ججز کی تقرری، چند گزارشات(2)
عدلیہ کی آزادی کا مطلب ججوں کی آزادی،خود مختاری اور غیر جانبداری ہے۔ جج جب لانے والے کے احسان مند نہیں ہوں گے اس احساس سے آزاد ہو نگے کہ کون مجھے لایا اور کس کو راضی کرنا ہے،کس کے حکم پر ترقی ہو سکتی ہے اور کس کے حکم پر کیریئر ختم ہو سکتا ہے،تب تک ججز آزادانہ،غیر جانبدارانہ فیصلے نہیں کر سکیں گے۔ عدلیہ کی آزادی کے خواب کو تعبیر دینے کیلئے ہمیں ججز کی نامزدگی،تقرری، ترقی کا ایک خود کار نظام وضع کرنا ہو گا،حکومت وقت یا سیاسی مداخلت کو مستقل اور مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا۔ہمارے ہاں ججز کی تقرری میں اگرچہ جوڈیشل کمیٹی کا بہت کردار ہے مگر یہ کردار نامزدگی تک محدود ہے،تقرری کا اختیار صدر مملکت کو ہے۔
ہمیں،اہم ترین وکلاء کی بطور جج نامزدگی کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے،عدلیہ میں جانبداری ان ہی ججز کی وجہ سے ہے جو بار کی سیاست کے نتیجے میں سیاسی جج نامزد کئے جاتے ہیں آج کی عدلیہ میں بھی ایسے ججوں کی اکثریت ہے،ضروری ہو گا ججوں کی نامزدگی جج تقرری کمیٹی کرے صدر مملکت کی نامزدگی رسمی ہونی چاہئے،جوڈیشل کمیٹی سب سے پہلے کم از کم پانچ سال تک سیشن جج کے طور پر خدمات انجام دینے والے ما تحت عدلیہ کے ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لے اور جس جج کی کارکردگی بہترین ہو اسے ہائیکورٹ کے جج کے طور پر نامزد کیا جائے،کارکردگی کے جائزہ کے وقت مقدمات کی سماعت، فیصلوں،اعلیٰ عدلیہ سے کئے گئے فیصلوں کو مسترد کئے جانے کا جائزہ لئے جائے،ایک جج نے مختصر وقت میں بہت فیصلے کئے ہوں مگر اعلیٰ عدلیہ نے ان تمام یا زیادہ تر فیصلوں کو غلط قرار دیکر سزا معطل کر دی ہو یا بری کئے گئے ملزم کے خلاف دوبارہ سے تفتیش کی ضرورت محسوس کی ہو تو یہ اچھی نہیں بری کارکردگی تصور کی جائے۔
ا مریکہ، برطانیہ، کینیڈا میں ججوں کی تقرری اگر چہ حکومت کرتی ہے مگر اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کیلئے ماتحت عدلیہ میں دس سال خدمات انجام دینا اور 60 سال یا اس سے زائد کا ہونا ضروری ہے۔جج کی تقرری خاص مدت کیلئے نہیں بلکہ تاعمر ہوتی ہے لیکن اگر کوئی ضعیفالعمری یا ناسازی طبع پر استعفیٰ دیدے تو اس کی مرضی،امریکہ میں نامزدگی جوڈیشل کمیٹی کرتی ہے منظوری سینیٹ دیتی ہے،مگر کسی جج کی تعیناتی سے پہلے اس کے ماضی، کردار،عدالتی فیصلوں،اثاثوں کی سخت ترین جانج پڑتال کی جاتی ہے۔ ترقی تبادلہ کا بھی ایک خود کار نظام ہے جس میں حکومت مداخلت نہیں کر سکتی،یہی وجہ ہے کہ جج ہر قسم کے فیصلے کرنے میں آزاد ہوتے ہیں اور بہت کم فیصلے متنازع ہوتے ہیں فیصلوں پر تنقید کی روائت بھی نہیں ہے،لہذٰا عدلیہ متنازعہ ہوتی ہے نہ فیصلے۔
برطانیہ میں ماتحت عدلیہ کے سالہا سال کے تجربات کو ضائع نہیں کیا جاتاڈسٹرکٹ ججوں کو ہی اعلیٰ عدلیہ میں انصاف کی فراہمی کی ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے البتہ امریکہ،کینیڈا،برطانیہ میں صرف ایپلٹ کورٹ کے ججوں کی تقرری حکومت وقت کی مکمل ذمہ داری ہوتی ہے اور ان کی تقرری کی مدت کا تعین تقرری کے وقت ہی کر دیا جاتا ہے، مستقل بنیاد پر تقرری نہیں ہوتی،ہمارے ہاں مگر معاملہ الٹ ہے ساری زندگی ماتحت عدلیہ میں خدمات انجام دینے والے سیشن اور ڈسٹرکٹ ججوں کی اکثریت اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر کر دئیے جاتے ہیں،اعلیٰ عدلیہ میں زیادہ تر جج بار کی سیاست میں سرگرم یا حکومت وقت کے پسندیدہ وکلاء کونامزد کیا جاتا ہے،جو خرابیوں کی بڑی وجہ ہے،جج ایک بہت ہی معزز عہدہ ہے اور اس کا غیر جانبدار غیر سیاسی ہونا بہت ضروری ہے۔
جج اگر متعصب ہو گا تو انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جا سکیں گے،اس لئے انتہائی ضروری ہے کہ ججوں کی نامزدگی تقرری ترقی کو حکومتی عمل دخل اور وکلاء سیاست سے پاک کیا جائے،اس کا بہترین طریقہ ڈسٹرکٹ اور سیشن ججوں کو ما تحت عدلیہ میں مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد کارکردگی کی بناء پر اعلیٰ عدلیہ میں جج مقرر کرنا ہے۔ڈسٹرکٹ ججوں کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہوتا ہے نہ بار کی سیاست سے کوئی واسطہ،ان کے پاس علم اور تجربہ بھی ہوتا ہے،اسی لئے ترقی یافتہ ممالک میں ان پر انحصار کیا جاتا ہے،اسی وجہ سے امریکہ کینیڈا اور یورپی ممالک کی عدلیہ نہ صرف غیر جانبدار ہوتی ہے بلکہ اس کے فیصلے بھی غیر متنازعہ ہوتے ہیں۔
وکلاء کو اگرکوٹہ دینا مجبوری ہو تو اس کیلئے ایک نہائت سخت امتحان فٖیڈرل پبلک سروس کمیشن کی طرز پر لیا جائے،ہائیکورٹ میں دس سالہ پریکٹس کی شرط پر خواہشمند وکلاء کا امتحان لیا جائے جو وکیل اس امتحان میں کامیاب ہو اسے ایڈیشل جج ہائیکورٹ دوسال کیلئے تعینات کر دیا جائے،مستقل تقرری کیلئے دو سالہ کیرئر کو سامنے رکھا جائے،دوسال میں کئے گئے فیصلوں کو مد نظر رکھ کر تقرری کی جائے،اگر دو سال میں ان کی تقرری بہتر نہ ہو تو ان کو فارغ کر دیا جائے،سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری کا جو نظام ہمارے ہاں رائج ہے وہ بہت مناسب ہے۔
ہماری عدلیہ کا ایک بڑا مسئلہ ان کے فیصلوں پر مناسب عملدرآمد نہ ہونا ہے،عدالتیں فیصلے سنا دیتی ہیں مگر ان پر عملدرآمد کی ذمہ داری پولیس یا انتظامیہ کی ہوتی ہے اور یہاں رشوت سفارش کی وجہ سے عدالتی فیصلوں پر ان کی روح کے مطابق عمل نہیں ہوتا،اس لئے ضروری ہے کہ اس حوالے سے قانون سازی کی جائے اور عدالت جتنے بھی فیصلے کرے ان پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ذمہ داری بھی اسی عدالت کی ہو،عدالت جس انتظامی محکمہ کو بھی مسئلہ حل کرنے کا حکم دے اس محکمے کو پابند کر دے کہ دس،پندر ہ روز یا ایک ماہ میں مسئلہ حل کر کے اسی عدالت کو مقررہ تاریخ پر رپورٹ دے۔
اس روز مدعی کو بھی طلب کر کے پوچھا جائے کہ اس کی داد رسی ہوئی یا نہیں اور داد رسی نہ ہونے تک کیس خارج نہ کیا جائے،عدالتی حکم کے بعد عدالت تو بری الذمہ ہو جاتی ہے مگر مدعی ایک نئی الجھن کا شکار ہو جاتا ہے کہ متعلقہ محکمہ اپنی مرضی سے معاملہ کو دیکھتا ہے اسے معلوم ہوتا کہ مدعی کو داد رسی کیلئے پھر عدالت سے ہی رجوع کرنا پڑے گا اور اس سارے معاملہ میں مہینوں بھی لگ سکتے ہیں تب تک متعلقہ محکمہ کے افسر اور ملازم جانے کہاں ہوں گے اور نئے آنے والے یہ کہہ کر جان چھڑا لیں گے کہ ان سے پہلے والے افسروں نے کوتاہی کی،اب مسئلہ حل ہو جائے گا،مگر مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہوتا۔اس لئے ضروری ہو گا کہ جو عدالت بھی فیصلہ دے وہ عملدرآمد تک کیس خارج نہ کرے اور متعلقہ محکمہ سے عملدرآمد کی رپورٹ طلب کرے،اس حوالے سے قانون سازی کرنا ہوگی اور وزارت قانون و انصاف کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