کپتان جی سنچری کھڑکا دیو
بھائی جان اگر اُڑنا نہ آتا ہو تو پنگے نہیں لینے چاہئیں،لکھ لیں باوقت ضرورت کام آوے گی۔اپوزیشن کی بہت سی جماعتیں پوری کے چکر میں آدھی سے بھی جائیں گی۔کپتان جو کہتا ہے اسے سمجھیں،اب بھی وقت ہے کن ولیہٹ کے نیوے نیوے ہو کر پتلی گلی سے نکل جائیں۔مولانا فضل الرحمن کی جماعت میں جو بغاوت ہوئی اسے سمجھیں عقل مند کو اشارہ کافی ہوتا ہے۔ضروری نہیں کہ بندے کے کن تھلے وجے تو ہی اسے سمجھ آئے۔عمران خان جو بول رہے ہیں وہ بیانات نہیں آنے والے دنوں کی چتاؤنی ہے اور اس وقت میں نہیں ”بولدی میرے وِچ میرا یار بولدا“ہے۔اپوزیشن کو ویسے تو سمجھ آگئی ہے کہ غبارے میں بھری ہوا نکل چکی ہے اور اب اسے پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنا ہو گا۔جنگل کے باندر نے شیر کے حضور گستاخی کر دی،شیر نے غصے میں حکم دیا کہ باغی باندر کو پکڑ کر لایا جائے،اس کا نام ای سی ایل میں ڈا ل دیا گیا اور تلاش شرو ع ہو گئی،باندر اپنے خفیہ مقام پر وائی فائی کنیکٹ کر کے چھپ گیا،خیر اس کی لومڑی دوست کو وہ خفیہ اڈہ پتہ تھا،وہ وہاں رات کے سناٹے میں موبائل کی لائٹ آن کرکے پہنچی تو دیکھا باندر صاحب ایک ہاتھ پیچھے باندھے دوسرے میں سگریٹ سلگائے ٹہنیوں پر مٹر واک کر رہے ہیں،لومڑی بولی اے باغی باندر کیا کر رہے ہو،باندر نے سگریٹ کا دھواں اُڑایا اور بولا باجی ”تینوں پتہ اے پنگا لوؤے تے فیر ٹینشن وی لینی پیندی اے“۔بس لکھ لیں جس جس نے بغاوت کی وہ ٹینشن لینے کے لئے تیار رہے،وہ کوڑھ کرلیاں جو شہتیروں کو جپھے نہیں ڈالیں گی،محفوظ رہیں گی۔شاہد خاقان عباسی کو ملنے والی ای سی ایل کی چھوٹ کو ہی لے لیں۔
بھیا میرے یا تو یہ عدالتیں بند کر دیں یا کہہ دیں کہ ان عدالتوں سے بس کمزور اور ماڑوں کو پانجے لگیں گے، اور طاقتور وں کو کورنش بجاتے ہوئے،”جھوم چھڑکڑا سائیاں دا“گایا جائے گا۔اگر کپتان یہ کہتا ہے کہ عدالتوں کو تو فیس کرنا پڑے گا تو یہ اب عدالتوں کا کام ہے کہ صحیح یا غلط کا فیصلہ کریں،انصاف کریں اور بلا تفریق و امتیاز کریں۔ویسے اگر مولانا فضل الرحمن پاکستانی شہری ہیں اور پاکستانی قانون کا احترام کرتے ہیں تو انہیں عدالتوں کے سامنے پیش ہونے سے کیا خوف ہے۔یا پھر یہ طے کر لیاجائے کہ جس کے پاس اپنی ڈنڈا بردار فورس ہے اسے عدالتوں کے سامنے پیش ہونے کی ضرورت نہیں۔چلیں جی ”مٹی پاؤ تے کھانا کھاؤ“ ہم تو ایویں لوس رہے ہیں۔وڈے لوگوں کے وڈے سٹیک اور وڈے نقصان ہوتے ہیں۔ہم تو چراغوں کی طرح دو روٹی نہ ملنے پرپھڑک کے مر جاتے ہیں چھوٹے لوگوں کے چھوٹے سٹیکس۔شہتیریوں کو جپھے ڈالنے والے آصف زرداری سے سیکھیں کہ کس خوش اصلوبی سے آرام فرما رہے ہیں۔پیشیاں ویشیاں سب مک گئیں،کب سے کہہ رہا تھا پیپلز پارٹی ایویں شیویں کی ہارڈ لائینر بنی ہوئی ہے عین موقع پر تھو ہ مارا کہہ دے گی۔
اللہ خوش رکھے محمد علی درانی کو انہوں نے اندر کھاتے چلنے والی ”بھل چک لین دین“ کے معاملات میں شہباز شریف سے ملاقات کا وٹہ سُٹ کے ہنیرہی پا دیا۔وہ چاہے اس بات کی تردید کردیں کہ لندن میں بڑے بھیا سے مذاکرات چل رہے ہیں۔ لیکن ہمارے بھی لندن میں بہت سے چٹے یار ہیں۔وہ الطاف حسین سے لے کر بڑے بھیا تک سب پر اکھ رکھتے ہیں۔وہ بتا رہے ہیں کہ فلیٹس پر ہولے سے باد نسیم چلی ہے اور بیمار کے چہرے پر بھی کسی حد تک باوجہ قرار نظر آرہا ہے۔شاہد خاقان بھی ادویات کا نیا نسخہ لے کر پہنچنے والے ہیں۔سنتا سنگھ کی بیوی مر گئی وہ بنتا سے بولا یار پوری کوشش کر لی رونا نہیں آرہا،بنتا سنگھ اس کے کان میں بولا سمجھ وہ واپس آرہی ہے، کہتے ہیں کہ سنتا سنگھ کے آنسو رکنے میں نہیں آرہے تھے۔میرے بھائیو ! سمجھ لو اب کی بارمفاہمت کی سیاست پھر واپس آرہی ہے،جلد ہی گلشن گلشن پھول کھلنے لگیں گے۔جاتی امراء سے لے کر بلاول ہاؤس تک چاک دامن سلیں گے۔انجمن انجمن آرائش ہو گی۔محمد علی درانی اس”بہار فیسٹول“ کے روح رواں ہو ں گے۔سب اچھے بچوں کی طرح غیر سیاسی ہو جائیں گے،چھوٹے بھیا بھی اپنی پسندیدہ چارپائی جیل سے گھر پہنچائیں گے۔راوی ڈندے کے زور پر چین ہی چین لکھے گا۔کپتان جی گلیاں پھر آپ کے لئے سونجی ہو رہی ہیں۔اک واری آپ ان غریبوں کے لئے بھی اننگز کھیل لیں وکٹ سیدھی ہو گئی ہے،سٹمپ ہونے کا خوف نہیں،غربت،بے روز گاری،ناانصافی کے خلاف سنچری کھڑکا دیں۔