پیغام پاکستان قومی مشائخ کانفرنس  برائے ملی یکجہتی  و سماجی ہم آہنگی منعقد

پیغام پاکستان قومی مشائخ کانفرنس  برائے ملی یکجہتی  و سماجی ہم آہنگی منعقد
پیغام پاکستان قومی مشائخ کانفرنس  برائے ملی یکجہتی  و سماجی ہم آہنگی منعقد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈاکٹر پیر علی رضا بخاری

فیصل مسجد میں گزشتہ ہفتے پیغام پاکستان قومی مشائخ کانفرنس برائے ملی یکجہتی و سماجی ہم آہنگی منعقد ہوئی،کانفرنس سے وفاقی وزیر پیر نور الحق قادری ،سابق وزیر مملکت پیر امین الحسنات شاہ،سجادہ نشیں عیدگاہ شریف پیر نقیب الرحمن ،سجادہ نشیں نیریاں شریف پیر سلطان العارفین،قاری صداقت علی،مفتی محمد حنیف قریشی ،ڈاکٹر ضیا الحق اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس میں راقم نے اس نکتے پر زور دیا کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان دشمنوں کے خلاف واضح بیانیہ اپناتے ہوئے ان کی بیخ کنی کے لئے سخت اقدامات اٹھائے جائیں ،ایک معیاری فوج برقرار رکھنے کے لئے سترہ فیصد بجٹ کم ہے ان وسائل میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے ،بڑی سیاسی جماعتیں ملک کو درپیش چیلنجز پر توجہ دینے سے صرف نظر کررہی ہیں۔ علما کرام مساجد سے جمعہ کے خطبوں میں ملکی سلامتی،یکجہتی اور مضبوط مسلح افواج برقرار رکھنے کی اہمیت پر پیغام پاکستان کا بیانیہ عوام کو سمجھائیں۔فکری انتشار ،اندرونی و بیرونی سازشیں ،انتہاپسندی قومی یکجہتی و امن کو درپیش بڑے خطرات میں سے اہم ہیں  جن سے نمٹنے کے لئے پیغامِ پاکستان ایک پاورفل اور نظریاتی بیانیہ ہے،پیغامِ پاکستان کے ذریعے ہم دہشت گردی، نفرت، انتہاپسندی اور تشدد کے مسائل کو امن کے ماحول، مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے میں بدل سکتے ہیں۔
امن، بھائی چارہ، برداشت اور معاف کر دینا اسلام کی اصل روح ہے مگر انتہاپسند اور بنیاد پرست عناصر ہمارے مذہب کی اس ساکھ کا استحصال کر رہے ہیں ۔پاکستان میں انتہاپسندی کے انسداد کے بیانیے کی جستجو وقت کی ضرورت ہے"۔ اگر علما اور مشائخ نے پیغامِ پاکستان کی کوشش کوعام کرنے میں تاخیر کی تو انتہاپسندی میں اضافہ ملک کے ڈھانچے کو تباہ کر دے گا۔
میری رائے میں انتہاپسندی پاکستان کی ترقی کی راہ میں کھڑی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قوم کے لیے ضروری ہے کہ وہ امن اور ہم آہنگی کے اس پیغام کو سمجھے جسے قرآن اور خاتم النبیین حضرت محمد (صلی اللہ و علیہ وسلم) کی تعلیمات میں دیا گیا ہے۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی، تشدد، بنیاد پرستی اور فرقہ ورانہ تعصب نے پہلے ہی قوم کو منقسم کر دیا ہے اس لیے انتہاپسندی کا خاتمہ کرنے کے لیے مذہبی ہم آہنگی کا فروغ ایک قومی ضرورت ہے-انتہاپسندوں کی طرف سےکیا جانے والا اسلام مخالف اور پاکستان مخالف خودغرضانہ پروپیگنڈا ہمیں نفرت، مذہبی عدم ہم آہنگی اور دہشت گردی کی طرف لے آیا ہے۔ علما مشائخ،مدرسوں میں طلباء اور اساتذہ امن اور ہم آہنگی کو حاصل کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ،ہمیں مدرسوں کے اس منفی تصور کا خاتمہ کرنا ہے جو کہ ہمارے مذہب کے اصل نظریات پر منفی طور پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ اسلام امن کا مذہب ہے اور یہ ہمیں امن اور بھائی چارے کو پھیلانے کا درس دیتا ہے۔پیغامِ پاکستان پرامن پاکستان کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ حکومت کو اپنی کوششوں میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ ہم اس پلیٹ فارم کے ذریعے اپنی مشترکہ تشویش پر قابو پا سکیں اور برداشت اور ہم آہنگی کو پھیلانے سے دشمن کو ناکام بنا سکیں۔انتہا پسندی اور دہشت گردی ایک ناسور ہے اور فرقہ واریت مسلم معاشروں کی طاقت کو کھوکھلا کررہی ہے یہ دونوں مسئلے ، فی زمانہ ملتِ اسلامیہ کے اہم ترین مسائل ہیں۔ ایک کے نتیجے میں امن وامان جیسی عظیم الشان نعمت سے محرومی اور دوسری کے نتیجے میں اتحاد جیسی ملی قوت کا خاتمہ سامنے آرہا ہے۔ ان دونوں مسائل کا تعلق اور ان کی بنیادیں، کسی اور نہیں بلکہ خالص مذہبی نظریات میں ہی پیوست ہیں۔ ان دونوں مسائل کا استدلال بھی خالص مذہبی نوعیت کا ہے اور اُن سے زیادہ متاثر ہونے والا بھی مذہبی طبقہ ہی ہے، اوراس سلسلے میں پائے جانے والے افراط وتفریط کو کتاب وسنت کی روشنی میں ہی واضح کیا جاسکتا ہے۔ پیغام پاکستان عام کرنے کے لئے ہمارے پاس مذہبی قیادت کی مختلف صورتیں ہیں جن میں مفتیان وقاضیان،ائمہ وخطبا،   علما ،مدرّسین علوم اسلامیہ، منتظمین مراکز ومدارسِ دینیہ، قائدین وذمہ دارانِ تحریکاتِ اسلامیہ، اہل علم وقلم، اہل فکر ودانش،سرکاری جامعات میں علوم اسلامیہ کے اساتذہ وپروفیسرز، تحقیقی اور اشاعتی وابلاغی اداروں کے ذمّہ داران او رقائدین ، مذہبی سیاسی   جماعتوں کے قائدین اور ذمّہ داران شامل ہیں اور ان میں اکثر کے پاس ابلاغ کی مؤثر ترین صورت مسجد کا مقدس منبر او ر خطباتِ جمعہ ہیں، جن میں ہمہ تن گوش ہوکر شریک   ہونا ہر مسلمان کا شرعی فریضہ ہے۔ اس سٹیج پر پورے تقدس وانہماک سے ہرمسلمان سر جھکاکر، دین کا پیغام سنتا ہے۔اتنا بڑا سٹیج اور ایسا مقدس پلیٹ فارم کسی بڑے سے بڑے حکمران کو بھی میسر نہیں۔ یہ مالک الملک اور خالق کائنات کے گھر میں، خالق کی پیش کردہ رہنمائی کا نظام ہے۔ ان خطبا کے استدلال کا محور اللّٰہ کا قرآن اور نبی کریم ﷺکا فرمان ہوتا ہے جو اہم ومقدس ترین استدلال ہے۔ قومی یکجہتی کے حوالے سے دینی قیادات اس سلسلے میں درج ذیل پہلؤوں سے اپنا کردار ادا کرسکتی ہے:   شرعی تعلیمات کی وضاحت اور علمی نکھار کے ذریعے... دہشت گردی   کا مفہوم کیا ہے؟ اس کا مصداق کیا ہے اور کیا نہیں؟شریعت میں دہشت گردی کی مذمت کس کس طرح کی گئی ہے ، اور فساد فی الارض کی بدترین سزا کیا بتلائی گئی ہے؟علماے کرام اپنے شرعی موقف کو کتاب وسنت کے دلائل ، عقلی ومنطقی استدلال، تاريخی مثالوں اور عبرت آموز واقعات سے مزین کرکے مختلف اسالیب ووسائل سے معاشرے میں پھیلاسکتے ہیں۔مثلا
1.     خطاباتِ جمعہ کے ذریعے
2.     دعوتی دروس وخطابات کے ذریعے
3.     تعلیم وتعلم او راپنے طلبہ کے فکری نکھار اور علمی رسوخ کے ذریعے
4.     ٹی وی مذاکروں، مباحثوں او رخطابات کے ذریعے
5.     اخبارات میں مضامین واشتہارات او رخبروں و سیمینارز کے ذریعے
6.     مختصر تحریروں، کتابچوں، پمفلٹوں ، کارڈز، ہینڈبلوں کی تیاری اور عوامی مقامات پر اُن کی تقسیم ، اشتہارات، بل بورڈز، وال ہینگنگز،بینروں وغیرہ کی صورت میں-
   علماے حق کا ہر مسلمان کے ہاں خاص احترام پایا جاتا ہے۔ بالخصوص دینی دلائل کی بنا پر گمراہی کا شکار ہونے والے دراصل حق اور اصلاح کے جویا ہوتے ہیں، اپنی کم علمی اور وافر دینی جذبہ کے سبب   غلط اور انتہا پسندانہ موقف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگر ان سے ملاقاتوں اور تبادلہ خیال میں علما کو آگے بڑھایا جائے تو اس سے ان کے علم واحترام کی بنا پر حالات میں بہت سی اصلاح ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
علماے کرام اس موضوع پر پائے جانے والے ابہام اور اعتراضات کا شرعی دلائل سے خاتمہ کرکے اور درست واقعاتی صورتِ حال کو جان کر، اور اس کو مثبت انداز میں پھیلا کربھی ذہنی خلفشار کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے حکومت راست فکراور ممتاز علما کو متحد کرکے، ان کے زیر اثر حلقوں میں اُن کے پیغام کو پھیلاسکتی ہے، جس کے لیے ان کے براہِ راست خطابات اور ان کی تحریریں مؤثر کردار ادا کرسکتی ہیں۔
مساجد کے خطبات ودروس، مدارس  کے نصابات، سکول وکالج اور جامعات کے نصابات، جلسہ جات وسیمینار کے موضوعات،مباحثوں مذاکروں کے موضوعات میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کی تردید اور متوازن ومعتدل رہنمائی کو مختلف اسالیب میں متعارف کرایا جائے۔سلیم الفکر علما کے ساتھ ، معروف اور مؤثر میڈیا پرسنز کی میٹنگیں کرائی جائیں اور متفقہ نکات پر مشتمل ٹی وی پروگرام کرائے جائیں ، جس میں دلچسپی اور تاثیر کے لئے بطورِ خاص منصوبہ بندی اور تیاری کی جائے۔