شہادت کا سفر

شہادت کا سفر
شہادت کا سفر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

Shadow,
I will miss u. I thank u for all u did for the prty and me from the time I met u in 1977. Forgive me if I hurt u but I want u to know I always valued ur support. God bless you.
Bibi
Sent from my BlackBerry (R) wireless device
اس ای میل کے مختصر پیغام میں یہ مفہوم پنہاں تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہادت کے سفر پر روانہ ہو رہی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ایک عظیم انسان تھیں ان کی زندگی کا خوبصورت ترین پہلو یہ تھا کہ وہ دوسروں کے غم میں شریک ہو کر درد بانٹتی تھیں کسی کو مصیبت میں دیکھ کر ان کا دل بھر آتا تھا اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔ بی بی شہید بے حد رحم دِل، شفیق اور غمگسار خاتون تھیں۔عورتیں آج بھی بی بی کے اسی اوصاف کو یاد کرکے اداس اور غمگین ہو جاتی ہیں۔ غریب اور نادار عورتوں کے دل بی بی کی محبت، احترام اورعقیدت سے معمورہیں۔ پارٹی کارکنوں کے دل ان کی محبت میں دھڑکتے ہیں۔ بی بی کی دائمی جدائی نے احترام اور عقیدت کے اس رشتہ کو مضبوط تر کیا ہے۔ بی بی کی یہ بہت بڑی خوبی تھی کہ وہ اگر کسی سے ناراض ہوں تو بہت جلد غصہ کو بھول جاتی تھیں اور معاف کرنے کے اس وصف نے انہیں مخالفین میں بھی مقبو ل بنا دیا تھا۔


بی بی کی شخصیت کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس سے وہ ناراض ہوتی تھیں اسے بھول کر وہ اپنائیت سے اس کی تلافی کرتی تھیں۔
اس ضمن میں اس واقعہ کا ذکر ضروری ہے۔ بی بی کے لئے ایک لائق اور مہذب سیکرٹری فریدہ ہدایت اللہ نے 70 کلفٹن میں کام شروع کیا چند روز بعد اس نے روتے ہوئے کہا کہ وہ کام چھوڑ رہی ہیں۔ہوا یوں کہ بی بی اپنے کچھ کاغذات رکھ کر بھول گئی تھیں اور اس کا سارا غصہ سیکرٹری پر نکالا۔میں نے فریدہ کو سمجھایا کہ یہ ناراضگی تمہاری خوش نصیبی ثابت ہو گی اور یہی ہوا۔ وہ کاغذات مل گئے اور بی بی نے فریدہ سے نہ صرف معذرت کی بلکہ اسے بہترین خوشبو کا تحفہ دیا اور شفقت کا اظہار کیا۔ فریدہ بی بی کی پسندیدہ سیکرٹری ثابت ہوئی۔ وزیراعظم،بلکہ بی بی کے پرسنل سیکرٹری کے طور پر پرائم منسٹر ہاؤس میں تعینات رہی۔ بی بی شہید صوفیانہ اوصاف کی حامل تھیں۔ صوفیا کرام سے ایسی عقیدت تھی، اس کی بدولت ان میں انکساری و سادگی کے اوصاف ان کی شخصیت کا جزو بن گئے۔ ان کے اس اوصاف اور وجدان کی یہ مثال قابل ِ ذکر ہے۔
اگست2007ء میں بی بی پاکستان واپسی کا پروگرام بنا رہی تھیں۔ ایک دن لنچ پر ہمارے درمیان یہ مکالمہ ہوا۔ ”بی بی آپ پاکستان واپس جا رہی ہیں۔ مجھ سے کوئی غلطی یا گستاخی کبھی ہوئی ہو تو اس کے لئے میری معذرت قبول کیجئے گا۔


