کراچی میں احتجاج کرنے والے اساتذہ پر تشدد
کراچی میں پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کرنے والے اساتذہ پر پولیس نے بدترین لاٹھی چارج کیا، آنسو گیس کی شیلنگ کے ساتھ ساتھ واٹر کینن کا بھی استعمال ہوا۔ پولیس ایکشن کے نتیجے میں متعدد اساتذہ(لیڈی ٹیچرز سمیت) زخمی ہوئے جبکہ چھ اساتذہ آنسو گیس اور تشدد سے بے ہوش ہوگئے۔ پولیس نے چالیس سے زائد مظاہرین کو گرفتار کرلیا، جنہیں بعد میں ’’اوپر سے‘‘ ہدایات ملنے پر رات گئے رہا کردیا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ قائد اعظم کے یومِ ولادت کے موقع پر ہوا۔ پولیس ایکشن کا شکار ہونے والے این ٹی ایس ٹیسٹ پاس کرنے والے اساتذہ نے کراچی پریس کلب کے باہر اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجی مظاہرے کا اعلان کررکھا تھا۔ جب محکمہ تعلیم کی طرف سے کوئی بھی نمائندہ اساتذہ سے مذاکرات کے لئے نہ پہنچا تو انہوں نے ریڈ زون میں داخل ہو کر وزیر اعلیٰ ہاؤس کی طرف جانے کی کوشش کی، اس راستے کو انتظامیہ نے بند کررکھا تھا چنانچہ پولیس ایکشن شروع ہوگیا۔ آنسو گیس اور واٹر کینن کے استعمال کے بعد لاٹھی چارج بھی کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرے میں خواتین اساتذہ بھی کافی تعداد میں موجود تھیں، انہیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مظاہرین شور مچاتے رہے کہ اُن کے مطالبات جائز ہیں، قائد اعظم کی سالگرہ کے موقع پر ہمیں تشدد کا نشانہ تو نہ بناؤ۔ پولیس نے چالیس سے زائد مظاہرین کو گرفتار کرکے تھانوں میں پہنچا دیا۔ این ٹی ایس ٹیسٹ پاس کرنے والے اساتذہ کے مطالبات پر کئی مرتبہ مذاکرات ہوچکے ہیں لیکن اُن کے مطالبات پورے کرنے کا وعدہ پورا نہیں ہوسکا۔ احتجاجی اساتذہ کا مطالبہ ہے کہ این ٹی ایس ٹیسٹ پاس کرنے والوں کو مستقل کیا جائے۔ ریٹائر منٹ پر بیٹوں کی بھرتی کا کوٹہ بحال کیا جائے۔ ٹائم سکیل کی پابندی کی جائے۔ اساتذہ نے اس بات پر بھی احتجاج کیا کہ اُن کے مرکزی قائدین کو وزیر اعلیٰ سے مذاکرات کے بہانے بلا کر سیکرٹری تعلیم کے سامنے بٹھا دیا گیا۔ جس پرانہوں نے صرف وزیر اعلیٰ ہی سے بات چیت پر زور دیا تو انہیں گرفتار کرلیا گیا اور احتجاج کرنے والے اساتذہ پر بدترین پویس ایکشن کیا گیا۔ دو لیڈی ٹیچرز کو بھی حراست میں لے کر تھانے بھجوا دیا گیا۔ بابائے قوم کی سالگرہ کے موقع پر اِس قسم کا مظاہرہ اور اس کے جواب میں شدید پولیس ایکشن انتہائی افسوسناک ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اساتذہ ہوں یا کسی دوسرے محکمے کے ملازمین، اُن کے جائز مطالبات کو پورا کرنے کی بجائے حیلوں بہانوں سے التوا میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ حکومتی سطح پر ایسی حکمت عملی ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔ اساتذہ کے احترام اور مقام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اُن پر تشدد سے گریز کرنا چاہئے تھا۔ لیکن یہ بات مشاہدے میں آرہی ہے کہ جب بھی اساتذہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے احتجاج کرتے ہیں اُن سے بُرا سلوک کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اُن کے مطالبات کو التواء میں کیوں رکھا جاتا ہے جو وعدے کئے جاتے ہیں، وہ پورے کیوں نہیں کئے جاتے؟ وزیر اعلیٰ سے مذاکرات کی دعوت دے کر سیکرٹری تعلیم کے ساتھ بات چیت پر زور کیوں دیا گیا؟