نمبر وَن کا کھیل اور جسٹس سیٹھ وقار
گفتگو کے آغاز ہی میں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ ان مختلف قسم کے سروے کے نتائج کی اصلیت کیا ہوا کرتی ہے جن کی رو میں قاری بہہ جایا کرتا ہے، حالانکہ وہ نتائج حقیقت سے خاصے دور ہوتے ہیں۔ راقم نے دنیا کے جانے مانے ادارے گیلپ میں اپنے زمانہ طالب علمی اور کسی حد تک اس کے بعد بھی کام کیا۔ اس ادارے کا آغاز 1979ء میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینئن(PIPO) کے نام سے ہوا، مَیں اس کی اولین ٹیم کا ایک رکن تھا۔ پھر دو ایک سال بعد ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے اسے بزنس ریسرچ بیورو) (BRB کا نام دے دیا،تاآنکہ اس نے گیلپ کا نام اختیار کر لیا۔ راقم نے انٹرویورر، اور بعد میں ٹیم لیڈر کی حیثیت سے ان تینوں ادارو ں میں کام کیا اور بہت کچھ سیکھا۔ سروے اور اس کی سائنس کو اگر مَیں مسحور کن علم کا نام دوں تو غلط نہیں ہوگا۔ اس علم کی تمام جزئیات پر عمل کیا جائے تو جو نتائج حاصل ہوتے ہیں، انہیں دیکھ کر نجومی اور دست شناس بھی کان پکڑ لینے پر مجبو ر ہو جاتا ہے۔ سمجھانے کے لئے صرف ایک مثال کافی ہو گی۔
1979ء میں اپنے آغازکے دنوں میں یہ فن ملک میں اجنبی تھا۔ تجارتی ادارے اس بابت نہ ہونے کے برابر معلومات رکھتے تھے، چنانچہ ادارے کو کاروبار حاصل کرنے کی خاطر اس میدان میں خاصی سرمایہ کاری کرنا پڑی۔ ایک مشہور بین الاقوامی کمپنی کوچائے کی مقامی کھپت کے بارے میں سہہ ماہی نتائج بتا کر اگلی سہہ ماہی میں اسے اس کھپت میں کمی، اضافے سے باخبر کیا گیا تو کمپنی کا افسراعلیٰ اچھل پڑا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی حساس معلومات چوٹی کے دو تین افراد ہی کے پاس ہوتی ہیں، آپ کو کیسے علم ہوا؟ تب اسے سمجھایا گیا کہ بھائی، یہ سروے کے نتائج ہیں جن کی مزید تفصیلات یہ ہیں اور اگر آپ کاروبار کو وسعت دینا چاہیں تو اس فن سے کام لے سکتے ہیں کہ آپ کو کیا کچھ مزید کرنا ہو گا۔ اس طرح کی کئی مثالیں ہیں جن کا ذکر نفسِ مضمون کے اعتبار سے بے سود ہے۔ یہ جو کچھ بھی بیان ہوا ہے اس کا تعلق بے ضرر قسم کی تجارتی معلومات اور روزمرہ لین دین سے ہوا کرتا ہے۔ جواب دہندہ کا ذہن جواب دیتے وقت یکسو اور تمام تحفظات سے خالی ہوا کرتا ہے۔ اس طرح کے سروے کے نتائج ذرائع ابلاغ میں بہت کم، بلکہ نہ ہونے کے برابر آتے ہیں۔
سروے کی ایک دوسری قسم وہ ہے جس کے نتائج سے آج کل اخبارات کے صفحات بھرے رہتے ہیں۔ اس قسم میں ملکی حالات، حالاتِ حاضرہ، حکومت کی کارکردگی، سیاسی جماعتیں، عدلیہ، تعلیم اور فوج سے متعلق سوالات اور متعدد دیگر موضوعات شامل ہیں۔ یہ وہ حساس زمرے ہیں جن کے بارے میں جواب دہندگان کے جواب معروضیت (Objectivity) سے خالی ہوا کرتے ہیں۔ ان موضوعات سے متعلق جواب دیتے وقت وہ یا تو خوب سوچ کر سیاسی سفارتی قسم کا جواب دیتا ہے یا رواروی میں وہ، وہ جواب نہیں دیتا جو اسے دینا چاہیے یعنی جو اس کے دل میں واقعی ہوتا ہے، وہ نوکِ زبان پر نہیں لاتا۔ اس طرح کے سروے بالعموم ملک گیر ہوتے ہیں، لہٰذا ملک کو کئی زمروں میں تقسیم کر کے سروے شروع کیا جاتاہے۔ مثلاً اگر ملک کی ستر فیصد آبادی دیہی ہے تو ستر فی صد سروے دیہی علاقو ں میں ہوں گے۔ اسی طرح ملک کی اشرافیہ اگر تین فی صد ہے تو سروے میں ان کی نمائندگی بھی اتنی ہی ہو گی۔
