شہید بے نظیر بھٹو کی سیاسی میراث اور پیپلزپارٹی

شہید بے نظیر بھٹو کی سیاسی میراث اور پیپلزپارٹی
شہید بے نظیر بھٹو کی سیاسی میراث اور پیپلزپارٹی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


محترمہ بے نظیربھٹو کو آج کے دن جب راولپنڈی میں شہید کیا گیا تو وہ سیاستدان سے زیادہ ایک مدبر رہنما اور روشن دل و دماغ رکھنے والی لیڈر بن چکی تھیں۔ لیاقت باغ جلسے میں ان کا آخری خطاب ایک مفکرانہ اور بلیغ تصورات زندگی رکھنے والے قومی رہنما جیسا تھا۔ اس جلسے کی کامیابی سے وہ بہت خوش تھیں، غالباً انہیں امید ہو چلی تھی کہ جب وہ تیسری مرتبہ اقتدار میں آئیں گی تو اپنے پہلے دو تجربات اور ان کی ناکامیوں کو نہیں دھرائیں گی۔وہ جب سٹیج کی سیڑھیوں سے اتر رہی تھیں تو ان کی باڈی لینگوئج سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ ایک فاتح کی حیثیت سے جلسہ گاہ چھوڑ رہی ہیں۔ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ تیزی اور سرخوشی عارضی ہے اور چند لمحوں کے بعد انہیں اس دنیا ہی سے رخصت ہوجانا ہے۔ ایک لیڈر کا یوں اچانک چلے جانا معمولی بات نہیں ہوتی۔ بھرپور زندگی کے ساتھ جینے والی بے نظیر بھٹو پلک جھپکنے میں موت کی نذر ہو جائیں گی، کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی دنیا سے رخصتی اتنی اچانک اور اندوہناک نہیں تھی، جتنی شہید بے نظیر بھٹو کی ثابت ہوئی۔

ذوالفقار علی بھٹو ایک فوجی حکمران کی گرفت میں تھے اور قتل کا مقدمہ بھگت رہے تھے۔ انہیں لاہور ہائیکورٹ سے سزائے موت سنائی جا چکی تھی اور آثارنظر آ رہے تھے کہ سپریم کورٹ سے ریلیف نہ ملا تو موت سے بچنا مشکل ہوگا، مگر بے نظیر بھٹو کے بارے میں تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اچانک لقمہء اجل بن جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی موت پر اتنا ردعمل سامنے نہیں آیا تھا، جتنا شہید بے نظیر بھٹو کی موت پر ہوا۔ پورا ملک بند ہو گیا اور نہ ختم ہونے والے ہنگامے پھوٹ پڑے۔ پیپلزپارٹی ہی اس آگ پر پانی ڈال سکتی تھی، سو آصف علی زداری کے ”پاکستان کھپے“ کے نعرے نے یہ کام کر دیا۔ پیپلزپارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو کی شکل میں ایک اور شہید مل گیا۔ اسی کے صدقے میں پیپلزپارٹی چوتھی بار اقتدار میں آئی۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ پیپلزپارٹی بے نظیر بھٹو کی سیاسی سوچ اور وژن کو لے کر آگے بڑھتی، اپنے اقتدارکو مضبوط کرتی، مگر سب نے دیکھا کہ آصف علی زردری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کسی اور ہی راستے پر چل نکلی۔ کرپشن اس کی رفتہ رفتہ سب سے بڑی پہچان بن گئی اور بالآخر یہی اس کے زوال کا سبب بنی۔


آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے جئے بھٹو کا تو صرف نعرہ لگایا، زیادہ تر دعوے شہید بی بی کے افکار پر چلنے کے لئے۔ بے نظیر بھٹو تو چاروں صوبوں کی زنجیر تھیں، لیکن پیپلزپارٹی کو صرف سندھ تک محدود کر دیا گیا۔مَیں دعوے سے کہتا ہوں آج بے نظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو پیپلزپارٹی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہوتی۔ پنجاب میں اس کا یہ حال نہ ہوتا کہ لیاقت باغ کو بھرنے کے لئے پورے ملک سے کارکنوں کو راولپنڈی لانے کی نوبت آتی۔ جب بے نظیر بھٹو نے 27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ میں جلسہ کیا تھا تو صرف راولپنڈی سے لوگ آئے تھے، آج ان کی یاد میں منعقد ہونے والے جلسے کے لئے چاروں صوبوں سے کمک منگوائی گئی ہے، پھر بھی شائد یہ جلسہ اتنا بڑا نہ ہو، جتنا شہید بے نظیر بھٹو نے یہاں کیا تھا۔ شہید بے نظیر بھٹو کی شخصیت قومی سطح کے لیڈر کی منزل کو پا گئی تھی۔

درحقیقت انہیں چاروں صوبوں میں ایک ایسے لیڈر کا مرتبہ مل چکا تھا، جس پر عوام انحصار کرتے ہیں۔ آٹھ برس عوام سے دور رہنے کے بعد جب وہ نمناک آنکھوں سے عوام کے درمیان آئی تھیں، تو صاف لگ رہا تھا کہ سیاست ان کے نزدیک کوئی اقتدار کا مسئلہ نہیں، بلکہ وہ سیاست کے ذریعے قوم اور ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے اندر ایک تڑپ تھی، ایک جذبہ تھا، جسے وہ سیاست کے ذریعے بروئے کار لا کر کچھ کر گزرنے کی متمنی تھیں۔ اگر دست اجل سے بچ جاتیں اور تیسری بار اقتدار میں آجاتیں تو یقین سے کہاجا سکتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت، سیاست اور معیشت میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوتیں، آج پاکستانی سیاست کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ ریاست جس طرح مسائل میں گھری ہوئی ہے اور طاقت کے مراکز ایک دوسرے کے ساتھ الجھ رہے ہیں، وہ شائد اپنی اپنی جگہ اور اپنا اپنا دائرہ کار پا کر مطمئن ہو چکے ہوتے، کیونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جلا وطنی کے دنوں میں بہت کچھ سیکھا تھا اور ان کی سوچ میں اتنی وسعت ضرور آ چکی تھی، جو ایک مضبوط وفاق کو چلانے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ لیاقت باغ جلسے میں ان کا آخری خطاب اس بارے میں بہت کچھ سمجھاتا ہے۔


پیپلزپارٹی ہر سال شہید بے نظیر بھٹو کی برسی بڑے جوش و جذبے سے مناتی ہے۔ پہلے یہ جلسہ گڑھی خدا بخش ہی ہوتا رہا ہے، اسی طرح کے ایک جلسے میں آصف علی زرداری نے بلاول بھٹو زرداری کی بطور پارٹی چیئرمین رونمائی بھی کرائی تھی۔ اب یہ جلسہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہو رہا ہے۔ وہی لیاقت باغ جہاں بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اس جلسے کو راولپنڈی میں کرنے کی وجہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کو پنجاب میں زندہ کیا جائے۔ اس جلسے میں آصف علی زرداری شائد خرابیء صحت کی وجہ سے شریک نہ ہو سکیں، بلاول بھٹو زرداری ہی اس جلسے کے محور و مرکز ہوں گے۔ کیا یہ واقعی اتنا بڑا عوامی شو ہو گا کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلے۔ کیا ایک جلسے کی کامیابی سے ناکامی کے سارے داغ دھل جائیں گے۔ کیا بے نظیر بھٹو کے بعد پیپلزپارٹی کے پاس ایسا کوئی بیانیہ ہے جو پنجاب کے عوام کو اپنی طرف متوجہ کر سکے؟…… زمینی حقائق بہت ناموافق ہیں۔ پنجاب کے عوام نے تو مسلم لیگ (ن) کی سٹریٹ پاور ختم کر دی ہے، حالانکہ وہ پنجاب کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ وجہ صرف کرپشن ہے۔ کرپشن کی کہانیوں نے عوام کے ذہنوں میں گویا زہر بھر دیا ہے، وہ لاتعلق سے ہو گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حالت تو مسلم لیگ(ن) سے بھی بُری ہے۔ خود سندھ کے اندر اسے عوامی ردعمل کا سامنا ہے۔


اب اس صورت حال سے صرف اسی طرح نکلا جا سکتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری، اپنی والدہ شہید بے نظیر بھٹو کی ہو بہو تصویر بن جائیں، وہی امید دلائیں جو محترمہ دلاتی تھیں اور اسی سیاسی وژن کو سامنے لائیں، جو بے نظیر بھٹو شہید کی پہچان بن گیا تھا،مگر یہ کام آسان نہیں۔ صرف شہید بے نظیر بھٹو کا نام لینے سے تو بات نہیں بنے گی۔ ان کے نام پر جلسہ کرنے سے تو عوام بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ نہیں ہو جائیں گے، جبکہ آج بھی ہر شخص کو یقین ہے کہ پیپلزپارٹی کو آصف علی زرداری چلا رہے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری صرف فرنٹ لائن پر کھڑے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری اپنی والدہ شہید بے نظیر بھٹو کے سیاسی قد کاٹھ سے ابھی بہت پیچھے ہیں۔ وہ اس نکتے کو بھی ابھی تک نہیں سمجھ سکے کہ شہید بے نظیر بھٹو اپنے سیاسی مخالفین پر بازاری انداز میں تنقید نہیں کرتی تھیں، انہوں نے زندگی بھر شائستگی کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ ایک بڑے لیڈر میں جو اوصاف ہونے چاہئیں، وہ بے نظیر بھٹو میں موجود تھے، مگر بلاول ان سے محروم ہیں۔

وہ آئے روز ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو جگ ہنسائی کا باعث بنتی ہیں، مثلاً بے نظیر بھٹو نیب کے بلاوے پر کبھی یہ نہ کہتیں کہ مجھے گرفتار کیا تو زیادہ خطرناک ہو جاؤں گی، بلکہ وہ لیڈرانہ شان سے پیش ہوتیں، وہ کبھی حاضر سروس وزیراعظم کا لفظی مضحکہ نہ اڑاتیں اور نہ ہی جواب میں انہیں شیخ رشید احمد جیسے لوگوں کی تضحیک کا سامنا کرنا پڑتا۔ بے شمار ایسے پہلو ہیں، جو اس بات کی چغلی کھاتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے پاس بلاول بھٹو زرداری سمیت ایسا کوئی لیڈر نہیں جو خود کو شہید بے نظیر بھٹو کی سیاسی میراث کا حقیقی وارث ثابت کر سکے۔جب تک یہ خلاء پورا نہیں ہوتا، پیپلزپارٹی عوام میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل نہیں کر سکتی۔ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے، جس کا پیپلزپارٹی والے سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -