بے نظیر بھٹو کے قتل کے ملزم کیوں بری ہوئے؟

بے نظیر بھٹو کے قتل کے ملزم کیوں بری ہوئے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جنرل (ر) مشرف کو عدم حاضری میں غداری پر سزائے موت ہوسکتی ہے تو بینظیر کیس میں کیوں نہیں؟

12سال بعد بھی سابق وزیراعظم کا مقدمہ قتل یکسو نہ کیا جاسکا!

محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی 12 ویں برسی پر بھی انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ تحریر کرنا پڑ رہا ہے کہ انہیں شہید کرنے، کروانے یا قاتلوں کو سہولت فراہم کرنے والا کوئی ایک بھی اپنے انجام کو نہیں پہنچا۔ اس دوران پاکستان پیپلزپارٹی کی اپنی حکومت بھی برسر اقتدار آئی، محترمہ کے شوہر نامدار آصف علی زرداری مسند نشین صدارت بھی ہوئے، مقدمہ ایک عدالت سے دوسری عدالت میں جاتا رہا، ایک کے بعد دوسرا جج تبدیل ہوتا رہا، استغاثے اور ملزموں کے وکلاء بھی بدلے گئے، حکمران آتے جاتے رہے، کیس فائل کا پیٹ بھرنے کے لئے کئی پینترے بدلے گئے، کبھی نئی ایف آئی آر کے اندراج پر بحث کی گئی تو کبھی نئے شہادتی سامنے آ گئے، غرضیکہ محترمہ کے مقدمہ قتل پر مٹی ڈالنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا گیا لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ بارہ برس گزرنے کے باوجود دختر مشرق، عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم اور ملک کی سب سے بڑی جماعت کی سربراہ کا مقدمہ قتل آج وہیں کھڑا ہے جہاں 27 دسمبر 2007ء کو ایف آئی آر درج کرنے کے مراحل پر تھا۔
انسداد دہشتگردی کی عدالت نمبر ایک راولپنڈی میں زیر سماعت یہ کیس شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہر سال یہ نوید سنائی جاتی رہی کہ اس مرتبہ محترمہ کی برسی سے قبل فیصلہ ضرور آ جائے گا لیکن یہ امید بر نہیں آتی۔ پاکستانی قوم آج بھی اس درپردہ سازش کے کسی ایک بھی کردار سے واقف نہیں ہو سکی جس کے ذریعے بے نظیر بھٹو کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ باقی معاملات تو اپنی جگہ پر لیکن ظلم کی انتہا یہ ہے کہ آج تک محترمہ شہید کے مقدمہ قتل کو یکسو بھی نہیں کیا جا سکا۔ پیپلزپارٹی نے بھی اپنے دور حکومت میں اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ پارٹی حکومت کے پانچ سال کے دوران اس حوالے سے مصلحتیں آڑے آتی رہیں اور مقدمہ کے جو پہلو بآسانی سلجھائے جاسکتے تھے ان سے بھی دانستہ طور پر چشم پوشی کی گئی۔ اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے اور یہ جرم کس کے کھاتے میں رکھا جائے یہ ذرا مشکل کام ہے لیکن اس حقیقت کو جھٹلانا بھی آسان نہیں کہ پارٹی اپنے دور اقتدار میں بھی اپنی لیڈر کے قتل کی وجوہات جاننے میں بری طرح ناکام ہوگئی۔ مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانا تو کجا اس بنیادی امر کا بھی حتمی تعین نہیں کیا جاسکا کہ حملہ آوروں کے تانے بانے کہاں سے ملتے ہیں،محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کرنے والے دہشت گردوں کے اصل پشت پناہ کون تھے اور اتنی قد آور شخصیت کو راستے سے ہٹانے کا حکم کس نے دیا تھا۔؟ سال رواں کے دوران اتنا ضرور ہوا کہ بینظیر بھٹو کے مقدمہ قتل میں نامزد سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو غداری اور آئین شکنی کا مجرم ٹھہراتے ہوئے کسی دوسرے کیس میں سزائے موت کا حکم سنایا گیا، خصوصی عدالت کے 3 رکنی بنچ نے دو ایک کی اکثریت سے یہ فیصلہ دیا۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ، جسٹس شاہد کریم اور جسٹس نذر اکبر پر مشتمل خصوصی عدالت نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ پرویز مشرف کو دفاع کا موقع دیا گیا، ملزم پر تمام الزامات ثابت ہوتے ہیں، دستاویزات میں واضح ہے کہ سابق صدر نے جرم کیا، پرویز مشرف سنگین غداری کے مرتکب پائے گئے، تمام الزامات کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوتے ہیں، ہائی ٹریزن ایکٹ 1973 کے تحت مشرف کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے۔ اس فیصلے کے بعد یہ بحث بھی شروع ہو گئی کہ سابق صدر کو ان کی عدم موجودگی میں اگر غداری کے جرم میں سزا دی جا سکتی ہے تو بینظیر بھٹو کے مقدمے میں وہ کیوں چارج شیٹ نہیں ہو سکتے تھے، اس حوالے سے ایوان انصاف میں بیٹھے افراد اور ممتاز قانون دان مسلسل خاموشی اختیارکئے ہوئے ہیں۔ محترمہ شہید کے مقدمہ قتل میں سال 2019ء کے دوران ایک اور پہلو بھی ابھر کر سامنے آیاجس میں پاکستان پیپلز پارٹی کلچرل ونگ کے سربراہ شہزادہ عالمگیر نے ایک چینل کو دیئے گئے انٹرویو کے دوران سانحہ راولپنڈی کا سارا ملبہ آصف علی زرداری پر ڈال دیا اور سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ محترمہ کو منظر عام سے ہٹانے کے صلاح مشورے 2006ء میں شروع ہوئے اور سب سے پہلا مشورہ آصف زرداری نے مجھ سے کیا جس پر میں نے اس قسم کی کسی سازش میں شریک ہونے سے انکار کر دیا۔اس رہنما کا کہنا تھا کہ چونکہ میرا تعلق ایک عسکری خاندان سے ہے اس لئے مجھے یہ ذمہ داری دی جا رہی تھی کہ میں اسٹیبلشمنٹ سے اس حوالے سے بات کروں اور محترمہ کے قتل کی راہ ہموار کروں۔ ویسے تو پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے شہزادہ عالمگیر کے اس دعوے کو زیادہ لفٹ نہیں کرائی تا ہم ایک دو مواقعے پر اس کی معمولی سی تردید سامنے آئی کہ یہ بے بنیاد اور من گھڑت کہانی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس پورے سال کے دوران مزید کچھ بھی نہیں ہوا اور تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ بینظیر بھٹو شہید کے مقدمہ قتل میں نامزد سارے ملزمان بری ہو گئے تاہم اعانت جرم کے الزام میں گرفتار اُس وقت کے سی پی او راولپنڈی سید سعود عزیز اور ایس پی سٹی خرم شہزاد کو سپریم کورٹ سے ضمانت پر رہائی مل گئی، سید سعود عزیز تو ایڈیشنل آئی جی کے عہدے سے ریٹائرڈ ہو گئے البتہ خرم شہزاد کو بحال کر کے نئی پوسٹنگ دے دی گئی ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کے پس منظرپرنگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کیس میں ابھی تک کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوسکی اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے قانون شہادت کے مطابق مطلوبہ ثبوت بھی صفحہ مثل پر مناسب انداز میں تحریر نہیں کیے جاسکے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے کچھ عرصہ قبل بلاول ہاؤس کراچی میں اپنی پارٹی کے شریک سربراہ اور سابق صدر آصف علی زرداری کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر ایک میں جو کیس زیر سماعت ہے اس میں پراسیکیوشن نے جنرل پرویز مشرف، ڈی آئی جی سید سعود عزیز، ایس پی خرم شہزاد سمیت آٹھ نامزد ملزموں کو پانچ جنوری 2013ء کو طلب کیا تھا جبکہ بے نظیر بھٹو شہید کے دوست امریکی صحافی مارک سیگل کو بھی بطور گواہ جرح کیلئے بلایا گیا۔ سابق وزیر داخلہ نے بلاول بھٹو زرداری کو دوران بریفنگ یہ بھی آگاہ کیا تھاکہ ایف آئی اے کے دو افسران بے نظیر قتل کیس کے حوالے سے امریکہ گئے تھے جہاں انہوں نے مارک سیگل کا بیان قلمبند کیا۔ دوران بریفنگ ایک نیا انکشاف یہ کیا گیا کہ تفتیش میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ملزموں کا ایک اور ساتھی موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا، جس کا جہادی نام فسکٹ تھا وہ وزیرستان کا رہنے والا ہے۔ عمر 20 سے 25 سال کے درمیان جسم دبلا پتلا اور پھرتیلا ہے۔ داڑھی بڑھی ہوئی، بال سنہرے اور خاصے بڑے ہیں۔ اس ملزم کو بھی پولیس نے اشتہاری مجرم قرار دے دیا ہے۔ اب تفتیشی ٹیم اس کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ فسکٹ کا اصل نام تو مقدمے کی مثل میں شامل نہیں، لیکن اسے موقع کا ملزم ظاہر کیا گیا ہے۔ سانحہ کے وقت لیاقت باغ میں تیار کی جانے والی فوٹیج میں بھی یہ شخص واضح دکھائی دے رہا ہے جبکہ گرفتار ملزم ڈیرہ اسماعیل خان کے شیر زمان نے اپنے بیان میں اس کے بارے میں انکشاف بھی کیا تھا۔ سابق وزیر داخلہ نے پارٹی چیئرمین کو بتایا کہ فی الوقت صورتحال یوں ہے کہ قتل کا ماسٹر مائنڈ بیت اللہ محسود شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے کے دوران مارا گیا جبکہ لیاقت باغ سے فرار ہونے والا ملزم اکرام اللہ ایک چیک پوسٹ پر پاک فوج کے ہاتھوں ہلاک ہوگیا۔ سعید عرف بلال اور عبداللہ خود کش حملے میں ہلاک ہوئے ملزموں کو خودکش جیکٹیں فراہم کرنے والا اکوڑہ خٹک کا عبدالرحمان، مانسہرہ کا اعتزاز شاہ، ڈیرہ اسماعیل خان کا شیر زمان اللہ، راولپنڈی کے حسنین گل، محمد رفاقت اور رشید احمد کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے اس مقدمے سے بری کر دیا ہے، تا ہم مذکورہ ملزموں کی بریت کے بعد یہ باتیں بھی گردش کرتی رہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے ججوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں ملتی رہیں، ایک دو جج تو مقدمے کی سماعت سے معذرت کر گئے جبکہ کئی بار مقدمہ دوسری عدالت میں بھی بھجوایا جاتا رہا۔
پاکستان کی سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کی پوری مثل کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سانحے کی تفتیش کو تقویت دینے اور پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے تین رپورٹوں کا سہارا لیا گیا ہے جن میں فرانزک ایکسپرٹس، بم بلاسٹ ایکسپرٹس اور ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹیں شامل ہیں۔ ان رپورٹس میں لیاقت باغ کے اندر اور باہر سے اٹھائی گئی تمام شہادتوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے اور ہر موضوع کو زیر بحث لاتے ہوئے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے جن میں کرائم سین بشمول واقعاتی شہادتیں موقعہ کی شہادتیں چشم دید گواہیاں و دیگر لوازمات اس کا حصہ ہیں۔دوسری جانب یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ صوبائی سطح پر بننے والی دو اعلیٰ سطحی قومی اور ایک بین الاقوامی تفتیشی ٹیموں کے قیام اور پانچ مرتبہ چالان پیش کئے جانے کے باوجود دُختر ِ جمہوریت کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا جاسکا۔ لیاقت باغ راولپنڈی کے بالمقابل ہونے والے سانحہ کے کرائم سین دھونے سے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف اور امریکی صحافی مارک سیگل کے بیانات ریکارڈ کئے جانے اور بیرون ملک چلے جانے تک 8612 صفحات ضرور کالے کئے گئے، لیکن 27 دسمبر 2019ء تک اس مقدمے کی وہی صورتحال ہے جو 24 جنوری 2008ء کو تھی، جب محترمہ کی شہادت کے 28 روز بعداس مقدمہ قتل کی ابتدائی تفتیش کا آغاز کیا گیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ تفتیش راولپنڈی کی مقامی پولیس نے کی تھی۔ موقع کے جن پانچ ملزموں کو مرکزی مجرموں کے طور پر راولپنڈی پولیس نے نامزد کیا تھا اب تک وہی ملزم اصل کردار چلے آ رہے ہیں اگر اب تک ہونے والی تفتیش پر نگاہ ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دو خودکش حملہ آوروں سعید عرف بلال اور عبداللہ کے بارے میں تحریر کیا گیا ہے کہ وہ محترمہ پر حملے کے دوران کام آگئے، پنجاب حکومت کی طرف سے ایڈیشنل آئی جی چودھری مجید کی سربراہی میں قائم کردہ جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم اور وفاقی حکومت کی طرف سے گزشتہ سال ڈائریکٹر خالد قریشی کی سربراہی میں بنائی جانے والی ایف آئی اے کی ٹیم نے اپنی الگ الگ تفتیشوں میں لکھا ہے کہ محترمہ کو طالبان رہنما بیت اللہ محسود کے ایماء پر جہادی گروپ کے 8 رکنی گروہ نے قتل کیا‘ جس کی سازش سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے تیار کی تھی۔ یوں دونوں تفتیشی ٹیموں نے سابق فوجی صدر کو بے نظیر بھٹو کیس میں اعانت جرم کا ملزم ٹھہرایا ہے۔ جب2011ء میں ایف آئی اے کو مقدمے کی تفتیش سونپی گئی، جس پر یہ اعتراض بڑی شدومد سے سامنے آیا کہ گریڈ 20 کے ڈائریکٹر خالد قریشی کو تفتیشی ٹیم کا سربراہ بنایا گیا ہے جبکہ جے آئی ٹی کے سربراہ چودھری مجید ایڈیشنل آئی جی سطح کے گریڈ 21 کے افسرپہلے ہی اس مقدمے کی تفتیش کرچکے ہیں۔ بہرحال 2011ء میں بے نظیر قتل کیس کی تفتیش کا ازسرنو آغاز کیا گیا۔ راولپنڈی پولیس نے جائے وقوعہ سے جو 133 شہادتیں اکٹھی کی تھیں، نئی تفتیشی ٹیم نے بھی انہیں ہی بنیاد بنایا تاہم کرائم سین دھوئے جانے کا ایک ایسا شوشہ چھوڑا گیا جسے قومی سطح پر مقبولیت تو حاصل ہوئی، لیکن یہ کوئی ٹھوس شکل اختیار نہ کرسکا اور کیس کی سماعت کے دوران انسداد دہشت گردی راولپنڈی کی عدالت نمبر ایک کے جج حبیب الرحمان کے روبرو موقف اختیار کیا گیا کہ ملک کے جس بھی حصے میں خودکش دھماکہ حملہ ہوا ہو، جو شارع عام پر ہو، وہاں کا کرائم سین میسر اور مطلوبہ شہادتیں اکٹھی کرنے کے بعد دھلوا دیا جاتا ہے۔ عدالت میں سانحہئ کارساز کراچی اور جنرل مشتاق کی ہلاکت والے سانحہ راولپنڈی کی نظیریں پیش کی گئیں جن میں ایک دو گھنٹے بعد کرائم سین کلیئر کردیا گیا تھا۔
ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم نے پہلے سے کی گئی تفتیش میں کوئی نیا اضافہ تو نہیں کیا البتہ دو سینئر پولیس افسروں سانحہ لیاقت باغ کے وقت تعینات سی پی او راولپنڈی ڈی آئی جی سید سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد وڑائچ کو گرفتار کرلیا، جن پر استغاثہ کوئی جرم تو ثابت نہ کرسکا، لیکن انہیں مقدمہ قتل میں نامزد کرکے ناقص سکیورٹی انتظامات اور حفاظتی اقدامات میں غفلت کا مورد الزام ٹھہرا کر پابند سلاسل کردیا گیا،تاہم بعد ازاں دونوں افسران کو سپریم کورٹ نے ضمانت پر رہا کردیا۔ ایک اور پیش رفت جو نئی تفتیشی ٹیم نے کی وہ گواہوں کی فہرست میں اضافہ ہے جو 72 سے بڑھ کر 164 ہوگئی۔
گزشتہ سالوں کے دوران ایک ڈویلپمنٹ یہ بھی ضرور ہوئی ہے کہ مقدمہ قتل میں اعانت جرم کے ملزم سابق صدر پرویز مشرف واپس وطن آگئے اور انسداد دہشت گردی کی عدالت نے انہیں اشتہاری مجرم قرار دینے کی جو کارروائی کی تھی وہ ختم ہوگئی اور سابق صدر اس مقدمہ میں باقاعدہ شامل تفتیش ہوگئے۔ انہوں نے اپنے تحریری بیان میں صحت جرم سے انکار کیا اور ان کے وکلاء کا کہنا تھاکہ سابق صدر محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں کسی طرح بھی Beneficiaryنہیں ہیں۔