بی بی نے جواب دیا۔نہیں! میں آپ سے معافی کی خواستگار ہوں کہ اگر مجھ سے کوئی زیادتی ہوئی ہو۔زندگی کے رنگ نرالے ہیں بے شک مجھے آپ سے معافی مانگنی چاہئے۔بی بی نے پھر وہی جواب دیا اور کہا کہ آپ مجھ سے زیادہ عرصہ جئیں گے۔آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی زندگی عطا کرے۔
بیشBash آپ مجھ سے زیادہ عرصہ جئیں گے اور آپ کی زندگی طویل ہو گی۔“بی بی شہید کی یہ بات27 دسمبر2007ء کو سچ ثابت ہوئی، اور دہشت گردی کے بھیانک اور خوفناک حملے میں وہ شہید ہو کر خالق ِ حقیقی سے جا ملیں۔ بی بی کے وہ زندہ رہنے کے الفاظ آج مجھے پریشان کرتے ہیں اور حیرت زدہ۔


14 اگست صنم بھٹو کی سالگرہ تھی۔ بی بی نے بچوں کو پہلے ہی دبئی بھیج دیا تھا وہ اپنی ہمشیرہ کی سالگرہ کے لئے رک گئی تھیں۔ صنم کی سالگرہ منانے کے بعد وہ اگلے دن دبئی کے لئے روانہ ہو گئیں۔ اس وقت میں انہیں الوداع کہنے کے لئے ساتھ نہیں تھا۔ ایئرپورٹ جاتے ہوئے وہ اپنی کزن کے ہاں مختصر قیام کے لئے رکیں مجھے فون کرکے کہا ایئرپورٹ ساتھ جانے کے لئے وہاں آجاؤں، لیکن وقت کی کمی کے باعث یہ ممکن نہ تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں انہیں خدا حافظ کہنے کے لئے ان کے ساتھ نہ تھا۔یہ معمول تھابی بی کو ایئرپورٹ سے لینا اور رخصت کرنا خوشگوار فریضہ تھا۔ بی بی کی آمد کو خفیہ رکھا جاتا تھا اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ لندن آمد کی خبر سن کر بہت سارے لوگ ملاقات کا وقت مانگتے تھے۔ ایئرپورٹ جاتے ہوئے بی بی سے فون پر طویل بات چیت ہوئی، دورانِ گفتگو میں نے بی بی سے کہا کچھ وسوسے اور خدشات ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ نیک شگون نہیں آپ کے پاکستان واپسی کے سفر میں،پہلی مرتبہ میں ساتھ نہیں ہوں گا۔


میرے خدشات اور وسوسے یوں درست ثابت ہوئے کہ 18اکتوبر کوسانحہ کارساز دہشت گردی کا سانحہ ہوا، جن میں کثیر تعداد میں کارکن شہید ہوئے۔اس بم بلاسٹ کا اصل ٹارگٹ بی بی خود تھیں، لیکن وہ محفوظ رہیں اور پارٹی قیادت بھی جو ٹرک پر سوار تھی۔ یہ خوفناک واردات خوفزدہ کرنے والی تھی اور حفاظتی اقدامات اور احتیاط کی ضرورت تھی، لیکن اگلے دن بی بی شہید نے ان خطرات کے برعکس شہید ہونے والوں کے افسوس کے لئے ان کے اہل خانہ کے ہاں جانے کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔ وہ متاثرین کے گھر گئیں ان کا غم اور درد بانٹا اور ان کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور ڈھارس بندھائی۔بی بی کی جرأت و بہادری بے مثال ہے سانحہ کارساز کے بعد جو خطرات تھے انہیں بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کے اس غیرمعمولی اقدام سے قاتل قوتوں کو بھی تعجب ہوا، اور انہوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے نئی منصوبہ بند ی کی۔
18اکتوبر کو سانحہ کارساز ایک واضح پیغام تھا۔ بی بی شہید ان قوتوں کا نشانہ تھیں، لیکن بی بی شہید نے انتخابی سرگرمیوں کا آغاز کرکے ان تمام خطرات کی پرواہ کئے بغیر انتخابی مہم جاری رکھی۔ نومبر کے اوائل میں وہ لاہور آئیں۔ان کا قیام لطیف کھوسہ کے ہاں تھا، کارکنوں کے علاوہ صحافیوں سے بھی ملیں، چنانچہ ان سرگرمیوں کے پیش نظر حکومت نے انہیں اس گھر میں نظربند کر دیا اور ملاقاتوں پر پابندی لگا دی۔ مجھے بھی ملنے کی اجازت نہ دی گئی اور یہ عذر پیش کیا کہ میں ایک دن پہلے ان سے مل چکا ہوں۔16،17نومبر کو وہ اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئیں اور اس نصیحت کا اعادہ کیا کہ مجھے ان کے کسی جلسے یا جلوس میں نہیں جانا اور گھر پر ہی رہنا ہے Stay put ان کے الفاظ تھے۔اسلام آباد روانگی سے قبل انہوں نے ایک بھرپور پریس کانفرنس کی اور انتخابات کے لئے پیغام دیا کہ پارٹی کارکن اس کی تیاری کریں اور حکومتی دباؤ میں ہرگز نہ آئیں۔


