشمیر کی بات کی اس کا کہنا ہے کہ پاکستان نے قبضہ کیا ہوا ہے،جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے،دیکھیں کشمیر کا مسئلہ قیام پاکستان سے پہلے کا ہے 13جولائی 1947ء کو کشمیر عوام نے وہاں کے راجہ کے خلاف علم بغاوت کے بلند کیا اور اس وقت کشمیر کو غاصب راجہ سے آزاد کرانے کے لئے آزاد کشمیر رجمنٹ کی بنیاد رکھی گئی،آزاد کشمیر رجمنٹ کشمیریوں کی رجمنٹ ہے،اس کی تشکیل میں پاکستان کا کوئی حصہ نہیں ہے کیونکہ پاکستان جب 1947ء میں آزاد ہوا تھا تو اس وقت پاکستان اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ اپنی فوج تشکیل دیتا یہ کہ آزاد کشمیر رجمنٹ بنائی جاتی،لہٰذا حکومت پاکستان کو چاہیے کہ بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام متنازعہ امور پر دو ٹوک اور فیصلہ کن مذکرات کئے جائیں،اس کے بعد ہی بھارت کی وہ باتیں مانی جائیں جس میں اس کو فائدہ ہے۔