ان 12 برسوں کے دوران سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کا مجموعی جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اب تک کیس کی تفتیش یا ٹرائل کے اعتبار سے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دو تین سال مزید گزر گئے تو اس مقدمہ کو بھی چوری ڈکیتی اور معمولی نوعیت کے واقعات کے دیگر مقدمات کی طرح داخل دفتر سمجھا جائے گا۔
سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کا ٹرائل میں پیش ہونا، دوبارہ بیرون ملک چلے جانا یا بیان ریکارڈ کروانا کوئی بڑا معاملہ نہیں ہے کیونکہ ان کے خلاف کیس فائل میں کوئی بڑی شہادت بھی موجود نہیں جو ان پر بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کی اعانت جرم کا الزام ثابت کرسکے۔ سابق صدر کے خلاف محض امریکی صحافی مارک سیگل کی ای میل یا ویڈیو لنک سٹیٹمنٹ ٹھوس ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کی جاسکتی۔ رہ گئی بات کرائم سین دھونے کی اور اس الزام کے تحت پکڑے جانے والے ڈی آئی جی پولیس سید سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کی تو وہ سپریم کورٹ کے حکم پر 3سال قبل ہی رہائی پاچکے ہیں۔ ویسے بھی عدالت ان کے اس موقف کو درست تسلیم کرچکی ہے کہ کرائم سین کا دھویا جانا کسی طور بھی مجرمانہ اقدام یا غفلت کے زمرے میں نہیں آتا، جہاں تک طالبان کے ایک گروہ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ محترمہ کی شہادت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس حوالے سے بھی استغاثہ کوئی معقول یا ٹھوس شواہد دوران ٹرائل فراہم کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوا۔ تین چار ملزمان بھی مبینہ طور پر مارے جاچکے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت مرکزی ملزموں کو بری بھی کر چکی ہے۔ ایسی صورتحال میں مقدمہ کے مستقبل کا حساب لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے۔
مقدمہ قتل کی فائل کا پیٹ بھرنے کی غرض سے بہت کچھ کیا گیا، لیکن تفتیش کو ٹھوس بنیاد فراہم کرنے اور کیس ٹرائیل کو استحکام دینے کی مطلوبہ ضروریات کو پورا کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کی گئی۔2016ء کے پورے سال کے دوران ٹرائل کورٹ میں وکلاء،گواہوں اور ملزموں کی پیشیاں ضرور ہوئیں، لیکن مارک سیگل کے ویڈیو لنک بیان کی ریکارڈنگ کے سوا کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا جا سکا۔ بالخصوص پراسیکیوشن کے شعبہ کی کارکردگی نہایت مایوس کن دکھائی دی۔ دُنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص عدالتی تاریخ یہ ہے کہ مقدمہ کے ملزم فریق کی طرف سے تاخیری حربے استعمال کئے جاتے ہیں لیکن پراسیکیوشن مقدمہ کی فوری انجام دہی کے لئے سر توڑ کوشش کرتی ہے۔ بے نظیر بھٹو کیس میں حساب الٹا معلوم ہوتا ہے، جہاں پراسیکیوشن نے نہایت سست روی کا مظاہرہ کیا، بالخصوص2016ء میں جبکہ اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے اس مقدمہ کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کے احکامات جاری کئے گئے تھے، لیکن اس کے باوجود اس کیس کے پراسیکیوٹر چودھری اظہر انسداد دہشت گردی کی عدالت سے مہلت اور وقت طلب کرتے رہے۔ فاضل جج نے بھی اس بات کا کئی بار نوٹس لیا اور سرزنش کی کہ مطلوبہ ضروریات فوری مکمل کی جائیں، لیکن ایسا نہ ہو سکا،اعلیٰ عدالتوں کی بار بار ہدایات کے باوجود کیس روزانہ کی بنیاد پر نہ سنا جاسکا اور ایک ایک ہفتہ کی تاریخیں بھی پڑتی رہیں۔ سال2016ء میں دورانِ سماعت ایک اور اہم معاملہ جو سامنے آیا وہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف جن تین گواہوں کے بیانات جو استغاثہ کی طرف سے پیش کئے گئے تھے، گواہوں نے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے انکاری بیانات تحریری طور پر عدالت میں جمع کرواتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ہمارے یہ بیانات خود ساختہ ہیں۔ بریگیڈیئر چیمہ، سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ سیدکمال شاہ اور سابق سربراہ آئی بی بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے تردیدی بیانات سے بے نظیر قتل کیس شہادتوں کے اعتبار سے خاصا کمزور ہو گیا۔ سابق سیکرٹری داخلہ کمال شاہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مجھے سابق صدر مشرف نے بینظیر کے بارے میں کوئی ہدایات نہیں دی تھیں، مَیں نے صرف قانون کے تحت وہ کام کیا جو میرے فرائض میں شامل تھا۔ بریگیڈ(ر) اعجاز شاہ نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مَیں بولوں گا تو بھونچال آ جائے گا۔کوئی بھید نہیں رہے گا۔ بے بنیاد باتیں کی جا رہی ہیں، پراسیکیوشن کے کہنے پر عدالت نے اعجاز شاہ کی گواہی کو (Give up) کر دیا۔ یوں انہیں بطور گواہ بے نظیر قتل کیس میں شامل نہیں کیا جا سکا، حالانکہ اُن کا نام شاہدین کی فہرست (callender of witness)میں شامل تھا۔یہ کیلنڈر 164 گواہوں پر مشتمل ہے اور تمام کی گواہیاں ریکارڈ کی جا چکی ہیں۔اس کیلنڈر کے مطابق پراسیکیوشن نے ڈی آئی جی سید سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کے خلاف جو تین گواہ ایس پی اشفاق انور،ایس پی یاسین فاروق اور راولپنڈی جنرل ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر مصدق پیش کئے تھے، انہوں نے بھی اپنے حوالے سے فائل کردہ بیانات کی تردید کی اور کہا کہ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ27دسمبر2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی کے اندر اور باہر حفاظتی اقدامات مناسب نہیں تھے۔ وہاں بہترین سیکیورٹی سسٹم بنایا گیا تھا،اندرونی و بیرونی حصار بھی درست طور پر لگایا گیا تھا۔ ایس پی صاحبان کا بیان تھا کہ ڈی آئی جی سید سعود عزیز ہمیں وائرلیس پر احکامات بھی دیتے رہے اور وہ محترمہ کے پرنسپل سیکیورٹی سٹاف کو بھی اس امر سے روک رہے تھے کہ بے نظیر بھٹو کو گاڑی سے باہر نہ نکلنے دیں۔ میجر (ر) امتیاز نے موقف اختیار کیا کہ سی پی او راولپنڈی سید سعود عزیز نے محترمہ کے چیف سیکیورٹی افسر کو میری موجودگی میں کہا تھا کہ محترمہ کو باہر نکلنے سے منع کریں، کیونکہ سیکیورٹی خدشات موجود ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے باہر نکلیں اور گاڑی کی چھت سے سر بھی باہر نکالا۔
