بے نظیربھٹوکی یادکہتی ہے کہ ”ووٹ کوعزت دو“!

بے نظیربھٹوکی یادکہتی ہے کہ ”ووٹ کوعزت دو“!
بے نظیربھٹوکی یادکہتی ہے کہ ”ووٹ کوعزت دو“!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


27دسمبرنہ بھولنے والادن جب عظیم لیڈر، دور اندیش، معصوم، جمہوریت کی لڑائی لڑنے والی، انسانی آزادیوں کو حقیقت کا روپ دینے والی، عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے والی، پریس کی زنجیروں کو توڑنے کا عزم رکھنے والی اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھنے والی بے نظیر بھٹو کو ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ہم سے چھین لیا گیا۔ وہ دن نہ بھولنے والا تھا۔ ابھی چند دن پہلے تو میری محترمہ سے انتخابی جلسوں کے حوالے سے تفصیلی بات ہوئی تھی وہ مشاورت پر یقین رکھتی تھیں۔ مجھے ان سے کبھی یہ شکوہ نہیں رہاکہ میں نے انہیں کوئی مشورہ دیا اور انہوں نے اس کو تسلیم کرتے ہوئے اس پرعمل نہ کیا ہو۔ 27 دسمبر سے چند ہفتے قبل مَیں نے محترمہ سے اجازت لے کر جنرل توقیر ضیاء کو پاکستان پیپلزپارٹی میں شامل کرایا تھا۔ بی بی نے پشاور اور پنجاب کے جلسوں کا پروگرام بنایا تو میں نے ان  سے گزارش کی کہ پشاور، راولپنڈی، جہلم، گوجرانوالہ اور لاہور کے جلسوں میں جنرل توقیر کو ساتھ رکھا جائے، کیونکہ وہ کشمیری ہیں اور ان علاقوں میں فوجیوں اور کشمیریوں کی اکثریت ہے۔اس لئے ان کی موجودگی الیکشن میں فائدہ دے گی۔ محترمہ نے نہ صرف مشورہ قبول کیا،بلکہ حکم دیاکہ انہیں پشاورکے جلسہ سے قبل اسلام آبادبلالو۔


 محترمہ بے نظیربھٹوکی سیاسی زندگی جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور سے شروع ہوئی اور جنرل پرویز مشرف کے فسطائی دورمیں ختم ہوگئی۔ سیاسی زندگی ایک ایک لمحہ جدوجہدمیں گزرا۔ اقتدار حاصل کیاتو بڑے سے بڑا کام کیا۔ ملک کو مضبوط کرنے کی کوشش کی، ملکی دفاع کو بہتر بنایا۔ حکومت چلانے کے لئے EGO کی بجائے مصلحت کاراستہ اختیار کیا مخالفین کو ساتھ ملایا۔ بے نظیر بھٹو ڈائیلاگ پر یقین رکھتی تھیں۔ سیاسی مخالفین کو دشمن نہیں سمجھتی تھیں۔جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کا وقت آیا تو میاں نواز شریف کو ساتھ ملایا۔مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان کی قیادت میں اے آر ڈی بنا ڈالی۔بیرون ملک بیٹھ کراحتجاجی تحریک کی قیادت کی۔پاکستان میں جمہوریت 2008ء کے بعد سے چل رہی ہے۔ بدقسمتی سے جمہوریت برائے نام ہے۔آج پھرملک میں ”ووٹ کو عزت دو“ کی تحریک چل رہی ہے۔  بے نظیربھٹونے اپنی زندگی اس نعرہ کے لئے صرف کر دی۔ آج پھر عدلیہ کی آزادی سوالیہ نشان بن گئی ہے، پھر صحافت زنجیروں میں جکڑی جکڑی لگ رہی ہے پارلیمنٹ غیرموثرہوچکی ہے۔احتسابی ادارہ کی غیرجانبداری پرشک کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ نیب کو سیاسی انتقام کے طوپر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ حکمران مذاکرات نہیں کر پا رہے۔ وزیراعظم عمران  خان کے قریبی لوگ گالی نکالنے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔خیال کیاجاتاہے کہ جوجتنی بڑی گالی اپوزیشن کودے گاوہ اتنازیادہ وزیراعظم کے قریب ہوگا۔


 حکومت اوراپوزیشن گاڑی کے دو پہئے ہوتے ہیں ایک پہئے کے ساتھ گاڑی نہیں چل سکتی۔دونوں پہیوں کومل کر چلنا چاہئے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو تیسراسال شروع ہوچکاہے اس لئے اب کام کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت ہے۔ مذاکرات تمام قومی امورپرہونے چاہئیں۔ الیکشن کے قوانین ہوں یا نیب کے قوانین میں ترامیم حکومت اور اپوزیشن کواتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے۔ سینیٹ الیکشن ہو یا کوئی دوسرا قومی معاملہ افہام وتفہیم کے بغیرکوئی حل نہیں۔


بے نظیربھٹوکی برسی ہمیں مذاکرات کاسبق دیتی ہے۔بے نظیربھٹوکاسبق یہ ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اس لیے جمہوریت کومضبوط بناکربے نظیر بھٹو کی برسی منائی جاسکتی ہے۔صحافت کو آزاد اور غیرجانبداربنائے بغیرملک کوآگے نہیں بڑھایا جا سکتا اور نہ ہی عدلیہ کو آزاد اور خود مختاربنائے بغیرہم لوگوں کوانصاف دلا سکتے ہیں۔بے نظیربھٹوغریبوں کی حامی تھیں۔ عام آدمی کا سوچتیں اوراُن کے لئے کچھ کرگزرنے کاعزم رکھتی تھیں۔ آئیے آج ہم بے نظیربھٹوکی یادمیں اس عزم کااظہارکریں کہ ملک کی ترقی کے لئے کام کریں گے۔


جمہوریت، عدلیہ، پارلیمنٹ اور میڈیا کے کمزورہونے کی بدولت مریم نواز ایک symbolاورFighter کے طور پر سامنے آئی ہیں۔جس طرح بے نظیر بھٹو نے اپنے باپ کے مشن کوبڑھایااسی طرح مریم نوازنے اپنے باپ میاں نواز شریف کی سوچ کوپروان چڑھایا ہے۔ بے نظیر بھٹو ہوں یا مریم نواز لوگ جمہوریت چاہتے ہیں۔ عام انسانوں کا بھلا چاہتے ہیں۔ عدالتوں سے انصاف چاہتے ہیں۔صحافت کو غیر جانبدار دیکھنا چاہتے ہیں۔ ”ووٹ کو عزت دو“کے نعرے کو کبھی ختم نہیں کیاجا سکتا، جب تک صحیح معنوں میں ایسا نہ ہوجائے، وگرنہ بے نظیر بھٹو آئے گی اورمریم نوازبھی اوریہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔

مزید :

رائے -کالم -