بی بی شہید کا زندگی کے بارے میں یہ فلسفہ تھا کہ جس دن موت نے آنا ہے اور گولی لگنی ہے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ بی بی کے اس انداز فکر سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ موت کے سفر پر ہیں، اور اپنی زندگی کو لاحق خطرات سے بے نیاز ہیں، بے مثال جرأت و بہادری ان کی سیاست کا اہم جزو تھا انہوں نے جنرل ضیاء سے لے کر جنرل مشرف تک قیدوبند اور جلاوطنی کا عذاب برداشت کیا تھا اور اس سے ان کے حوصلہ و ہمت کو جلا بخشی تھی۔ یہی حقیقت ہے کہ ان خطرات کی وارننگ کی پروانہ کرتے ہوئے لیاقت باغ کے جلسہ سے خطاب کیا اور جامِ شہادت نوش کیا۔یہی بی بی کی پہچان تھی اور بے مثال جرأت کی نشانی!


محترمہ بے نظیر بھٹو عالمی سطح کی روشن ضمیر راہنما تھیں اور عالم اسلام اور مغربی مالک میں عزت و تکریم کا سمبل تھیں۔ انسانی حقوق کے لئے ان کی کوشش اور دلچسپی نے انہیں فلسطینی اور کشمیری عوام میں بے حد مقبول بنا دیا تھا۔ ان کے جمہوری حقوق کے لئے وہ ان کی آواز تھیں اس جذبہ سے سرشار کشمیر کے عوام کی توقعات کا مرکز تھیں، کیونکہ وہ عالمی سطح پر ان کے حقوق اور آزادی کے لئے ہر سطح پر آواز بلند کرتی تھیں۔ فلسطینی قیادت تو انہیں دخترِ اسلام کے لقب سے یاد کرتی تھی۔کشمیریوں کے لئے انہوں نے آل پارٹیز حریت کانفرنس کو واحد نمائندہ قرار دیاتھا۔ دہلی میں منعقدہ سیمینار میں یہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی آل پارٹیز حریت کانفرنس کو کشمیریوں کی واحد نمائندہ تنظیم تسلیم کرتی ہے اور تنازعہ کشمیر کے حل میں ایک اہم فریق ہے۔ اس لئے ان کے موقف کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کا اندرون اور بیرون ملک جو نقش ثبت ہے اسے نہ تو مٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ ان پر بے شک عرصہئ حیات تنگ کیا گیا،لیکن عوام کے دلوں سے ان کی محبت ختم نہیں کی جا سکتی۔27دسمبر2007ء کو شہادت کے باوجود دنیا بھر میں عوام کے دِلوں پر حکومت کر رہی ہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو14سال ہو گئے ہیں، لیکن ان کی یاد زندہ ہے۔ زندہ ہے بی بی زندہ ہے۔

مزید :

رائے -کالم -