کیس اس اعتبار سے ضرور منفرد بنا رہا کہ مدعی فریق کی جانب سے پیش ہونے والے پراسیکیوٹر چوہدری اظہر عدالت میں سپلیمنٹری درخواستیں دیکر مہلت مانگے جا رہے ہیں، ڈیفنس کے وکلا اور خود فاضل جج اسے ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن پراسیکیوٹر تاریخ پر تاریخ حاصل کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ عموماً مقدمات میں پراسیکیوٹر سرکاری وکیل کو نامزد کیا جاتا ہے لیکن پیپلزپارٹی کے دور میں چوہدری اظہر کو پراسیکیوٹر بنا کر پیش کیا گیا وہ سرکاری افسر قانون نہیں ہے بلکہ نجی پریکٹس کرتے ہیں۔ ماہرین قانون اس حوالے سے یہ رائے رکھتے ہیں کہ مقدمہ قتل پر کئی سال سے سیاسی رنگ غالب آتا رہا، اور شاید محترمہ کی اپنی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اپنی سربراہ کی شہادت کا باب بند نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اس کی موجودگی پارٹی کو سیاسی فائدہ دینے کا باعث بن رہی ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو بڑے ظلم اور رسوائی کی بات ہے۔ پراسیکیوٹر اظہر چوہدری کئی ماہ تک عدالت میں اول تو حاضر ہی نہیں ہوئے یا پھر کسی دوسر ے کیس میں پیشی کا کہہ کر جاتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عدالت کیس کلوز ہونے کے باوجود فیصلہ سنانے سے قاصر رہی۔ اس مقدمہ قتل کا ایک اور اہم پہلو بھی خاصا غور طلب ہے کہ محترمہ کے قتل کے جزوی پہلوؤں کے تحت الزام میں پکڑے گئے تین چھوٹے ملزمان (Petty Accused) پر عائد الزامات کی ضابطہ فوجداری کے تحت جو سزا بنتی ہے وہ اس سے تین سے چار سال تک کی زیادہ قید کاٹ چکے ہیں۔
ایک اہم اور دلچسپ پہلو حال ہی میں وقوع پذیر ہوا ہے جب تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکہ نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو طالبان سے مذاکرات کروانے کے لئے مددگار کے طور پر نامزد کیا۔اس تناظر میں طالبان اور امریکہ کے قطر مذاکرات میں حیرت انگیز انکشاف یہ ہوا کہ طالبان نے حسنین گل اور رفاقت نامی ان دو ملزموں کی رہائی کی شرط رکھ دی جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے مرکزی ملزم گردانے جاتے ہیں۔ان مذکورہ ملزموں کو بھی عدالت مشروط طور پر رہا کر چکی ہے تاہم انہیں پابند کیا گیا ہے کہ وہ عدالت کی اجازت کے بغیر شہر یا ملک نہیں چھوڑیں گے۔یہ الگ بات ہے کہ سی آئی ڈی پنجاب نے بے نظیر مقدمہ قتل کے دونوں مرکزی ملزموں حسنین گل اور رفاقت کے خلاف ایک پرانا مقدمہ تلاش کر لیا ہے، دہشتگردی کا یہ مقدمہ آج کل عدالت میں زیر سماعت ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس امر کا غالب امکان ہے کہ دونوں ملزمان اس مقدمے میں بھی گرفتار کر کے دوبارہ جیل بھجوا دیئے جائیں۔یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل میں پاکستان پیپلزپارٹی،تفتیشی پولیس اور ایف آئی اے ایک پیج پر آ گئے ہیں اور تینوں کا یہ موقف لاہور ہائیکورٹ، بعدازاں سپریم کورٹ میں سامنے آیا کہ مقدمے کے اصل مجرم وہی پانچوں افراد ہیں جنہیں ابتدائی طور پر نامزد کیا گیا تھا ان کا تعلق بیت اللہ محسود گروپ سے ہے۔مقدمے کی تفتیش کے دوران گرفتار ملزموں کا ایک بیان ضمنی نمبر143میں رقم کیا گیا ہے کہ بینظیر بھٹو کو بیت اللہ محسود کے حکم پر قتل کیا گیا کیونکہ بینظیر بھٹو نے پاکستان آنے سے قبل امریکہ سے معاہدہ کیا تھا کہ میں پاکستان سے طالبان کا خاتمہ کروں گی،اس کے جواب میں طالبان کے قائد بیت اللہ محسود نے ویڈیو پیغام جاری کیا کہ بینظیر آئیں ہم آپ کا انتظار کر رہے ہیں،بیان میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے امریکہ کو پاکستان میں ڈرون حملوں کی اجازت دی تھی اس لئے ہم نے انہیں ٹھکانے لگا دیا۔