رانا ثناء اللہ کی ضمانت
پاکستان مسلم لیگ(ن) صوبہ پنجاب کے صدر، سابق صوبائی کابینہ کے سینئر وزیر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ کی ضمانت پر رہائی کی درخواست لاہور ہائی کورٹ نے منظور کر لی،تو اس پر وفاقی وزراء نے طوفان اُٹھا دیا۔کہا گیا کہ یہ ”انوکھا فیصلہ“ ہے۔ منشیات برآمدگی کے ایسے مقدمات میں جہاں ملزم کو سزائے موت کی سزا سنائی جا سکتی ہو،ضمانت نہیں دی جاتی۔انسداد منشیات کے انچارج وزیر شہریار آفریدی نے تو باقاعدہ پریس کانفرنس کر کے دِل کے پھپھولے پھوڑے۔اعلان کیا کہ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔انہوں نے رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کے بعد ہی سے اس معاملے پر پریس کانفرنسوں اور خطابات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ مختلف ٹی وی شوز میں بھی انہوں نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا،اور اپنے ہی الفاظ اور استدلال میں اُلجھتے چلے گئے۔انہوں نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ رانا ثناء اللہ کا تعاقب کئی روز سے کیا جا رہا تھا اور اے این ایف ان کی سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے تھی۔اس سب کی تفصیل ویڈیوز کی شکل میں موجود ہے۔رانا صاحب کی گرفتاری اور ان سے ہیروئن کی برآمدگی کی ویڈیو بھی محفوظ ہے۔ انہوں نے اس سب کچھ کو وزیراعظم کو دکھانے کا دعویٰ بھی کیا تھا،لیکن جوں جوں معاملہ آگے بڑھتا گیا، وہ آگے بڑھتے اور کبھی پیچھے ہٹتے دکھائی دیئے۔کلمہ پڑھ پڑھ کر اور اللہ کو جان دینی ہے، کی رٹ لگا لگا کر انہوں نے تضادات سے بھرپور مکالمے ارشاد فرمانے کا عمل جاری رکھا،اور تضادات کی نشاندہی کرنے والے جرأت مند اینکرز کو ”بکاؤ مال“ قرار دینے کی جسارت (حماقت یا شرارت) بھی کر گذرے۔رانا صاحب کی ضمانت کی منظوری کے اگلے دن انہوں نے بڑی دھوم دھام سے ایک روز پہلے باقاعدہ اعلان کر کے جو پریس کانفرنس کی، اس میں بھی اپنے کہے ہوئے الفاظ کو کبھی اگلتے اور کبھی نگلتے ہوئے پائے گئے۔یہ ارشاد فرما کر شاید کسی عالمی ایوارڈ کے مستحق قرار پا گئے کہ انہوں نے کبھی ویڈیو کی موجودگی کی بات نہیں کی،وہ تو فوٹیج کا ذکر کرتے رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو اور فوٹیج میں بہت فرق ہوتا ہے۔یہ فرق میڈیا سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کو نہ سمجھایا جا سکتا ہے، نہ بتایا جا سکتا ہے۔ فوٹیج اور ویڈیو میں وہ تعلق ہے، جو آٹے اور روٹی میں ہوتا ہے۔ فوٹیج کو ترتیب دے لی جائے تو اسے ویڈیو کہا جا سکتا ہے۔ ویڈیو فوٹیج کی ”پیداوار“ ہوتی ہے، اس سے الگ نہیں ہوتی،جوہری طور پر دونوں ایک ہیں،کہ ایک سے مناظر دونوں میں قید ہوتے ہیں۔ فاضل وزیر نے یہ بھی الزام لگایا کہ ”میڈیا ٹرائل“ سے معاملہ الجھایا جا رہا ہے،جبکہ حقیقت ِ حال یہ ہے کہ ”میڈیا ٹرائل“ کا آغاز وزیر موصوف نے خود فرمایا۔انہوں نے اے این ایف کے باوردی سربراہ کو اپنے ساتھ بٹھا کر رانا صاحب کی گرفتاری کے بعد باقاعدہ پریس کانفرنس طلب کی،اور اپنے حریف ِ سیاست پر تابڑ توڑ حملے کیے۔اس وقت بھی صحافی اور سیاسی حلقوں میں اس بات پر تعجب کا اظہار کیا گیا تھا کہ ایک باوردی افسر کی موجودگی میں پریس کانفرنس کے انعقاد سے اُلجھنیں بڑھیں گی، کم نہیں ہوں گی۔ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ جب بھی کسی شخص کو کسی الزام میں گرفتار کیا جائے تو اس کا معاملہ قانون کے حوالے کر دینا چاہئے۔اسے پریس کانفرنس کا موضوع بنانا کوئی پسندیدہ فعل نہیں ہے۔قانون نافذ کرنے والے متعلقہ ادارے کی ذمہ داری یہ ہونی چاہیے کہ وہ مقدمے کی تفتیش جلد از جلد مکمل کر کے چالان عدالت میں پیش کرے اور جلد از جلد اس کی سماعت کو ممکن بنائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔کسی بھی شخص، خاص طور پر کسی ممتاز سیاست دان کو گرفتار کر کے اس پر بغلیں بجانے اور مقدمے کی کارروائی کو لٹکاتے چلے جانے کی دادکوئی بھی ذی ہوش نہیں دے سکتا۔
رانا ثناء اللہ مسلم لیگ(ن) کے ایک عقابی رہنما ہیں۔اپنے دبنگ لہجے اور دو ٹوک موقف کی وجہ سے حریفوں کی نگاہ میں کھٹکتے ہیں۔انہوں نے اپنی گرفتاری سے پہلے مسلم لیگ(ن) کی پارلیمانی صفوں میں فارورڈ بلاک بنانے کی کوشش کرنے والوں کو سخت الفاظ میں متنبہ کیا تھا، اور اپنے کارکنوں کو تلقین کی تھی کہ جس بھی حلقے کا منتخب نمائندہ وفاداریاں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا دکھائی دے، وہاں کے کارکن اس کے گھر کا گھیراؤ کریں،گویا اس کی زندگی اجیرن بنا دیں۔رانا صاحب کی اس تلقین کے چند ہی روز بعد جب ان سے ہیروئن برآمد ہونے کی خبر آئی، تو کئی تجزیہ کاروں کے ماتھے اُسی وقت ٹھنکے تھے۔رانا صاحب کی حیثیت اور اہمیت کا تقاضہ تھا کہ اگر انہیں کسی جرم میں ملوث پایا گیا تھا تو اس کے دستاویزی شواہد فوری طور پر عوام کے سامنے لائے جاتے رانا صاحب کی گرفتاری اور ان سے ہیروئن کی برآمدگی کا منظر کیمرے میں محفوظ کرنے کا اہتمام کیا جاتا کہ ٹیکنالوجی نے اسے آسان تر بنا دیا ہے۔ بڑے بڑے کیمروں کے بجائے اب یہ کام قلم یا گھڑی میں لگے کیمرے بھی بخوبی انجام دے سکتے ہیں،لیکن اس کا کوئی انتظام کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔کم و پیش پانچ ماہ گذرنے کے باوجود رانا صاحب کے مقدمے کی سماعت شروع نہیں ہو سکی، بار بار جج تبدیل کرنے سے حکومت کا بیانیہ مزید کمزور ہوا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے ضمانت کی درخواست کا جو تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے،اس میں درج نکات میں اہل ِ وطن کے لیے غور و خوض کا بہت سامان موجود ہے۔رانا صاحب کے پانچ شریک ملزمان کی ضمانت انسداد منشیات عدالت نے منظور کر لی تھی،جس کے خلاف پراسیکیوشن نے اپیل کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی،گویا ان کی ضمانت پر رہائی اس کے نزدیک قابل ِ اعتراض نہیں تھی۔ فاضل عدالت نے یہ بھی لکھا ہے کہ مبینہ طور پر جہاں رانا صاحب کی گاڑی سے ہیروئن برآمد کی گئی، وہاں یعنی موقع پر اس کی برآمدگی کا کوئی میمو تیار نہیں کیا گیا۔ انسداد منشیات فورس کے دفتر میں اگر یہ کارروائی مکمل کی گئی، جو ایک انوکھی بات تھی کہ عام طور پر برآمدگی کا میمو موقعہ واردات ہی پر تیار کر لیا جاتا ہے۔فاضل عدالت نے مزید لکھا ہے کہ ایک طرف رانا صاف پرایک بڑا نیٹ ورک چلانے کا الزام لگایا گیا،دوسری طرف ان کے جسمانی ریمانڈ کی کوئی استدعا نہیں کی گئی۔لازم تھا کہ نیٹ ورک کی نشاندہی اور اس کے جملہ افراد تک پہنچنے کے لیے مرکزی ملزم (رانا صاحب) کا جسمانی ریمانڈ لیا جاتا۔ یہ بھی ایک منفرد معاملہ تھا کہ ہیروئن کے کاروبار میں ملوث کسی نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے کی طرف کوئی توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔فاضل عدالت کے بقول ان حقائق کی روشنی میں یہ مقدمہ مزید انکوائری کا مستحق ہے، اس لیے ملزم کا حق ہے کہ اسے ضمانت پر ر ہا کیا جائے۔وکیل صفائی کا استدلال تھا کہ رانا صاحب کو سیاسی طور پر انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے ان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔فاضل عدالت کا کہنا ہے کہ ماضی میں اس طرح کی کارروائیاں ہوتی رہی ہیں،اس لیے اس الزام کو فوری طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
وزیراعظم پاکستان اور ان کے رفقا پر لازم ہے کہ وہ رانا ثناء اللہ کے مقدمے کی فائل خود ملاحظہ کریں،عدالت عالیہ کے فیصلے کا بھی بغور مطالعہ کریں،اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ قومی سیاست کو انتقامی کارروائیوں کے زہر سے پاک کیا جائے۔ ماضی میں ہم اس کا سخت نقصان اٹھا چکے ہیں، اگر اس کے راستے میں دیوار کھڑی نہ کی گئی تو حال اور مستقبل دونوں شدت سے متاثر ہوں گے۔اگر آج کانٹے بوئے جائیں گے تو پھر کل کانٹوں ہی کی فصل کاٹنا پڑے گی۔