گھٹن کے اس ماحول او ر سیاسی فضا میں جب عام شہری یعنی دکاندار، ریڑھی بان، کسان جیسے کسی شخص سے سوال کیا جائے تو میرا ہزاروں افراد پر پھیلا ہوا سالوں کا تجربہ ہے کہ وہ وہی جواب دیتا ہے جس سے سرکار اور سرکاری ادارے ناراض نہ ہوں۔ مثلاً اس سوال کے ممکنہ جواب کئی ہیں:”آپ کے خیال میں موجودہ حکومت کی کارکردگی؟ٹھیک ہے، بہت اچھی ہے، ٹھیک نہیں ہے، خراب ہے۔ بہت بری ہے“۔ ستر فی صد افراد بالعموم یوں جواب دیتے ہیں: ”جی بس، ٹھیک ہے۔“ اور سروے کے نتائج ظاہر کریں گے کہ ملک کے ستر فی صد افرادنے حکومت کی کارکردگی کو اطمینان بخش قرار دیا۔ اب اگر آپ اسی جواب دہندہ کا پیچھا کریں، اس کے حلقہ احباب تک رسائی کر کے اس کی غیررسمی گفتگو سنیں تو وہ حکومت کو بے نقط سنا رہا ہو گا۔ قارئین کرام! ملکی اداروں کا یکے بعد دیگرے وکٹری اسٹینڈ پر نمبر وَن قرار دیاجانا کچھ ایسے ہی سروے کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ ایسے ہی کسی نمبر وَن ادارے کے حکام پھولے نہیں سماتے، اور اسی کھلکھلاہٹ میں وہ، وہ فیصلے کر گزرتے ہیں جو ان کے خیال میں مذکورہ ”ستر فی صد“ کے لئے باعث طمانیت ہوں گے، حالانکہ وہ افراد ستر فی صد تو کیا سات یا سترہ فی صد ہی کے لگ بھگ ہوا کرتے ہیں۔
یہ وضاحت اس لئے کرنا پڑی کہ کم و بیش ایک عشرے سے ہمارا ایک ادارہ عام لوگوں کے نزدیک ملکی ہی نہیں غیرملکی برادری میں بھی نمبر وَن گردانا جاتا ہے۔ کوئی بدبخت ہی ہو گا جو اپنے کسی قیمتی او ر گراں قدر ادارے کو عالمی برادری میں نمبر وَن نہ دیکھنا چاہے گا۔ کیا کوئی باپ یا بیٹا ایسا ہو سکتا ہے جو اپنے بیٹے یا باپ کے فخریہ کارناموں پر اظہار تفاخر کی جگہ چڑچڑاہٹ کا مظاہرہ کرے؟ کوئی بدبخت ہی ہو گا۔آزاد غیرملکی ذرائع سے مجھے کوئی ایک عشرہ قبل معلوم ہوا کہ پاکستان وہ پہلا ایشیائی ملک ہے جس کے ایٹمی سائنس دانوں کی غیرمعمولی کارکردگی کو سراہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں واقع سرن (CERN) یعنی بالالفاظ دیگر یورپی یونین نے نہ صرف پاکستان پر عائد کئی پابندیاں ہٹا دی ہیں بلکہ درجنوں مزید سائنس دانوں کی خدمات بھی حاصل کر لی ہیں۔ نتیجہ کیا نکلا؟ ترقی پذیر ممالک میں سے پاکستان کے سائنس دان نمبر وَن قرار پائے۔ یہ ہے وہ نتیجہ، یہ ہے وہ مثبت خبر جو ہر پاکستانی کے علم میں لائی جانا چاہیے تھی۔ قارئین کرام! اپنے آپ سے، اپنے احباب سے، دائیں بائیں سے ذرا معلوم تو کریں کتنے افراد اس خون افزا و روح افزا و جان افزا خبر سے باخبر ہیں۔
اِدھر یہ حال ہے کہ انٹرنیٹ کی کسی بھی شاخ سے آپ رجوع کریں، آپ کو معلوم ہو گا کہ پورے ملک کا بس ایک ہی ادارہ ہے جو کل عالم میں نمبر وَن کے درجے پر گزشتہ عشروں سے فائز ہے۔ مَیں تلاش بسیار اور جاں گسل تحقیق کے بعد بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا کہ عالمی اداروں کا یہ مقابلہ حسن (Pageant) دنیا کے کس حصے میں، اور کب منعقد ہوا تھا۔ ایٹمی سائنس دانوں کی محیرالعقول کارکردگی کی طرح اگر وطن عزیز کا کوئی اور ادارہ بھی اس طرح کی کارکردگی کا لوہا دنیا سے منوا کر نمبر وَن بن جائے تو یقین کیجئے مَیں ہی نہیں،ہم سب پاکستانی خوشی کے مارے شاید رات بھر سو نہ سکیں، لیکن حالت یہ ہے کہ جو ادارہ نمبر وَن قرار پایا، اس کا تو کسی کو علم ہی نہیں۔ کیا یہ ایٹمی سائنس دان کسی دشمن ملک کے ہیں جن کو ہمارے ذرائع ابلاغ معمولی سی جگہ بھی نہیں دے سکے اور خود ساختہ نمبر وَن کا یہ حال ہے کہ ہرتیسرا پاکستانی اس خمارِ بے تریاق کی پَینک میں مخمور ہے کہ ہم چو ما دیگرے نیست!