اس اقرار جرم کے بعد ملزمان حسنین گل اور رفاقت کی انسداد دہشتگردی کی عدالت سے ضمانت پر رہائی ایک سوالیہ نشان کے طور پر سامنے موجود ہے۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ مقدمہ اس اعتبار سے ضرور اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں بڑے بڑے نامور قانون دان عدالت میں پیش ہوتے رہے، پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے ممتاز قانون دان،سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ، پولیس افسران کی طرف سے سابق وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا اور اعظم نذیر تارڑ پیروی کرتے رہے۔ سپریم کورٹ میں آخری سماعت کے دوران پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری بھی عدالت میں موجود تھے جنہیں بعض افراد کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ محترمہ کے مقدمے کو نتیجہ خیز کرنا ہے تو اسے سیاست سے الگ کر دیں۔اب تک جو تفتیش ہوئی ہے یا دائیں بائیں سے معاملات چلانے کی کوشش کی گئی ہے ان کا احاطہ کیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بظاہر محترمہ بے نظیر بھٹو کا مقدمہ قتل بے جان ہوکر رہ گیا ہے، کیونکہ جن پر دہشتگردی کا الزام تھا پہلے تو وہ ضمانت پر رہائی پا گئے اب قطر مذاکرات میں ان کی با عزت رہائی کی شرط پیش کی جا رہی ہے۔راولپنڈی کے ایک وکیل چوہدری محمد اسلم ایڈووکیٹ نے اس دوران ایک متفرق درخواست دی تھی کہ محترمہ کی شہادت پر درج کی جانے والی ایف آئی آر درست نہیں اس لئے نئی ایف آئی آر کے اندراج کی اجازت دی جائے لیکن عدالت نے ان کی درخواست یہ منظور نہ کی اور موقف اختیار کیا کہ اگر کوئی نئی بات سامنے آئی ہے تو ضمنی میں تحریر کروا دیا جائے۔
پاکستان تحریک انصاف کے موجودہ دور میں تو بینظیر بھٹو قتل کیس پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔ پیپلز پارٹی نے بھی خاموشی اختیارکئے رکھی، آصف زرداری، فریال تالپور اور خورشید شاہ سمیت کئی اہم رہنماؤں کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری نے انہیں فرصت ہی نہیں دی کہ وہ اپنی شہید قائد کی ہلاکت کے ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی طرف کوئی توجہ دے سکیں۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس مرتبہ پارٹی کی قیادت کو یہ خیال ضرور آیا ہے کہ شہید محترمہ کی برسی پر گڑھی خدا بخش لاڑکانہ تک محدود رہنے کے بجائے عوام میں آیا جائے اور محترمہ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے راولپنڈی میں اس مقام پر بیٹھک سجائی جائے جہاں محترمہ کو شہید کیا گیا تھا۔ ضلعی انتظامیہ کے انکار کے بعد ہائی کورٹ نے پی پی پی کو لیاقت باغ میں محترمہ کی شہادت پر تعزیتی جلسہ کرنے کی اجازت دے دی ہے، جہاں تک حال ہی میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنائے جانے کا تعلق ہے تو اس کے بعد اس قسم کی خبریں بھی گردش کرتی دکھائی دے رہی ہیں کہ کچھ قوتیں یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اس قسم کے عدالتی فیصلوں سے بچاؤ کا واحد حل سمری ملٹری کورٹس کا قیام ہے جہاں کیسوں کی سماعت اور فیصلے فوری ہوتے ہیں، ججز حضرات کے نام بھی افشا نہیں ہوتے اور نہ ہی کوئی انہیں دھمکیاں دیتا ہے، اگر محترمہ بینظیر کا مقدمہ قتل فوری سماعت کی عسکری عدالت میں زیرسماعت ہوتا تو اس کا فیصلہ کبھی کا ہو چکا ہوتا۔ خیر اس قسم کی خبریں تو حالات کی پیداوار ہوتی ہیں لیکن یہ بے حد افسوس ناک امر ہے کہ ہم 12سال بعد بھی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو شہید کرنے والوں کا انجام دیکھنے کے منتظر ہیں اور نجانے کب تک انتظار کی یہ گھڑیاں ختم ہوں گی۔
٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -