نیب کی قانونی چارہ جوئی کے فیصلے پر سینئر صحافی انصار عباسی ایک مرتبہ پھر میدان میں آگئے، اعلان کردیا

نیب کی قانونی چارہ جوئی کے فیصلے پر سینئر صحافی انصار عباسی ایک مرتبہ پھر ...
نیب کی قانونی چارہ جوئی کے فیصلے پر سینئر صحافی انصار عباسی ایک مرتبہ پھر میدان میں آگئے، اعلان کردیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (ویب ڈیسک) روزنامہ جنگ اور انصار عباسی کیخلاف نیب کی قانونی چارہ جوئی کے فیصلے پر سینئر صحافی انصار عباسی کا موقف بھی آگیا ۔ 

روزنامہ جنگ کے مطابق احسن اقبال سے پوچھے گئے سوالات اور ان کے جوابات کے عنوان سے شائع ہونے والی خبر پر نیب کے قانونی چارہ جوئی کے فیصلے کے حوالے سے انصار عباسی کا کہنا ہے کہ نیب کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں جو لب و لہجہ اختیار کیا گیا ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ خبر میں صرف نیب کے سوالات اور احسن اقبال کے جوابات شائع کیے گئے ہیں، جن کی تردید نہیں کی گئی۔

عمومی صحافتی طرز عمل اختیار کرتے ہوئے خبر میں قارئین کیلئے حقائق ویسے ہی پیش کیے گئے ۔ ایسا لگتا ہے کہ خبر پڑھے بغیر ہی پریس ریلیز جاری کی گئی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ خبر میں نیب کیخلاف کوئی الزام تراشی نہیں کی گئی، سوال  جواب شائع کرنے سے نیب کی ساکھ کیسے مجروح ہوئی؟ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔

رپورٹ کے مطابق نیب کی اس نمائندے (انصار عباسی ) اور جنگ گروپ کیخلاف ناقابل قبول ناراضی، بظاہر ادارے کی اپنی بڑھتی فرسٹریشن کی عکاسی کرتی ہے۔ کئی کیسز میں حال ہی میں عدالتوں نے ایسے فیصلے صادر فرمائے ہیں جو نیب کیلئے باعث ہزیمت ہیں، اعلیٰ عدلیہ نے حال ہی میں اپنے فیصلوں میں نیب کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے ہیں اور بیورو اور احتساب کے عمل کیلئے عدالتی فیصلوں میں’’اختیارات کا بے دریغ استعمال‘‘، ’’بد نیتی‘‘، ’’قیاس آرائی‘‘، ’’بنا مشاہدے کے اقدامات‘‘، ’’عدم صلاحیت‘‘ وغیرہ جیسی اصطلاحات کا استعمال کیا جا چکا ہے۔ تقریباً ان تمام کیسوں میں، عدالتوں نے دیکھا کہ نیب کرپشن کے شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا لیکن اس کے باوجود ملزم کو گرفتار کیا گیا۔

مثلاً پنجمن (PUNJMIN) مائننگ کنٹریکٹ ریفرنس میں  لاہور ہائی کورٹ نے حال ہی میں اُس وقت کے وزیر برائے مائنز اینڈ منرلز محمد سطبین خان کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ نیب نے 2013ء میں اس معاملے میں انکوائری بند کرکے بتایا تھا کہ قومی خزانے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا کیونکہ پنجاب حکومت نے ٹھیکہ منسوخ کر دیا تھا لیکن چیئرمین نیب نے انکوائری کیے بغیر ہی کیس ان افراد کیخلاف دوبارہ کھول دیا جن کیخلاف پہلے یہ کیس بند کیا گیا تھا۔

مزید لکھا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں نشاندہی کی کہ بیورو کی فیصلہ سازی میں سنگین خامیاں ہیں حتیٰ کہ اعلیٰ ترین سطح پر بھی غلطیاں کی جا رہی ہیں:… ’’لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ریکارڈ پر کوئی نئی بات سامنے نہیں لائی گئی، لیکن ڈی جی نیب کے خط مورخہ 26؍ اپریل 2018ء کے تحت یہ انکوائری سابقہ الزامات پر کھولی گئی ہے۔

چیئرمین نے صرف انکوائری دوبارہ کھولنے کا حکم دیدیا اور نیب کے کسی افسر کو انکوائری بند کرنے کا ذمہ دار تک قرار نہیں دیا گیا۔ یہ ایسا نہیں ہے کہ صرف خواہشات کی بنا پر ہی بند کی گئی انکوائری کو  دوبارہ کھول دیا جائے۔ اگر وجوہات تھیں تو وہ پراسرار ہیں۔ چیئرمین نیب کے اختیارات قانون کے تحت بنائے گئے ہیں ۔

اخبار کے مطابق استغاثہ نے درخواست گزار پر کسی طرح کی رشوت، کک بیکس، کمیشن یا مالی فوائد کے حصول یا قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد نہیں کیا۔ اس کے علاوہ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کے قائم کردہ ایل این جی ٹرمینل کیس کو کم و بیش پٹخ کر رکھ دیا تھا۔ عمران الحق کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں نیب کی نالائقی کا ذکر کیا کہ کس طرح صرف خیالات کی بنا پر مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں اور ایسے معاملات میں نیب میں تحقیقات کی صلاحیت نہیں ہے، قوانین کا من مانا استعمال کیا جا رہا ہے اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، جبکہ معیاری بین الاقوامی کاروباری روایات کو ملک کا اینٹی کرپشن کا ادارہ (نیب) کرپشن گردانتا ہے۔

اخبار کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ نیب نے ایل ین جی ٹرمینل کے نیلامی کے عمل میں قوائد کی خلاف ورزیوں کی کوئی نمایاں نشاندہی نہیں کی جبکہ بیورو کی جانب سے جن اعداد و شمار کی نشاندہی کی گئی ہے کہ قومی خزانے کو اتنا نقصان ہوا ہے وہ اعداد و شمار محض قیاس پر مبنی ہے۔ فیصلے میں بتایا گیا کہ درخواست گزار کیخلاف کرپشن کے ٹھوس شواہد نہیں لیکن صرف یہ نیب کی قیاس آرائی ہے کہ عمران الحق کا بطور ایم ڈی پی ایس او تقرر انہیں مبینہ طور پر فائدہ پہنچانے کیلئے کیا گیا ہے۔

فیصلے میں عدالت نے لکھا ہے کہ ہم نے کئی کیسز میں یہ نوٹ کیا ہے کہ تحقیقات کرنے والے ماہرین تفتیش کار یا کان کن کے ماہرین نہیں۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ وائٹ کالر کرائم سے جڑے معاملات میں شاید ہی کبھی تربیت یافتہ ماہرین یا چارٹرڈ اکائونٹنٹس کی خدمات تحقیقات یا تفتیش کے دوران حاصل کی گئی ہوں۔ تفتیش کاروں کی پیشہ ورانہ قابلیت اور صلاحیت وائٹ کالر کرائم کے معاملے میں لاعلاج ہوگئی ہے  جس مقصد کیلئے نیب آرڈیننس نافذ کیا گیا تھا وہ صرف اسی صورت حاصل کیا جا سکتا ہے جب مبینہ جرم کی تحقیقات پیشہ ورانہ افراد کریں جنہیں وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کیلئے تربیت دی گئی ہو۔ موجودہ کیس اس بات کی واضح مثال ہے کہ ایک شہری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ریکارڈ پر پیش کی جانے والی تحقیقاتی رپورٹس اور تحریری جوابات نیب کی وائٹ کالر کرائم میں تحقیقات کی صلاحیت کی پول کھولنے کیلئے کافی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ا س تازہ ترین فیصلے سے قبل، شہباز شریف اور دیگر کیخلاف قائم کردہ صاف پانی پروجیکٹ، رمضان شوگر ملز اور آشیانہ ہائوسنگ اسکیم کے کرپشن کیسز میں بھی نیب کو سپریم کورٹ میں زبردست ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کیسز میں سے کم از کم دو میں، لاہور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ نیب نے بدنیتی سے کام لیا۔ تینوں مقدمات میں لاہور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ اختیارات کا ناجائز استعمال ہوا اور نہ ہی قانون و قوائد یا ضابطے کی کوئی خلاف ورزی۔ اس کی بجائے عدالت کا کہنا تھا کہ کوئی کک بیک، کرپشن، کمیشن یا غیر قانونی فائدہ حاصل نہیں کیا گیا۔

نیب نے تین مرتبہ وزیراعلیٰ منتخب ہونے والے اور ان کے بیورکریٹک مشیروں پر بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا تھا لیکن ادارہ کچھ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ صاف پانی اور رمضان شوگر کے معاملے میں لاہور کورٹ کا کہنا تھا کہ نیب نے بد نیتی کا مظاہرہ کیا۔ آشیانہ ہائوسنگ اسکیم اور رمضان شوگر ملز کیس میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر لاہور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور نہ ہی پروجیکٹ کیلئے مختص فنڈز میں خرد برد کی، غیر قانونی مالی فوائد، کک بیکس یا کمیشن بھی نہیں لی گئی۔ آشیانہ کیس میں عدالت کا کہنا تھا کہ سرکاری زمین کا ایک انچ بھی کسی کو نہیں دیا گیا۔

مزیدلکھا گیا ہے  کہ صاف پانی کیس میں انتظامیہ نے تقریباً 40؍ کروڑ روپے بچائے جبکہ رمضان شوگر ملز کیس میں عدالت کا کہنا تھا کہ نکاسی کا جو راستہ (ڈرین) رمضان شوگر ملز کیلئے بنایا گیا تھا وہ ’’پبلک ویلفیئر پروجیکٹ‘‘ تھا۔ آشیانہ کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے نیب کے دہرے معیارات کا بھانڈا پھوڑنے کیلئے پی ٹی آئی حکومت کی ہائوسنگ اسکیم کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ قابل ناقابل فہم ہے کہ نیب کیوں اس بات پر اصرار کر رہا ہے کہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی بجائے یہ پروجیکٹ سرکاری انداز سے آگے بڑھانا چاہئے تھا حالانکہ پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کا طریقہ کار بھی قانونی ہی ہے اور پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ ایکٹ 2014ء کے عین مطابق ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موجودہ حکومت نے بھی 50؍ لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ اسی طرح (یعنی پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ) سے شروع کیا ہے اور اس پر تو نیب نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ نیب کیخلاف ایسے کئی عدالتی حوالہ جات موجود ہیں۔

نیب انتظامیہ اور اس کے ترجمان کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ میڈیا حقائق کو ویسے ہی شائع یا پیش کرتا ہے جیسے یہ ہوتے ہیں۔ جس خبر کا حوالہ نیب نے دیا ہے وہ خبر پیشہ ورانہ انداز سے شائع کی گئی ہے اور حقائق پیش کیے گئے ہیں، نیب نے ان کی تردید نہیں کی۔ اس سلسلے میں اگر نیب مزید انوسٹی گیشن کرے گا تو بھی فریقین کا نقطہ نظر شائع کیا جائے گا۔ احسن اقبال سے پوچھے گئے سوالات کی صورت میں ہم نے نیب کا موقف ہی پیش کیا ہے, جب بھی نیب سے موقف معلوم کرنا چاہا، بیورو کی جانب سے نہیں دیا گیا۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود بیورو اگر چاہے تو  قانونی راستہ اختیار کر سکتا ہے  اور  ادارہ اپنی خبر پر قائم ہے۔

مزید :

قومی -