یہ بات بھی نہیں ہے کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور دیگر ایٹمی اداروں کا کوئی افسر تعلقات عامہ نہیں ہے، یا ان اداروں کے وسائل اس قدر نہیں ہیں کہ وہ اپنی سرگرمیوں کی نشرو اشاعت نہ کر سکیں۔ ہر وہ شخص یا ادارہ جسے اپنے کام سے لگاؤ ہوتا ہے، وہ بس اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔ رہی اس کی نیک نامی کی اشاعت تو وہ اس کے ذمے نہیں ہوتی بلکہ دیگر ملکی ادارے اور ذرائع ابلاغ از خود اس کی اشاعت کرتے ہیں، لیکن حالت یہ ہے کہ ہمارے ان نمبر وَن ایٹمی سائنس دانوں کے بارے میں شاید ہی کوئی باخبر ہو گا۔ تو ذرائع ابلاغ ا ور ان کو گرفت میں رکھنے والے اداروں کی کیا یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ اس قسم کی مثبت خبروں کی کوئی پریس ایڈوائس جاری کر دیا کریں۔ شام کو کم و بیش ہر ٹی وی چینل پر ”دانشور“کیا کچھ توتکار اور عامیانہ زبان میں گل افشانی نہیں کر رہے ہوتے، لیکن مجال ہے کہ ہمارے ایٹمی سائنس دانوں کی اس قابل ذکر کارکردگی پر کسی ایک چینل نے بھی کوئی پروگرام کیا ہو۔
بھارت عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن کا مقدمہ لے کر گیا اور متعدد اعتراضات بھرے نکات اٹھائے۔ عدالت نے بھارت کے حق میں صرف یہ فیصلہ دیا کہ بھارتی کونسلر کو کلبھوشن تک رسائی دی جانا چاہیے تھی، لیکن اسی فیصلے میں عالمی عدالت نے پاکستان کے عدالتی نظام کے حق میں پشاور ہائی کورٹ کے ان فیصلوں کو بطور نظیر پیش کیا جن میں چیف جسٹس جناب سیٹھ وقار صاحب نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ متعدد افراد کے حق میں فیصلے دیئے۔ عالمی عدالت انصاف نے پشاور ہائی کورٹ کے ان فیصلوں کو پاکستانی عدلیہ میں سے ایک مثال کے بطور بیان کر کے پاکستان کو ایک مہذب اور عالمی صف کے ان ممالک میں قرار دیا جن کا عدالتی نظام دنیا بھر کے لئے مثال گردانا جاتا ہے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے آپ سے یہ سوال کیجئے کہ عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے کے اس نمایاں اور روشن حصے سے پاکستان کے کتنے لوگ ایک ہفتہ قبل تک باخبر تھے، تاوقتیکہ جسٹس سیٹھ وقار صاحب کا پرویز مشرف کے بارے میں فیصلہ آنے پر ایک نئی بحث کا آغاز ہوا تو لوگوں کو معلوم ہوا:”ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی“۔
کیا ہی اچھا ہو کہ عطا ر مشک کو مشک قرار نہ دے، مشک خود بول بول کر، لوگوں کے نتھنوں میں کچوکے دے دے کر خود کو منوائے کہ ہاں میں مشک ہوں۔ یوں عامۃ الناس جسے مشک قرار دیں وہی مشک ہو، وہی نمبر وَن ہو۔ چاہے وہ ہمارے ایٹمی سائنس دان ہوں یا جسٹس سیٹھ وقار ہوں۔ یہ دونوں مثالیں وہ ہیں جنہیں بیرون ملک عالمی اداروں میں آزادانہ اوربانداز دگر پذیرائی حاصل ہو چکی ہے اور یہی دمکتے ستارے ہماری نئی منزلوں کے نشانِ راہ ہیں۔ یہی منارۂ نو ر ہیں اور یہی ہمارا مستقبل ہیں۔ رہے دیگر خود ساختہ نمبر وَن ادارے تو مَیں یہی عرض کروں گا: مشک آنست کہ خود ببویدنہ کہ عطار بگوید۔ وما علینا الی البلاغ۔