ہم نے یورپ کے براعظم میں کبھی لاکھوں کا مجمع نہیں دیکھا۔ خیر آبادی بھی اتنی زیادہ نہیں ہے۔ ہزاروں کا بھی نہیں دیکھا ۔ ہماری خواہش رہی کہ کبھی کسی سیاسی لیڈر کو گلا پھاڑتے دیکھیں۔ مکے لہراتے ہوئے دیکھیں۔ پتہ نہیں یہ یورپین لیڈروں میں جوش اور جذبہ کیوں نظر نہیں آتا؟ انکی آواز میں گرج بھی نہیں دیکھی۔ غصہ یا طیش بھی نہیں دیکھا۔ مجھے تو کہیں نظر نہیں آیا۔ جلسے بھی نظر نہیں آتے۔ مانا کہ موسم ہارڈ ہے ۔ لیکن پھر بھی موسم گرما میں اچھا خاصہ ماحول ممکن ہے۔
امریکہ کی الیکشن مہم کے دوران کبھی کبھار امریکی لیڈر جوش دلا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن انکی باتوں میں دلیل حاوی ہوتی ہے۔ خیر دنیا بھر کے یہی لیڈر جب بین الاقوامی سمٹس میں ملتے ہیں تو اکثر تقریر دیکھ کر پڑھتے ہیں اور جو دیکھ کر نہیں پڑھتے وہ بہت سوچ سمجھ کر بولتے ہیں۔ اصل میں ان کا سارا کچھ ریکارڈ ہورہا ہوتا ہے۔ باڈی لینگویج ، لفظ ، لہجہ اور تقریر کا متن۔ جب یہ سارا کچھ ریکارڈ ہورہا ہو تو ایک ایک بات تول تول کر کرنا ہوتی ہوہے۔
جب سیاستدان بہت چیخ چیخ کر تقریر کرتے ہیں۔ تو انکی تقریر میں زور دینا مقصد ہوتا ہے۔اب یہ تو نہیں کہ سامنے موجود لوگوں کی پچھلی صفوں تک بات پہنچانا چاہتے ہوتے ہیں۔ یہ کام تو لاوڈ سپیکر کرتا ہے۔ یا سیاستدان موصوف اپنے غصے یا خفت کا اظہار کررہے ہوتے ہیں۔ یا تو پھر اپنی کمٹمنٹ کا اعتبار کروانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔جو بھی ہے جوشیلے سیاستدان دنیا کے کچھ خطوں میں مقبول مانے جاتے ہیں۔ حالانکہ جوش اور ہوش کا آپس کا تعلق دلچسپ ہے۔ جوش میں لوگ اکثر ہوش نہیں کھو دیتے کیا؟ہمیں یاد پڑتا ہے شروع شروع میں راقم نے ایک تقریر کی اور کافی تیز اور زور دار آواز میں بولنے کی کوشش کی۔چونکہ راقم کا ناقص خیال تھا کہ اچھا مقرر ہوتا ہی شعلہ بیان ہے۔البتہ مجھے اس بات کا احساس تھا کہ میری تقریر جن لوگوں کے لیے میں نے کی وہ ان کے لیے نہیں تھی۔ اسے دانشمندی تو نہیں کہہ سکتے۔ لیکن کوئی پرواہ بھی نہیں تھی۔ میری کلاس میرے ایک بہت سینئر ساتھی نے میری کلاس کچھ یوں لی کہ بیٹا پتہ ہے ان ملکوں میں تقریر کے دوران چیختا ضروری نہیں ہوتا۔ بلکہ غیر ضروری ہے۔ مقرر کی بات میں جو دلیل ہے اصل میں اس میں زور ہوتا ہے۔ میرے بزرگ دوست کی بات میں بڑی دلیل تھی۔ جو پھر مجھے کبھی نہیں بھولی۔
آپ کو یقین نہیں اآے گا کہ سیاستدان کا غیر جذباتی ہونا کتنا اہم ہے۔ اگر جوش اور غصے میں کوئی فیصلہ کرے گا تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ جتنے لوگوں کے موصوف لیڈر ہیں ہوسکتا ہے جوش یا غصے کی حالت میں انکو غلط راستے پر ڈال دیں۔ویسا لیڈرشپ نے وہ فیصلے کرنے ہوتے ہیں جو باقی نہیں کرسکتے۔ لیڈرشپ نے پالیسی دینی ہوتی ہے۔ بعض اوقات لیڈر شپ نے جارحانہ فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ اور بعض اوقات تو رسکی فیصلے لینا پڑتے ہیں۔ ایک غصیلہ اور جذباتی آدمی ان کاموں میں سے کتنے کام درست طور پر کرسکتا ہے؟
سیاست پچیدہ سبجیکٹ ہے۔ آپ نے سیاسیات میں پی۔ایچ۔ڈی بھی کررکھی ہو تو کوئی گارنٹی نہیں کہ آپ ایک مانے ہوئے سیاستدان بن جائیں۔ ہوسکتا ہے ایک ایسے سیاستدان سے مات کھا جائیں جس نے سیاسیات پڑھی ہی نہیں۔ تو کیا سیاستدان پیدا ہوتے ہیں یا وقت اور حالات انہیں سیاست میں لے آتے ہیں؟ سیاست ہے بہت اہم سبجیکٹ۔ آپ کو سیاست سے بالکل دلچسپی نہ سہی لیکن آپ کو اس بات سے دلچسپی تو ہے کہ جس ملک یا سٹیٹ میں آپ رہتے ہیں ۔ اس ملک کے بجٹ ، اس ملک کے خزانے میں آپ کا حصہ ہے۔ اس کے ترقیاتی فنڈز میں آپ کا حصہ ہے۔ یا آپ کا سٹیک ہے۔ اس ملک یا سٹیٹ کے شہری ہونے پر آپ پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ آپ قائدے اور قوانین ، اور مخصوص ضابطہ اخلاق کے پابند ہیں۔ اور سیاستدان یا آپکے منتخب نمائندے اس ساری باتوں میں ردوبدل کرنے کے مزاج ہوتے ہیں۔ تو کیا آپ کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں یا جو کچھ یہ کرتے ہیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں ؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ آپ کو سیاست سے دلچسپی کیسے نہیں ہے؟ پھر تو آپ سیاست کے غلط معانی لے رہے ہیں۔سیاست بہت اہم اور سنجیدہ فیلڈہے۔ آپکی سیاست میں دلچسپی آپکی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔
چند ماہ پہلے امریکی مڈ ٹرم الیکشن مہم کے دوران سابق صدر اوبامہ نے موجود صدر ٹرمپ کے خلاف دھواں دھار تقریر کی۔ صدر اوبامہ نے حاضرین سے کہا کہ کیا میری طرح آپ بھی پریشان ہیں کہ ملک غلط ڈگر پر جارہا ہے؟ جس جمہوریت اور سیاسی اقدار کو امریکی عوام نے عشروں کی محنت اور کاوش سے مضبوط بنایا، اسے خطرہ لاحق ہے۔ کیا آپ پریشان نہیں ہیں کہ کیا ہورہا ہے۔ یہ تبدیلی آپ کے ہاتھ میں ہے۔ مایوسی گناہ ہے۔ یہ تبدیلی آپ ووٹ کے ذریعے لا سکتے ہیں۔ یہ تبدیلی آپ سیاسی عمل میں شمولیت سے لاسکتے ہیں۔َ آئیے ووٹ دیں ۔ اپنا جمہوری فرض ادا کریں۔ آئیے سیاسی عمل میں اپنا حصہ ڈالیں۔
پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا ہے سیاست اور سیاستدانوں کو سمجھنا بہت مشکل کام ہے۔ اور صرف سیاست دان ہی سیاستدانوں کو سمجھتے ہیں۔ عوام کبھی نہیں سمجھ پاتے۔ اور یہ بات ترقی پذیر ممالک تک محدود نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی عام لوگ بھولے ہوتے ہیں۔ سیاستدانوں میں اصل میں آپس میں مفادات اور پاور اور اقتدار کی جنگ چل رہی ہوتی ہے۔ اور وہ صرف ایک دوسرے سے مات کھاتے ہیں۔عوام بے چاری ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ کچھ بعید نہیں کہ یہ بھی ہماری ناسمجھی یا غلط فہمی ہی ہو۔ سیاست ہے تو پیچیدہ سبجیکٹ۔ اللہ ہمارا حامی اور ناصر ہو۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